پری ہسٹاریکل بلوچستان نے جہاں دنیا کو دیکھنے کے لیے ایک الگ لینز فراہم کی وہیں بلوچستان کے دیگر شہروں کی طرح بارکھان کروڑ وںسالوں قبل کی تاریخ رکھتا ہے۔ بلوچستان کی مائتھالوجی ہو یا آرکیالوجی وہ بارکھان کے بغیر شاید مکمل نہ ہو وہ اس لیے بھی کیونکہ تاریخ دان ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہیں کہ یہاں بارکھان میں چار کروڑ ستر لاکھ قبل وہیل مچھلی کے فوسلز ملے ہیں۔ خشکی پر رہنے والے اس مچھلی کو روڈو سیس بلوچستانانی سس کا نام دیا گیا ہے۔ بلوچستان کا یہ علاقہ سرسبز جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ جس کے ثبوت فرانسیسی ماہر فوسلز جان لوک ولکم نے کھدائی کے دوران معلوم کیے ۔جب ان کو بلوچی تھیریم نامی جانور بگٹی علاقے میں ملے۔ یہ ہربی وور (سبزہ خور جانور) جس کا وزن 20 ہزار کلو گرام تھا یہ ریوڑ کی شکل میں چرتے تھے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے دیوہیکل جانور کی خوراک کے لیے کتنی زیادہ خوراک کی ضرورت پڑتی ہوگی اور یہ ضرورت بارکھان و ڈیرہ بگٹی اور متصل علاقے پورا کرتے ہوں گے۔ اسی طرح کچھ سال پہلے ڈائنوسار کے فوسلزوٹاکری بارکھان کے مقام پر ملے۔
آرکیالوجی کے بعد کی دریافتوں میں بھی بہت سے آثار قدیمہ بارکھان کے مختلف علاقوں سے ملے اور یہ مہرگڑھ کے تہذیب سے کہیں نہ کہیں جڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ بارکھان کا علاقہ چونکہ گزرگاہ بھی تھا اس لیے بھی تجارت سمیت مختلف فوجیں بھی اسی علاقے سے گزر کر جاتیں اور اپنے نقوش چھوڑ کر گئیں جیسے پہاڑوں کے دروں کے اندر جانوروں کی تصاویر جو شاید ہنٹنگ سماج کی نشاندہی کرتی ہے۔
بارکھان کا موجوہ جیوگرافی کچھ ایسا ہے کہ اس ضلع کی سرحد مشرق میں پنجاب کے ساتھ لگتی ہے۔ بارکھان کے جنوب میں بگٹی ، مغرب میں مری ، شمال مغرب میں لورلائی اور شمال میں موسیٰ خیل واقع ہے۔
بارکھان 1556 سے ٍ1605 تک مغل ڈائنسٹی کا حصہ رہا ہے اور اکبر کے دور میں جناح کے نام سے مشہور تھا اور اب تک مغل سلطنت کے آثار قدیمہ ملتے ہیں۔ اسی طرح بارکھان کے علاقے ناہر کوٹ میں سوران کا مقبرہ ہے۔ یہاں کے لوکل لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ہن ماری ہل جو کہ 4500 سال ہزار سال پرانا ہے کو مقدس جگہ سمجھا جاتا ہے۔
بارکھان کا نام بارو کھار پر رکھا گیا ہے جس کا تعلق باروزئی خاندان سے تھا جو سبی کے حکمران رہے ہیں۔ بارکھان کو 1991 کو ضلع کا درجہ دیا گیا جو کہ پہلے لورلائی ضلع کی تحصیل تھا۔ اور یہاں کی 70فیصد آبادی زراعت سے منسلک ہے اور زراعت میں وادی بغائو کے سیب مشہور ہیں ، ناہر کوٹ آالو پیاز اور سبز مرچ کاشت کی جاتی ہیں ، رکنی میں کپاس سب سے زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ یہاں کی آبادی کا زیادہ دارومدار اسی زراعت پر ہے۔ یہاں کی زمین ہر طرح کی کاشت کے لیے موضوع ہے پانی وافر مقدار میں ہے تاہم مناسب منصوبہ بندی ، ہائبرڈ بیج اور جدید فصلات پیداوار کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔
رکنی میں مال مویشی کی منڈی لگتی ہے جو کہ سالا سال ہوتی ہے۔ متصل علاقوں سے لوگ اپنے مویشی اس منڈی میں لاتے ہیں سوداگر مختلف علاقوں سے آ کر یہاں سے سستے میں مویشیاں خریدتے ہیں۔ مویشیوں کی یہ منڈی کافی عرصے سے قائم ہے ، یہ منڈی نہ صرف تجارت بلکہ ثقافت ، سیاست ، ادب اور آرٹ کا ایک گیدرنگ ہے۔ یہاں مختلف زبانیں بولنے والے بلوچ قبائل یکجا ہوتے ہیں خوشی غمی پر بات ہوتی ہے مال مویشی اور بارشوں پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ وبا جو مویشیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ غرض اگر یہ بات کہی جائے تو غلط نہ ہو گا کہ بلوچ کو وقار بخشتا ہوا یہ مارکیٹ ہمارے سماج کی ادب ،سیاست، ثقافت اور آرٹ کا محافظ ٹھہرا۔
بارکھان کا شہر رکنی چونکہ تمام متصل علاقوں کو آپس میں ملاتا ہے اس لیے اس کو تجارت کا حب سمجھا جاتا ہے تاہم حکمران طبقے کی نااہلی ہی سمجھی جا سکتی کہ یہاں سبزی اور دیگر چیزوں کو پریزرو کرنے کا کوئی پروسسنگ یونٹ نہیں جس کی وجہ سے کسان کو سستے دام اور بڑی مشکلات کے بعد پنجاب باڈر کراس کرکے پنجاب میں پھل و سبزی فروخت کرنی پڑتی ہے۔
کھیتران (کھیترانڑ) بلوچ قبیلہ ہے جو کہ بلوچستان میں ضلع بارکھان میں رہتے ہیں اور پنجاب کے علاقے وہوا میں بھی رہتے۔ بارکھان جو کہ شروع سے بلوچ حکمران کے زیر نگران رہا ہے اور یہ علاقہ کھیترانڑ پر کامی ادوار میں حملے کی کوشش کی جو کہ کھیترانڑ قبائل نے کیا۔
1884 میں بارکھان کو گورنر جنرل بلوچستان کے کنٹرول میں دیا گیا اور وٹاکڑی کو بھی پنجاب سے بلوچستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
1845 میں انگریز نے بگٹیوں پر حملہ کیا جس میں کافی نقصان ہوا۔ اور اس جنگ میں کھترانڑ قبائل نے بگٹیوں کی مدد کی اور ان کو پناہ دی۔ کھیتران قبائل شروع سے ہی مزاحمتی قبائل سمجھے جاتے رہے ہیں ہے جس میں مصری خان کھیترانڑ بلوچ ہسٹری میں نامور کردار ملتا ہے۔ جس نے سامراج کے خلاف بغاوت کی۔ انگریز کے بقول وہ بہت کیریکٹر اور اثر والا شخص تھا۔ مصری خان کھترانڑ 1917 کے سوشلسٹ انقلاب سے نظریاتی طور پر متاثر تھا۔ اور سامراج دشمنی جنگ میں ایک زبردست حمایتی کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اور کئی بلوچ معرکوں پر بلوچوں کی قیادت کی۔
آجکل کے بلوچستان کے بدلتے حالات میں بارکھان اور کھترانڑ قبائل کافی توجہ کا حامل بنا ہوا ہے چاہے وہ بلوچ مزاحمتی سیاست ہو یا بھی فیوڈل کے خلاف جمہوری جدوجہد۔ بارکھان کے نوجوان کافی شعور یافتہ اور ایجوکیٹڈ ہیں وہ اپنے مسائل کے خلاف صف بند ہیں اور لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیمی طور پر بھی خود کو مضبوط کر رہے ہیں۔ بارکھان کے نوجوانوں نے فیوڈل سردار کو مسترد کیا اور اپنے حقوق کی جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک بات قابل تحسین ہے کہ نوجوانوں کے اس قافلے میں بارکھان کی قابل بیٹیاں بھی اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ تاریخی طور پر اہم اس شہر کو مزید بہتر بنانے کے لیے ابھی تک نوجوانوں کو بہت قربانیاں دینی ہیں اور بڑے کٹھن راہوں سے گزرنا ہوگا۔