مروجہ سیاسی بحثوں میں جس لفظ کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے شاید وہ ریاست ہے۔ موجودہ جدید طرز ریاست کی ابتدا زرعی معاشرے کے بعد اور ویسٹ فیلیا معاہدوں کے تناظر میں وجود میں آئی۔ جدید ریاست کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کیونکہ جاگیرداری زوال پذیر ہورہی تھی اور اس کی جگہ آہستہ آہستہ کارخانوں نے لے لی۔ اسی وجہ سے اسے صنعتی دور بھی کہا جاتا ہے۔ صنعتی دور میں جدید ریاست کی ضرورت اس لیے تھی کہ اب مارکیٹ وجود میں آچکے تھے اور مارکیٹ کا نظم و نسق کنٹرول میں ہونا ضروری تھا تاکہ ریاست کے اصل مالک یعنی سرمایہ دار محفوظ طور پہ اپنی اجارہ داری برقرار رکھیں۔

کارخانوں کی پیداوار کے لیے منڈیوں کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سرمایہ داروں نے دنیا کے مختلف ملکوں کا رخ کیا اور اسے اپنی اپنی کالونیاں بنا کر وہاں سے خام مال بڑی تعداد میں اپنے اپنے کارخانوں کو منتقل کیے۔ کارخانو ں میں اسے بروئے کار لاکر تیار مال کو انہی کالونیوں پہ بیجنے لگے۔

معاشی تاریخ کا یہ تسلسل آگے بڑھتا ہوا ایک اور دور میں داخل ہوا جس سے فرانسس فوکویاما نے دنیا کی تاریخ میں اسے آخری قرار دیا اور یہ آج بھی اپنی جدید شکل میں جاری و ساری ہے۔ اس نئے ورلڈ آرڈر کانام لبرل ڈیموکریسی ہے۔ مگر اس نئے ورلڈ آرڈر میں عام عوام کی کیا حیثیت ہوگی اس بارے فرانسس فوکویاما خاموش ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے صرف ہیگل اور کارل مارکس کی جدلیاتی تاریخی مقولے پر تنقید کی ہے۔ مگر آج لبرل ورلڈ آرڈر کے دنیا پر کیا اثرات ہیں اس سے تقریبا ہر کوئی واقف ہے۔ اس ورلڈ آرڈر میں ترقی اور کامیابی صرف وہی ہے جو سرمایہ داروں کو حاصل ہو اور اس کامیابی کا تھوڑا حصہ عام عوام کے حصے میں آتا ہے ۔ عام عوام میں بھی صرف ان لوگوں کو ملتا ہے جو اس دوڑ میں سب سے تیز بھاگیں۔ اس دوڑ کی وجہ سے سب کچھ مٹی میں دفن ہوگیا ہے۔ مثلا آج کامیاب ہونے کی شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس کتنا سرمایہ ہے اور آپ کی کامیابی کا تعین اب آپ کے سرمائے کی مالیت سے مشروط ہے۔
طاقت کے لیے اطاعت شرط ہے لہذا اس دوڑ میں ہر کوئی تیزی سے بھاگنے میں مگن ہے کیونکہ اگر وہ منزل کو بروقت پہنچ گیا تو وہ پیچھے رہ جانے والے پر آسانی سے اختیارات استعمال کرسکتا ہے اور اس کے لیے پیچھے رہ جانے والے پر ان کی اطاعت ضروری ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے اس پچیدہ بھاگ دوڑ کو سمجھنا اہم ہے کیونکہ اس دوڑ کا نام ہی ورلڈ آرڈر ہے۔ بھاگ دوڑ میں دو طرح کے گروہ موجود ہیں ایک وہ ہے جن کا واسطہ حکمران طبقے سے ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جن کا تعلق حکمرانی کی اطاعت سے ہے۔ اطاعت کرنے والوں کے لیے مختلف نوعیت کے حربے استعمال ہونے لگے۔ اب ان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ وہ پیچھے کیوں رہ گئے اور اس کے پیچھے رہ جانے میں ان سے کونسی غلطیاں ہوئیں اور ان حربوں کے ذریعے یہ یقین دلایا گیا کہ وہ ان غلطیوں سے سیکھنے کے بعد دوبارہ اس دوڑ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ پیچھے رہ جانے والوں کی اصلاح کے لیے مختلف ادارے وجود میں آئے اور انہوں نے ان لوگوں کے لیے مختلف شخصیات کو پروموٹ کیا۔ حالانکہ اصل سوال یہ ہے کہ اس دوڑ کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے محنت سب پر فرض ہے۔
اس نئے ادارے میں ان اشخاص کی ضرورت تھی جو عام عوام کی ذہنوں پر باآسانی مسلط ہوسکے لہذا ان اشخاص کو اس کام کی تربیت کے لیے بھی کوششیں ہونے لگی۔ آہستہ آہستہ ان اشخاص کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے سیاسی نظام میں انڑروڈیوس کرایا اور آہستہ آہستہ اپنی ٹیکٹکس سے عام عوام کے ذہنوں پر مسلط کیا گیا۔ اس کام میں سب سے زیادہ کردار میڈیا نے ادا کیا ہے جو کہ معصوم ذہنوں کے ساتھ بہت اچھی طرح کھیلتا ہے۔ اس پراسس کو پاپول ازم کا نام دیا جاتاہے کیونکہ اس میں چند لوگوں کی کامیابی ہوتی ہے اور یہ چند لوگ اس پاپولسٹ شخص کے ساتھ منسوب ہوتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی انتہا پسندی ہے اور اس کو رائٹ ونگ پاپول ازم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف معاشی کامیابی کا تصور ہے اور یہ بھی چند لوگوں تک ہی محدود ہے۔ اس میں عوام صرف استعمال ہوتے ہیں اور ان کی ذہن سازی اس طرح سے کی جاتی ہے کہ وہ اس شخص کے زیر اثر آجاتے ہیں جسے خصوصی طور پر یہ کام دیا گیا ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ریاست سے کیا تعلق ہے۔ ایسے اشخاص کی ضرورت اس لیے ہے کہ عام عوام کی ذہنی حالت کو منتشر کیا جائے اور اس کی آڑ میں اپنے مفادات بٹورتے جائیں۔ پارلیمنٹری ڈیموکریسی کا سب سے اہم فیکٹر ووٹنگ ہے اور ووٹنگ میں کامیاب ہونے کے لیے پاپولسٹ ہونا ضروری ہے کیونکہ اب عام عوام کو ترقی کی نہیں صرف بنیادی خوراک کی ضرورت ہوتی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ شخص ان کے مسائل حل کرسکتا ہے۔ رائٹ ونگ سے اس کا تعلق اس لیے ضروری ہے کہ اس میں خیال رکھا جاتا ہے کہ عوام سوال نہ اٹھائیں اور اس ضمن میں اکثر پاپولسٹ سیاستدان مذہب اور نسل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
رائٹ ونگ میں سوالات نہیں ہوتے ہیں بلکہ عوام صرف ایک شخص سے توقعات رکھتے ہیں ۔ لہذا توقعات رکھنا ہی اصل مسئلہ ہے۔ سوچ، غور و فکر اور تحقیق مشکل ہے اس لیے لوگ کنارہ کرتے ہیں اور سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ بہر حال ان کی ذہن سازی پر بھی توانائیاں خرچ ہوتی ہیں کیونکہ لوگ اگر سوچنا اور پرکھنا شروع کریں تو وہ کسی نتیجے پر پہنچیں گے اور سوال کریں گے۔ مگر سوال سے عوام کو دور رکھنے کے لیے کئی نوعیت کے حربے استعمال ہوتے ہیں۔ اس وقت رائٹ ونگ پاپول ازم کے ذریعے حکمرانی حاصل کرنا سب سے آسان ذریعہ ہے اس لیے حکمرانی کے اصول کے لیے اس روش کو استعمال کیا جاتا ہے۔ موجودہ ورلڈ آرڈر میں حکمرانی اور پاپول ازم کا ایک ساتھ ہونا بلکل اس طرح سے ہے جیسا کہ ایک وقت میں چرچ اور حکمرانوں کا گٹھ جوڑ تھا۔ اس گٹھ جوڑ کا توڑ بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح پندرھویں صدی میں حکمران اور چرچ کے گٹھ جوڑ کو توڑا گیا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ورلڈ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ، اس میں موجود پروپیگنڈوں اور حربوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے