دیو مالائی پرندہ ققنس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ 500سال کی عمر پوری کرنے کے بعد خود کو آگ میں جلا کر بھسم کرڈالتاہے۔ اور پھر اُس راکھ میں سے ایک نیا ققنس جنم لیتا ہے ۔ کیاچے گویرا وہی قُقنس ہے ؟۔ آپ کو دنیا کے ہر براعظم کے ہر ملک میں ایک چے نظر نہیں آتا؟۔ وہ ہماری اپنی زندگیوں میںدنیا بھر کے ظلم کے خلاف صف آرا لوگوں کے دلوں میں کئی بار جنم لے چکا ہے۔ ۔۔۔۔۔بڑے انسان ،مرکر بھی روشنی کا ایک ابدی مینار بنے رہتے ہیں ۔
میں جب سٹوڈنٹس سیاست میں داخل ہوا تھا تو بھی چے گویرا کے چرچے گھر گھر میں تھے اور میں اُس سے متاثر تھا، اب جب چوتھائی صدی گزار کر زندگی کا اِننگ تقریباً تقریباً پورا کر چکا ہوں تب بھی چے گویرا کے چرچے گھر گھر میں ہیں اور میں اُس سے اُسی طرح متاثر ہوں۔اُ س وقت جذ باتی اندازمیں، آج شعوری طور پر ۔یہ کیا صفت ہے ۔ ایک شخص اس قدر ہر دلعزیز ہوسکتا ہے ؟ ، اس قدر ہر زمانے کا ہر دلعزیز ہوسکتا ہے ؟۔ اس قدر ہر براعظم کا ہر دلعزیز ہوسکتا ہے ؟ہاں ، اُس شخص کا نام چے گویرا ہے ۔
اور یہ درمیانی عمر ،میں نے اُسے سمجھنے میں گزاری، تفہیمِ گویرا میں ۔ دلچسپ بات ہے کہ میرا ہر نیا مطالعہ اُس بڑے انسان کے معراج کے ایک نئے گوشے سے آشنا کرتا گیا، اُسے دنیا بھر کے انقلابیوں کی طرح میرے دل کی دھڑکن بناتا گیا۔ اندازہ نہیں کہ اُس کی توصیف کی کتنی ساری وجوہات موجود ہیں۔ مگر ایک اہم یہ ہے کہ چے گویرا دنیا کے اُن بڑے انسانوں میں سے ایک تھا جن کے قول و فعل میں کبھی کوئی تضاد نہ رہا۔
بلاشبہ چے گویرا دنیا میں انوکھی ترین ہستی ہے اور سپیشل ترین ہستی ہے ۔ وہ ہر عام و خاص کا، خواندہ اور ان پڑھ کا ،سنگِ میل ہے ۔ لوگ اپنا ایمان اپنی راہیں اسی سنگ میل سے متعین کرتے ہیں ۔ حضرت انسان نے آج تک جتنے بھی اچھے انسان پیدا کیے ہیں، چے اُن میں سے ایک ہے ۔
غیر معمولی طور پر مختصر زندگی پانے والا چے گویرا ایک تہلکہ خیز انقلابی تھا۔ وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف بغاوتوں کی قیادت کرنے والا عالمی شہرت یافتہ گوریلا رہنما تھا۔چے گویرا ایک باکمال سفارت کار، اور فوجی تھیوریسٹ تھا۔ اے دنیا بھر میں سوشلسٹ مزاحمت، سامراج سے نجات اور نوآبادیاتی تسلط کے خلاف انقلابی جدوجہد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔وہ ایک پر اثر مصنف تھا۔
جو بچہ نو ماہ کی بجائے آٹھویں ماہ پر‘ قبل ازوقت پیدا ہو جائے اُسے بلوچی میں ” ہشتو “ کہتے ہیں (ہشت سے ہشتو)۔اور یہ ہشتو لوگ جسمانی طورپر تو کمزور ہوتے ہیں مگر زبردست دل و دماغ کے مالک ہوتے ہیں۔ ارنسٹو گویرا ایک ہشتو بچہ تھا۔
گویرا ا14جون 1928میں ارجنٹینا کے روسایو کے ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوا۔ چے گویرا کا پورا نام ارنسٹو گویرا لنچ ڈی لا سرنا تھا، اس لمبے نام میں سے سرنا اس کی ماں کا نام تھا، باقی میں سے ڈی لا ارسٹوکریٹک پس منظر کی نشاندہی کرتا ہے ۔ لنچ اس کے باپ کا جدی لقب تھا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ خاندان کا معتبر آئرش چلی والے ایڈمرل کی نسل سے ہے ۔ یہ جو گویرا ہے ، یہ روایتی سپین اش نسل کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی فاتحین کا خون ۔ ارنسٹو اس کے اپنے باپ کا کرسچین نام تھا ۔البتہ اس کا قانونی نام ارنسٹو رافیل گویرا تھا، جو اس کے برتھ سر ٹیفکیٹ پر درج تھا۔
رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے ارنیسٹو ،گویرا ،لنچ ،اور ڈی لاسر نا جھڑتے گئے اور اس کے پاس صرف دو حرفی لفظ ”چے “ رہ گیا ۔اور یہ کوئی نام بالکل نہ تھا۔ یہ تو ارجینٹا کے دیہاتی لوگوں کا سلینگ تھا۔ جس طرح بلوچ ”ہم م م “بولتے ہیں، جس طرح پشتوںبار بار ، اور کبھی کبھی غیر ضروری طور پر ”شہ“ بولتے ہیں۔
ارنسٹو ایک مہمل لفظ ”چے“ بہت استعمال کرتا تھا۔ ہر فقرے میں دو تین بار وہ اس لفظ کو استعمال کرتا تھا۔ اُس کے اسی تکیہِ کلام کی بدولت اُس کے کیوبا ئی کامریڈوں نے اسے وہ مقبول عرفی نام ”چے “دے دیا جس کا مطلب ہے سنگت، یار، دو ست۔اور پھر یہ نام اُس کے اصل نام پر حاوی ہو گیا اور ”ارنسٹو گوارا“ کی بجائے وہ ”چے گوےرا“ بن گیا۔ اور یہ کوئی معمولی نام نہ تھا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ”چے“ کا نام دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسانوںکے دماغوں میں لہریں پیدا کرتا ہے۔ یہ نام بنی نوعِ انسان کے کے لئے انقلاب کے منہ زور خواہش کی تجسیم اور علامت ہے۔ایک ایسے شخص کا نام جو مافوق البشرجرا¿ت والا” سیاہ جگر “ہے،عزم ِمصمم والا ،انسان دوست، مخلص اور سچا۔ جو سرمایہ دارانہ نظام کے شدید استحصال سے لوگوں کی نجات کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہتا تھا۔
“چے میری اپنی زندگی کا سب سے لازمی ، سب سے پیار کیے جانے والا پہلو ہے ۔ میں کس طرح اسے پسند نہیں کرتا؟ مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔ جب لوگ مجھے ” چے “ پکارتے ہیں (1)
عجب کہ چے اس کے نام کا حصہ تھا ہی نہیں۔ ایک بہت انوکھی بات یہ کہ عوام الناس کسی کو اپناتے ہیں تو سب سے پہلے اس کا سب کچھ چھین لیتے ہیں ۔ یا کوئی اپنا سب کچھ لٹا کر ہی عوام کا عطا کردہ لقب کا حقدار بن جاتا ہے ۔ چے گویرا اتنا بڑا انسان تھا کہ اس نے نہ صرف اپنے نام سے چھٹکارا پایا، بلکہ اپنے پورے ماضی کو جھٹکے سے الگ کردیا۔ اپنے طبقے کو ، اپنے خاندان کو اور حتی کہ اپنے ملک کو بھی ۔
کوئٹہ کے نوجوانوں میں ایک محدود سروے سے معلوم ہوا کہ جو چے گویرا اُن کا محبوب ترین لیڈر تھا، اس کے وطن کے بارے سب ” کیوبا “ بتاتے ہیں۔ بری بڑائی چاہیے ہوتی ہے ارجنٹینا والے کسی شخص کو کیوبا والا بن جانے میں!!۔
چے گوےرا کے والد ارنسٹو گویرا لینچ اور والد ہ سیلیا ڈی لا سَرنا (1907-1964) بہت ہی دلچسپ جوڑا تھا اس لئے کہ دونوں ہر لحاظ سے مختلف پس منظر کے لوگ تھے۔ سیلیا کے والد ین فوت ہوچکے تھے اور اُس کاچار بھائیوں اور تین بہنوں پہ مشتمل خاندان تھا۔اِس خاتون کی دوستی ارنسٹو گوےرا لنچ سے ہو گئی۔ دوستی‘محبت میں تبدیل ہوئی۔ خاتون کے خاندان والوں کی مخالفت کے باوجود کمسن سیلیا ڈٹ گئی۔اور1927 میں دونوں کی شادی ہوگئی۔
ارنسٹو گویرا لینچ نے بعد میں چے کی زندگی پر دو کتابیں لکھیں۔ وہ اپنی بیگم (چے کی والدہ) کے بارے میں لکھتا ہے: ”وہ اپنے خاندان میں سب سے چھوٹی تھی۔ اس نے اپنے والد کو دیکھا نہ تھا اس لئے کہ وہ چند ماہ کی تھی جب والد کا انتقال ہوگیا۔ اُس کی والدہ قدامت پسند خیالات کی خاتون تھی اس لئے اس نے بچیوں کو رومن کیتھولک سکول میں تعلیم دیا۔ سیلیا نے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کا کچھ حصہ سیکرڈ ہارٹ سکول سے حاصل کیا۔ جب میں اُس سے ملا تو وہ ایک نن (راہبہ) بننے کا ارادہ رکھتی تھی۔ وہ اس قدر پکی مذہبی تھی کہ خود کو ایذا پہنچانے کے لئے اپنے جوتوں میں شیشے کے ٹکڑے ڈالا کرتی تھی۔ وہ کبھی عبادت قضا نہ کرتی تھی……..“(2)
” ہم دونوں جوان تھے ۔ وہ بیس کی تھی اور میں27برس کا ……..سیلیا ذہین تھی ، ہر وقت خود کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ ہسپانوی اور فرانسیسی روانی سے بولتی تھی اور انگلش میں بھی اچھا خاصا گزارہ کرتی تھی“۔
سیلیاکاشوہر بچپن سے سوشلسٹ پس منظر رکھتا تھا۔ چے کا کرسچین باپ کہتا تھا: ”کرائسٹ روئے زمین پر عظیم ترین آدمی تھا، مگر چرچ نے اس کی تعلیمات برباد کر دیں۔ چرچ یہودیوں کی ایجاد کردہ اور اٹلی والوں کا منظم کردہ سب سے بڑی بزنس ہے ۔ (3)۔
بیوی آہستہ آہستہ اُس کے خیالات سے آشنا ہوتی گئی اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ نہ صرف ایک زبردست مارکسسٹ سوشلسٹ بنی بلکہ خاوند کو پیچھے چھوڑ گئی۔ چے کی یہ عادت ماں کی ودیعت کردہ ہے کہ ماں بیٹا جس کام کا تہیہ کرلیتے، انجام تک پہنچا کر ہی دم لیتے۔ کسی کام کو آدھے میں نہ چھوڑنے کی عادت‘ چے کو ماں سے منتقل گئی ۔ پھر تو میاں بیوی کا جوڑا” کمیونسٹ سرخ جِن “ کے نام سے مشہور ہوا۔(4)۔
سیلیا تو بالخصوص دلچسپ نکلی کہ وہ تو ایک بالکل ہی مختلف پس منظر سے آئی اوروہاں سے ہوتے ہوئے سوشلزم سے وابستگی کے عروج پر پہنچی۔ باقاعدہ جیلیں، چھا پے ، تقریریں۔ حتیٰ کہ ایک زمانے میں تو سوشلسٹ کیوبا کا دورہ کرنے کے بعد اس نے اِس انقلاب پر اچھے خاصے مضامین اخبارات میں لکھے۔
ریفرنسز
1۔ ڈی ٹولیڈو۔ دی سٹوری آف چے گویرا۔ 2011 – Quercus۔ صفحہ1
2۔لینچ ، ارنسٹو گوارا ۔ دی ینگ چے۔ 2007۔ ونٹیج لندن۔ صفحہ58,59۔Vencermos panther۔ صفحہ26
3۔جان گراسی ۔ سپیچز۔۔۔ ایضاً صفحہ27
4۔ لینچ ، دی ینگ چے۔۔۔۔صفحہ27