کیوں ہر گھڑی
اپنی کوئی کہی بات
اپنے کئے کوئی بھی کام
پر تم یونہی بے جہَت رنج میں رہتے ہو
پچھلی بات آگے بے سود یا پر زیاں ہو بھی سکتی ہے
تم اک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کے آدمی ہو بھی سکتے ہو
یہ فیصلہ وقت کا ہے ، تمہاری یہ قِسمَت نہیں ہے
جو ہو بھی یہ قِسمَت ،تمہاری یہ چاہت نہیں ہے
کوئی بھی ادھوری محبّت محبّت نہیں ہے
اسے زندگی کہہ لو
ہاں زندگی یوں بھی ہے اور یوں بھی
سمندر ، تموّج میں یا بے تموّج ، سمندر ہی ہے
یہ سمندر اَ گر بے تموّج ہے تو دوسرا اس کا ر±خ
اس کی بے انت , بے صوت , گہرائی
چشم ِ تحیّر کو تسخیر کرتی ہے
تم آج تک تو
یہی ، ٹ±وٹے پھ±وٹے سے انساں ہی , ہو
آگے کی باتیں آگے کے خواب
اور سچّائی پیچھے کی
چاہو اَ گر
آج سے , آج کے
تازہ و نَو بہ نَو عہد کے
نام پر
اپنی بوسیدہ کایا پلَٹ کر
تم آگے کا , اک کامراں
اپنی دنیا کا , اپنے زمانے کا , اک شادماں
ہر جگہ , بِکتا جھکتا نہ رتا
نہ کچھ ٹوٹتا پھوٹتا
ٹھوس انسان بن کر دِکھائو
وہ انسان
فاتح وہ فطرت کا
جو اپنی صدیوں کی تاریخ میں تم نہیں تھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے