یہ رہبر ہیں کسی کو باخبر ہونے نہیں دیں گے
گزر جائے گی شب، لیکن سحر ہونے نہیں دیں گے
مجھے محبوس رکھیں گے وہ وعدوں کی فصیلوں میں
کسی دیوار میں تعمیر در ہونے نہیں دیں گے
مجھے مامور رکھیں گے وہ بارش کی دعاو¿ں پر
مگر بوندوں سے میرا حلق تر ہونے نہیں دیں گے
مجھے محصور رکھیں گے عجب برزخ کے عالم میں
سفر کرنے نہیں دیں گے، بسر ہونے نہیں دیں گے
وہ مجھ سے کام لیں گے دشت کو گلشن بنانے کا
مگر اِک گل بھی میرے زیب سر ہونے نہیں دیں گے
اگر کچھ اور آگے بڑھ گیا اِدراک اِنسانی
تو سائے کو بھی میرا ہمسفر ہونے نہیں دیں گے
مبادا اس کے ہاتھوں ہی سے مل جائے شفا مجھ کو
مرے قاتل کو بھی وہ چارہ گر ہونے نہیں دیں گے
مجھے تکفیر کی آلودگی سے لاد ڈالیں گے
وہ میری اک دعا بھی کارگر ہونے نہیں دیں گے
زمیں کی قوت ِروئیدگی برحق سہی، لیکن
کسی بھی شاخ کو وہ بار ور ہونے نہیں دیں گے
نکالیں گے قفس سے طائروں کو، زیر مجبوری
مگر جسموں میں پیدا بال و پر ہونے نہیں دیں گے
سنیں گے نو بہ نو نغمے ، مگر جب جی نہ چاہے گا
ہوا کو بھی چمن میں نغمہ گر ہونے نہیں دیں گے
نظر رکھیں گے وہ اہل وطن پر اس مہارت سے
کوئی بھی مسئلہ زیر نظر ہونے نہیں دیں گے
یہ مانا آج ہر انساں کی قوت ہے شعور ا±س کا
مگر اس رسم کو عام اس قدر ہونے نہیں دیں گے
ندیم اپنے ہنر سے دست کش ہونا ہی بہتر ہے
کہ یہ پتھر مجھے آئنہ گر ہونے نہیں دیں گے