اس نے محنت کشوں کو پکارا . . . . مگر وہ سب وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔
وہ سب تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ایک گلی میں گھس کر رک گئے. .
نوجوان نے کہا ،
” اپنا اپنا خرچہ لے کر جاو ”
اس کے ہاتھ میں سیٹھ کا والٹ تھا جو قیمتی چمڑے کا بنا ہوا تھا۔ نوجوان نے نوٹوں کی گڈی نکالی اور نوٹ گنے۔ پھر مزدوروں کی گنتی کی اور سب میں برابر نوٹ تقسیم کردئیے۔
باقی کتنے بچے ؟”
سفید سر والے بابے کی سفید مونچھوں میں سے سوال آیا۔
ایک نوٹ زائد ہے۔ ”
” مسجد میں چندہ ڈال دینا۔ مولبی صاب کو بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی سپاہی تلاش کرتا آگیا تو اس کی جیب میں بھی کچھ ڈال دینا۔ ”
نوجوان نے سر ہلایا ،
” سب کو لکھا نصیب مل کے رہتا ہے ”
سب نے اسے تائید کیے بغیر دیکھا اور اپنی اپنی راہ پر گامزن ہو گئے۔۔