میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
یہ خوبصورت شعر ایک بھیانک پیش گوئی ثابت ہوا تاہم شاعر مصطفیٰ زیدی عمرکم پانے کے باوجود جو کچھ لکھ گئے ہیںاس کلام نے اردو ادب کی تاریخ اور منظر نامے میں انھیں زندہ ہی نہیںرکھا بلکہ وقت کے ساتھ مقبولیت میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
بعض شعرا طویل عمر اور متعدد مجموعوں اور زندگی میں شہرت کے باوجود، منظر نامے سے ہٹنے کے بعد طاقِ نسیاں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وقت کی گرد ان کے نام اور کلام دونوں ہی کو معدوم کر دیتی ہے۔ جو زندہ رہتے ہیں وہ کون ہیں؟
شاید وہ جو اپنے عصر کی روح کو اپنے اندر اتار لیتے ہیں۔ یہ روحِ عصر ہی ہے جو نسل در نسل ان کے کلام کو زندہ رکھتی ہے۔ قمر جمیل کے مطابق؛
”روحِ عصر غیر مرئی ہے، فنکار اسے مرئی بنا دیتا ہے۔۔۔“
سچا فنکار یہ کام اتنی خوبصورتی سے انجام دیتا ہے کہ شہکار تخلیق ہو جاتے ہیں۔ ایسے شہکار جن میں اسرار بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی۔۔۔حیرت اس کی نظرپہ جو عام لوگوں سے زیادہ دیکھ لیتی ہے اور اس کا اظہار بھی کر دیتی ہے۔ پراسراریت اس پیش بینی کی ہوتی ہے جو مصطفیٰ زیدی کے کلام میں جگہ جگہ نظر آتی ہے جس میں ان کا حال بھی رقم ہے اور مستقبل بھی۔۔۔
میرے ہاتوں میں دھڑکتی ہے شب و روز کی نبض
وقت کو روک کے تاریخ کا عنوان بن جاﺅں
اور
میری نگاہ میں ارضی عدالتیں کیا ہیں
یہ شاعری مری سب سے بڑی عدالت ہے
مصطفیٰ زیدی نے ایک نسل کو متاثر ہی نہیں کیا، اس کے ذوق کی تربیت بھی کی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں میر، غالب اور دیگر اساتذہ کی روایت کے کوچے سے نکل کر ترقی پسندی کی رہگزر پر رواں تھی۔ جب جذبی، مجاذ، ساحر، فیض کی شاعری کا رومانس اپنے حصار میں رکھتا تھا، ان سے ذرا فاصلے پرناصر، منیر اور مصطفیٰ زیدی تین مختلف رنگ اور لہجوں کے شاعر عصرِ حاضر کی بستیوں میں کھینچ لائے۔ ناصر کے گھر کی دیوار یں جہاں اداسی بال کھولے سو رہی تھی، منیر نیازی کا شہرِ سنگ دل جس پر آسیب کا سایہ تھا، وہاں مصطفیٰ زیدی بھی پکار رہے تھے۔۔
ایہاالناس چلو کوہ ندا کی جانب
اس نظم کی بازگشت ہمیشہ ساتھ رہی۔ اس کا پہلا اور آخری بند سناتی ہوں
ایہاالناس چلو کوہ ندا کی جانب
کب تک آشفتہ سری ہو گی نئے ناموں سے
تھک چکے ہو گے خرابات کے ہنگاموں سے
ہر طرف ایک ہی انداز سے دن ڈھلتے ہیں
لوگ ہر شہرمیں سائے کی طرح چلتے ہیں
اجنبی خوف کو سینے میں چھپائے ہوئے لوگ
اپنے آسیب کے تابوت اٹھائے ہوئے لوگ
ذات کے کرب میں بازار کی رسوائی میں
تم بھی شامل ہو اس انبوہ کی تنہائی میں
تم بھی ایک بادیہ پیما ہو خلا کی جانب
رات بھر جاگتے رہتے ہیں دکانوں کے چراغ
لیکن اس بند جزیرے کے ہر اک گوشے میں
ذات کا بابِ طلسمات کھلا رہتا ہے
اپنی ہی ذات میں پستی کے کھنڈر ملتے ہیں
اپنی ہی ذات میں ایک کوہِ ندا رہتا ہے
صرف اس کو کہ دامن میں میسر ہے نجات
آدمی ورنہ عناصر میں گھرا رہتا ہے
اور پھر ان سے بھی گھبرا کے اٹھاتا ہے نظر
اپنے مذہب کی طرف اپنے خدا کی جانب
ایہاالناس چلو کوہ ندا کی جانب
مصطفیٰ زیدی کی شاعری رومینٹک ہے، عجیب طرزِ اظہار ہے جو داخلیت سے بھرپور ہونے کے باوجود خارج سے رشتہ جوڑے رکھتا ہے۔ ان کا ڈکشن بھی منفرد ہے بلاشبہ وہ ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ انھوں نے عشق ہی نہیں وصل کی واردات بھی رقم کی ہے مگر پوری جمالیات اوراحساسات کی شدت کے ساتھ۔۔۔ جو کچھ گزری ہے اس میں محبوب کے قرب میں بھی ہجر جیسا کرب اور حاصلِ عشق میں بھی لاحاصلی کا اظہار ہے۔ مستقبل فراق کی پیش بینی ہے اگرچہ نظم ”محبت“ میں انھوں نے یہ شعر اپنے لیے کہا ہے مگر صادق محبوب پر آیا :
ابدی نیند کا پیغام ہے میر آغوش
جو مری گود میں آئے گا وہ مر جائے گا
موت کو چار سو دیکھتے رہنے کی کیفیت محبوب کے قرب میں بھی ان پر طاری رہی
تم پہ ہی نہیں موقوف آج کل تو دنیا میں
زیست کے بھی مذہب ہیں موت کی بھی ذاتیں ہیں
اور
ناوکِ ظلم اٹھا، دشنہ اندوہ سنبھال
لطف کے خنجر بے نام سے مت مار مجھے
مصطفیٰ زیدی کا پہلا مجموعہ ”زنجیریں“ 1949میں شائع ہوا۔دوسرا مجموعہ روشنی 1950میں شائع ہوا تھا۔ ”روشنی“ میں انھوں نے واضح کر دیا تھا کہ پہلے مجموعے میں شامل کلام کو اس مجموعے میں کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ یکجا کر دیا ہے۔ اس میں ”چراغ آفریدم“ کےعنوان سے اپنے پیش لفظ میںلکھا ہے کہ اس مجموعے کی تمام نظمیں 45عیسوی سے 50عیسوی کے درمیان لکھی گئی ہیں۔ اگرچہ اس میں زیادہ نظمیں الہٰ آباد میں ان کی طالب علمی کے دوران کی ہیں مگر اتنا میچور اظہار ہے کہ اگر وہ خود نہ بتاتے تو ابتدائی کلام کا کوئی تاثر نہیں ملتا۔ کیا کہنا ہے، کیسے کہنا ہے کا اعتماد ابتدائی نظموں سے ہی نظر آتا ہے۔ پہلی نظم روشنی سے دو اشعار دیکھیے
جسے خِرد کا مکمل شعور پا نہ سکے
وہ قلبِ شاعرِ ناکام لے کر آیا ہوں
سمجھ سکے تو سمجھ لے کہ استعاروں میں
میں اپنی زیست کا ابہام لے کے آیا ہوں
شاعری کی کتنی مکمل تعریف ان اشعار میں ہے۔ اس مجموعے کی پہلی غزل کے مطلع اور آخری شعر میں بھی ان کا اعتماد دیکھیے ©
غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے
لوگوں کو شکایت ہے وہ کیا کیا نہیں کہتے
آخری شعر :
وہ بھی تو سنیں میرے یہ اشعار کسی روز
جو لوگ نئی نسل کو اچھا نہیں کہتے
پہلے ہی مجموعے سے ان کی طبعِ رواں اور قدرت اظہار کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس مجموعے میں نظمیں زیادہ ہیں جو نوجوانی میں بھی میچور ذہن ہونے کا ثبوت ہیں۔تیسرا مجموعہ ”شہر آذر“ 1958میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں نظموں کے ساتھ غزلیں بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ اس کے آغاز میں بھی انھوں نے ”اپنا دیوا بغل میں داب کے میر“ کے عنوان سے پیش لفظ خود لکھا اور شاعری پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس شعور کے ساتھ لکھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اور کس پیرائے میں کہنا چاہتے ہیں۔ خود تنقیدی بھی کی ہے مگر معذرت خواہی نہیں کی۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں ؛
”میری بالکل ابتدائی نظموں پر جن کو میں نے اس مجموعے میں شامل نہیں کیا جوش ملیح آبادی کی گرم آہنگی کا بڑا نمایاں اثر تھا۔ ان ساری چیزوں کو میں مشق سمجھتا ہوں اور مشق پر ندامت کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن میری اپنی شاعری جس میں رفتہ رفتہ اپنا مزاج سمجھنے کی کوشش کی ہے ان ابتدائی چیزوں سے بہت مختلف ہے۔ ان نظموں میں دیکھنے سے زیادہ سوچنے اور چھونے سے زیادہ محسوس کرنے کا رجحان نظر آتا ہے۔ “
اس حوالے سے انھوں نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ اتنی برمحل اور رجحان ساز ہیں کہ میں انھیں ہی نقل کر رہی ہوں۔
سیاہ آنکھوں کے بدلے جواں لبوں کے عوض
ہر ایک شکل کھڑی تھی کوئی دکان سجائے
ہر ایک شکل سے آتی تھی دم بہ دم یہ آواز
گھڑی، پرانی قمیصیں، دوائیں، سگریٹ، چائے
اور
زمیں پہ ایک سانپ زخم کھا کے چور ہو گیا
فضا میں ایک چیل دائرے بنا کے رہ گئی
اس تمام آگہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے اپنے تخلص تیغ الہٰ آبادی سے یہ کہہ کر گریز کیا ”اس تخلص کی قصابیت کو میں نے بچپن کی غلطیوں میں شامل کر رکھا تھا لیکن آخر تخلص کے بغیر بھی گزر ہو ہی سکتا ہے۔ اپنی زندگی میں بھی تخلص کے علاوہ بہت کچھ بدل گیا ہے“۔ یہ بدلاﺅ اس مجموعے میں نظر بھی آرہا ہے اس میں مشہور غزل :
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے تھے مگر آہستہ آہستہ
اور بہت سے خوبصورت اشعار نظم کے اس شاعر کے تغزل کی داد وصول کرنے کے لیے موجود ہیں۔ چند غزلوں میں تخلص کی جگہ نام زیدی استعمال کیا ہے۔
یہ تشنگیاں کل بھی تھیں اور آج بھی زیدی
اس ہونٹ کا سایہ بھی میرے کام نہ آیا
تخلص تبدیل کرنے کا ایک جوازاس مقطعے میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ہم ہیں دو چار ادیب اور بھی ہوں گے زیدی
جن کو تلوار کے سائے میں قلم یاد رہا
ان غزلوں میں سے ایک خوبصورت مطلع بھی سن لیں
غم دوراں میں بھی سیکھیں غم یاراں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
ایسی آسودگی تو کبھی شام غریباں میں نہ تھی
دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگی صبح وطن
”قبائے ساز“ بے حد خوبصورت شاعری سے مرصع مجموعہ ہے۔ اس کا ہر ورق قاری کو روکتا ہے۔ اس مجموعے میں انھوں نے پیش لفظ نہیں لکھا ہے۔ اس میں شاعری کی خود تفہیمی، ارتقا کے منازل کی شناخت اور اعتماد واضح موجود ہے۔ احساسات کی شدت، جذبات کی طغیانی، اظہار کا فزوں جو وہ خود بھی محسوس کر رہے ہیں، بیان بھی کر رہے ہیں، پہلے صفحے پر لکھے دو اشعار میں دیکھیے :
دن کی اک اک بوند گراں ہے اک اک جرعہِ آ شب نایاب
شام و سحر کے پیمانے میں جو کچھ ہے ڈر ڈر کے پیو
آہستہ آہستہ برتو ان گنتی کی سانسوں کو
دل کی بات میں شیشہ جاں ہے قطرہ قطرہ کر کے پیو
نظموں کی روانی تو مستند ہے، غزلوں کا فسوں بھی دیکھیے
آندھی چلی تو نقش کفِ پا نہیں ملا
دل جس سے مل گیا وہ دوبارہ نہیں ملا
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
ہم کافروں کی مشقِ سخن ہائے گفتنی
اس مرحلے پہ آئی کہ الہام ہو گئی
اوجِ فضا پر تیز ہوا کا دم گھٹتا ہے
وسعت وسعت تنگی زنداں کس سے کہیے
”موج موج میری صدف“ان کا چوتھا مجموعہ ہے۔ اس کے پیش لفظ میں مصطفیٰ زیدی نے بتا یا ہے کہ انھوں نے اپنا سارا اثاثہ جوڑ کر ایک دس ہارس پاور کی چھوٹی سی کار پریفیکٹ خریدی اور اس پریورپ اور مشرقِ وسطیٰ کا سفر کیا۔ اس مجموعے کی اکثر نظمیں قیام انگلستان اور سفرِ یورپ سے متعلق ہیں۔ وہ لکھتے ہیںکہ ”ان سے ذہن کی ایک خاص فضا مرتب کی جا سکتی ہے لیکن یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ا ن نظموں میں پیام مشرق کا جواب پیام مغرب اور تو شب آفریدی چراغ آفریدم والا موڈ نہیں ہے۔ بلکہ چند تاثرات ہیں، چند خاکے آنسوﺅں کی دھندلاہٹ بھی ہے اور مستقبل کا خواب بھی۔ اگر کوئی اکیلی نظم ان تمام باتوں کا خلاصہ ہے تو وہ شہرِآذر ہے۔ “
اس نظم کا ایک بند دیکھئے؛
یہ ڈوبتے ہوئے سورج کے رنگ و روپ کا شہر
یہ لہر لہر پہ سورج کے آخری سائے
یہ زرد کپڑوں میں جس طرح راہبہ کوئی
گلی سے کہر میں مڑتی ہوئی نظر آئے
کہیں ایک اوس کا قطرہ دھوئیں پہ جم جائے
ہر ایک لہر کی تجدید شوق سے بچ کر
ہر ایک لہر کی آغوش میں نکھر کے چلی
اتر کے اونگھتے کہرے کی نرم باہوں سے
تمہارے قرب کی دھڑکن فضا میں پھیل گئی
اس مجموعے کے آغاز میں پیش لفظ سے پہلے”اپنے مرحوم بھائی مجتبیٰ زیدی کے نام“ کے عنوان سے ایک نظم بھی شامل کی ہے۔ جس کے حاشیے پہ لکھا ہے ” یہ نامکمل نوحہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتا“۔ دل پر اثر کرنے والا یہ نوحہ 1957میں ان کے بڑے بھائی کی کار میں حادثے سے ہونے والی موت پر لکھا گیا تھا۔ یہ حادثہ انگلستان سے واپسی پر مشہد میں ہوا تھا۔ نوحہ نامکمل رہااور خود لکھنے والے کے ساتھ بھی 1970میں وہ سانحہ ہوا جس کی شدت و تڑپ اس نوحے میں موجود ہے۔
اس مجموعے میں دیگر تجربوں اور مشاہدوں کے ساتھ ”اپسراﺅں کے گیت “ کے عنوان سے ایک نظم جس میں انھوں نے بتایا کہ یہ گیت لندن کے قدیم تھیٹر ایک ایسے گیت سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے جو طربیہ کی ایک قسم ہے اور اسے سطحی اور وقتی دلچسپی کی شاعری سمجھا جاتا ہے۔ مصطفیٰ زیدی کے اس گیت میں سطحیت بالکل نہیں طربیے میں کہیں المیہ بھی ہے اور اس میں مصطفیٰ زیدی کا ایک اور رخ سامنے آرہا ہے۔ اپنی ذات کے دکھ سے نکل کر دوسرے کے کرب کو لکھنا ،وہ بھی اس عورت کے کرب کو جو تماشہ گاہ میں دل بہلانے کا سامان کرتی ہو۔ اس گیت کے آخری دو بند دیکھئے :
ہم کہ خوابوں کی شہزادیاں
ہم کہ نغموں کی روحِ رواں
ہم کہ پندار کی دیویاں
کاش دنیا خجِل دیکھ لے
دیویوں کی قبا کے ا±دھر
کوئی عورت کا دل دیکھ لے
وہ مندر کی دیوداسیاں ہوں، جاپان کی گیشا ہوں، اوپرا کی فنکارائیں ہوں، یہ گیت سب کا عکاس ہے۔ مجھے اس گیت پر محبوب خزاں کی نظم ”دیوداسی“ بھی یاد آئی جو اس سے مختلف ہو کر بھی انھی احساسات کی ترجمان ہے۔
مصطفیٰ زیدی کا آخری مجموعہ ”کوہِ ندا“ حیرت انگیزی کی انتہا پر لا کر ذہن و دل میں سوالات ہی نہیں ایسے خیالات بھی پیدا کرتا ہے جو مابعد طبیعات کا موضوع بن سکتے ہیں۔ یقیناً شاعری وجدانی ہوتی ہے مگر کیا شاعر کا وجدان الہام کی حد کو چھو سکتا ہے؟
وہ لکھتے ہیں ”کوہ ندا“ میری نظموں کا آخری مجموعہ ہے۔ اس پیش لفظ میں انھوں نے ان اذیتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو ان پر گزر رہی تھیں۔ 6دسمبر 1969کو یہ پیش لفظ لکھا گیا۔ اس مجموعے کے شائع ہونے میں بھی کچھ وقت لگا اور اکتوبر 1970کو ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔ کیا یہ پیش لفظ صرف پیش بینی تھی ؟ یا صاحبانِ اقتدار کو اس خطرے کی طرف متوجہ کرنے کی ایک آخری کوشش تھی جو انھیں لاحق تھا۔ دونوں ہی ممکن نظر آتے ہیں۔ اس مجموعے میں وہ 5مشہور نظمیں بھی شامل ہیں جو” شہناز“ کے عنوان سے14جولائی، 30اگست ، 2ستمبر اور آخری 22دستمبر 1970کو لکھی گئیں۔ 12اکتوبر کو اس عشق کی روداد ایک ایسے المیے میں ڈھل گئی جس کو تاریخ کا حصہ بنانے میں اس کا مرکزی کردار ہی مورخ بھی ہے۔ بھائی کا نوحہ خود ان کا مرثیہ بن گیا، کتنی ہی غزلیں ، نظمیں نامکمل رہ گئیں۔ یہاں میں اختتام پر ایک نظم یاد دلانا چاہوں گی جو 1961عیسوی میں ”در ہجوِ آشوبِ تقرر“ایک ذاتی نظم کے عنوان سے لکھی گئی۔ یہ آج بھی اتنی ہی مکمل اور اتنی ہی سچی ہے جتنی 1961میں تھی۔ ہمارے ارباب اختیارکا کردار آج بھی ویسا ہی ہے جیسا ماضی میں تھا۔ ماضی حال اور خدا نخواستہ مستقبل میں کچھ بھی بدلتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ آج تو اتنی جرات کرنے والے بھی نہیں ہیں جو آشوبِ ذات کو لکھ سکیں۔
دیکھنا اہلِ جنوں ساعتِ جہد آپہنچی
اب کے توہینِ لب دار نہ ہونے پائے
اب کے کھل جائیں خزانے نفسِ سوزاں کے
اب کے محرومی اظہار نہ ہونے پائے
یہ جو غدار ہیں اپنی ہی صفِ اول میں
غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائیں
دشت میں خونِ حسین ابنِ علی بہہ جائے
بیعتِ حاکم کفار نہ ہونے پائے
یہ نئی نسل اس انداز سے نکلے سرِ رزم
کہ مورخ سے گنہگار نہ ہونے پائے