(ایک نامکمل نظم)

سفر در سفر
زندگی کا سفینہ
اِک انجان ساحل کی جانب
خلاؤں کے صحرا میں محوِ سفر ہے
کہ جیسے کوئی ابتدا
انتہا کی سمت بس چلی جارہی ہے
چلی جا رہی ہے
یہ آشوبِ دوراں کے
طوفان زدہ گردشوں کے بھنور میں
بگولے کی مانند
سمے کے تلاطم سے بھرپور گہرے سمندر میں
اپنی بقا کے لئے
جنگ قدرت سے لڑتی چلی آرہی ہے

کہ جب پانیوں میں کہیں
کاربن میں نئی عمدگی رونما ہورہی تھی
کوئی ایک خلیہ نمو کے مراحل میں تھا
زندگی کی وہ پہلی سی کروٹ
بہت دیدہ زیب اور شاندار ہوگی
کہ جب سالموں نے بناوٹ کی تعمیر کا فن
خداؤں سے سیکھا
ذہانت نے جب حافظہ کے صحیفہ کے
پہلے صفحہ کا وہ کلمہ
نگاہوں کے پردے سے خاکے کی صورت
زمین پر اتاری
تو پھر زندگی کے نمود و نمائش کے
یہ سلسلے چل پڑے
اور پھر روشنی کے نظاروں کو نظریں ملیں
گونگی آوازوں کو بھی سماعت کی نسبت
اسی طور خاموش ان کائناتوں میں
رنگ اور خوشبو کے نغمے چھڑے
رونقیں شور ترتیب سمتیں
یہ رنگینیاں فاصلے پستیاں اور بلندی کے پیمانے سوچوں کے مفہوم
لفظوں کے چہرے سجے

کہاں سے شروع ہے
کہاں تک رہے گا یہ لمبا سفر
یہ فریبِ نظر
کہ صدیوں سے یونہی چلے جارہے ہیں
چلے جا رہے ہیں
سفر در سفر

میں کل رات پھر
چھت پہ جاکر ستاروں کی محفل میں بیٹھا
ذرا دیر خاموشیوں کے سمندر کنارے
سوالوں کے پتھر اٹھائے
پھر ایک ایک کرکے
بلند اور تاریک گہرائیوں میں یوں پھینکے
کہ خاموش لہریں ابھر کر اٹھیں
اور چاروں طرف دور تک
سرسراتی گئیں
کوئی آواز لیکن
خلاؤں کے اُس پار سے
میرے گھر کی طرف
لوٹ کر پھر نہ آئی
خلاؤں کے باسی
ازل سے کیا سوئے ہوئے ہیں
سماعت سے محروم
نظر کی شعاعیں بھی معدوم ہیں کیا
مگر کائناتوں کے ذرّے
تو کرنوں کی سنگیت میں ناچتے ہیں
سنا ہے یہاں گردشوں کی حکومت
ثقل کی کشش سے
چراغوں کو لو بخشتی ہے
سنا ہے کہ یہ کہکشائیں
کروڈوں ستاروں کو مدھوش کرکے
کسی بے نشان منزلوں کی طرف
دوڑتی جارہی ہیں
سفر در سفر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے