نئی نئی صورتیں بدن پر اُجالتا ہوں
لہو سے کیسے عجیب منظر نکالتا ہوں

وہ دل میں اترےں تو ایک ہو جائیں روشنی دیں
دھنک کے رنگوں کو اپنی آنکھوں میں ڈالتا ہوں

زمین تلوو¿ں سے آ چمٹتی ہے آگ بن کر
ہتھیلیوں پر جب آسماں کو سنبھالتا ہوں

ہوا میں تھوڑا سا رنگ اترے سو اس لیے میں
گلاب کی پتیاں فضا میں اچھالتا ہوں

کوئی نہیں تھا جو اس مسلسل صدا کو سنتا
یہ میں ہوں جو اس دیے کو سورج میں ڈھالتا ہوں

طریر سانسوں کا رنگ نیلا ہوا تو جانا
خبر نہیں تھی ےہ سانپ ہیں جن کو پالتا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے