دنیا کی ہر قوم اپنی زبان ، ادب، ثقافت و تہذیب سے پہچانی جاتی ہے اور کوئی بھی ادب کسی قوم سے منسوب اور اس قوم کی تاریخ، ثقافت و تہذیب کا آئینہ دار اور ترجمان ہوتا ہے ۔ اسی طرح بلوچی ادب” بلوچ قوم کی روایات، تہذیب و ثقافت کا امین اور آئینہ دار ہے۔ حالات کتنے کٹھن اور مشکل کیو ں نہ ہوں مگر حق اور مظلوم کی ترجمانی ساتھ دینے اور ظالم و باطل طاقتوں کی مذمت اور اس کے خلاف جہاد میں بلوچی زبان و ادب پیش پیش رہے ہیں اور بلوچ قوم کو روزِ اول سے تادم تحریر اپنی تاریخ، ثقافت اور اپنی زبان و ثقافت ، اقدار و روایات سے کٹ کر قباحتوں پسماندگی اور زوال سے متعلق جتنی معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ سب کی سب بلوچی زبان و ادب کے مرہونِ منّت ہے۔
اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے باعث دنیا ایک گلوبل ویلج میں ڈھل چکا ہے ۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کے دنیا کے دوسرے کونے کے احوال پَل بھر میں معلوم کرسکتے ہیں اور اس دوڑ میں دنیا کی کئی زبانوں کے کھو جانے اور ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اس میدان میں یہ دیکھنا اشد ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری زبان و ادب بھی اس طوفان کی لپیٹ میں آجائیں حالانکہ اس بات کا یقین تو ہے کہ سرکاری عدم سرپرستی اور عدم توجہی کے باوجود شعرا ءو ادبا نے پیٹ پر پتھر باندھ کر بلوچی زبان و ادب کے لےے جتنا کام موجودہ زمانے میں کیا ہے ۔ وہ پچھلی کئی صدیوں میں نہیں ہوا ہے ۔ کیونکہ پہلے تو اقوام عالم اس زبان کو ایک علاقائی زبان سمجھ کر اس کو صرف بول چال کی حد تک حیثیت دیتے تھے مگر اللہ کا شکر ہے کہ آج کے دور میں ہزاروں کتب کے مالک زبان و ادب میں ماسٹر اور P.H.D کرنے کا دن بدن بڑھتا رجحان ایک امید افزا عمل اور اس بات کی غماز ہے کہ بلوچی زبان آئندہ ادوار میں ایک تابناک مستقبل کا مالک بن سکتا ہے۔ مگر اس خوش فہمی میں بھی نہیں رہنا چاہےے کہ جی ابھی بہت کام ہوا ہے بلکہ اپنی شناخت اور بقاءکو برقرار رکھنے کے لےے ہمہ وقت مصروف عمل رہنا چاہےے۔
بلوچی زبان و ادب کی اقوامِ عالم کے سامنے ایک عجیب تصور اور تصویر پیش کرنے میں میڈیا کا ایک اہم کردار ہے کیونکہ پرنٹ میڈیا کے میدان میں ایک دو روزنامے پچاسیویں ماہناموں اور سالناموں اور الیکٹرانک میڈیا میں اکلوتا چینل ” وش نیوز Vash News“ کے ذریعے سینکڑوں چینلز اور ہزاروں اخبارات، جرائد و رسائل کا مقابلہ ایک حیران کن نکتہ ہے اور بلوچ قوم ، بلوچی زبان و ادب کے حق میں دوسرے چینلز اور اخبارات کا کردارشروع ہی سے جانبدارانہ اور مایوس کن رہا ہے اور آئندہ بھی یہ امیدنہیں رکھی جاسکتی کہ وہ اس قوم اور زبان سے متعلق تاریخ اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے باز آئیں گے ۔ بلکہ بلوچ قوم کے ہر فرد کو اس معاملے میں غور سے سوچنا چاہےے کہ اگر دنیا میں اپنی شناخت اور بقاءکو برقرار رکھنا ہے تو وہ صرف اور صرف اپنی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے سہارے ممکن ہے اور میڈیا کے ذریعے اپنی تہذیب و ثقافت ، زبان و ادب اور روایات و اقدار کو اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرکے ہم اپنی قومی حیثیت منواسکتے ہیں جس کے لےے مالی ، جانی، انفرادی اور اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے