پشتو ادب میں مسلم باغ میں انفرادی طور پر کچھ ایسے لوگ تھے جو طبع آزمائی کررہے تھے۔ مجموعی طور پر کوئی ادبی تنظیم نہیں تھی۔ڈاکٹر محمد شفیق ، مولوی محمد ہمایوں ، سید باز چا شنواری ، حاجی عبدالحق کاکڑ، محمد اِخلاص مخلص اور شفقت علی عاصمی نے ہمیں ادبی قندیل کے نام سے ایک ادبی تنظیم متعارف کروایا۔ ڈاکٹر شفیق اور سید باچا نے مجھ سے اشعار سنے جو دونوں کواچھے لگے اور ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا ۔ افسوس اِس لیے کہ اشعار سارے اُردو زبان کے تھے اِن دونوں نے کہا آپ اپنی مادری زبان پشتو میں کیوں شاعری نہیں کرتے ؟ انہوں نے کہا کہ ایک تو ویسے بھی پشتو زبان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے اور اوپر سے اِس کے اپنے بچے بھی اِس کوچھوڑ چکے ہیں انتہائی افسوس کی بات ہے اس حوالے استادوں نے کافی اچھی باتیں کی اور مجھ پر اِن باتوں کا کافی اثر بھی ہے۔ میں اُسی وقت اپنی مادری زبان پشتو کو وقت دینے لگا۔
میرے ساتھ ساتھ شمشیر میوند بھی آیا۔ اسی طرح اختر ولی اختر نے بھی ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے تنظیم میں شمولیت اختیار کی موصوف کی ۔ بزرگ شاعر محترم باز خان لالا بھی ایک اچھا اور حقیقت پسند شاعر ہے۔ مضراب عبدالوہاب ایک اچھا کلاسیکل شاعر ہے ۔ محمد کبیر ایڈووکیٹ ،حمید خان صدامی، عبدالخالق دیدار، عرفان سرحدی، فصیح اللہ اسیر، عبدالصمد روشان، اکرم شاہ اکرم، محمد علی عمری، مولوی اللہ داد حقمل، محمد سلیم اولس، محمد اسحاق کارگر۔ اِسی طرح نوجوان شعرا ء میں عصمت اللہ وطنپال سعید اللہ گلشیر، نقیب آزاد، نور الدین قائل ، بہاؤالدین وفا، سردار محمد معلم، بخت محمد ایثار ،محمد نسیم مخلص، عبدالواسع ، نور اللہ مجروح ، جاوید ، منیر احمد زہیر، سمیع اللہ طالب، عابد زیارمل، عبدالشکور سائل وغیرہ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُستادوں کی انتھک کوششوں کی مدد سے تنظیم کے کارکنان کا تذکرہ ( دزڑونوژغ) کے نام سے شائع ہوا جس میں تقریباً(26) شاعروں کے کلام بمہ مختصر تعارف کے (119) صفحات پر مشتمل کتابی شکل میں شائع ہوئی اس میں علاقے کے لوگوں کے ساتھ مختلف علاقو ں کے شاعروں کے کلام کو اکٹھا کیا ہے جیسے خانوزئی، بوستان، کلاسف اللہ، دُکی ژوب، بوری وغیرہ شامل ہے ۔ اس سے پہلے بھی ایک کتاب( گیلے و آرمانونہ ) کے نام سے شائع ہوئی اس میں مولوی محمد ہمایوں صاحب کی شاعری ہے۔ میرے علم کے مطابق یہ مسلم باغ کی سطح پر پہلی شاعری کی کتاب ہے ۔ بعدمیں سید باچا شنواری کی کتاب (سڑیکی ودردونہ) کے نام سے شائع ہوئی اس کے بعد ڈاکٹر محمد شفیع کی طب کی کتاب ( پشتو اناٹومی) کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد اُردو زبان کے ممتاز شاعر شفقت علی عاصمی جو بحیثیت پرنسپل بروکس کالج آف ایجوکیشن کے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے موصوف کی شاعری ( مئے پیالہ) کے عنوان سے ( دریچہ سخن) نامی کتاب میں شائع ہوئی دریچہ سخن مین بشمول عاصمی کے پانچ شعراء کرام کا مجموعہ ہے۔ اس کے بعد حال ہی میں محترم سید باچا شنواری کا دوسرا شعری مجموعہ ( ناست یم داُشکو ملغلری پیم) کے نام سے سپین غر پشتو ادبی ٹولنہ کی جانب سے منظر عام پر آیا ۔تقریباًچار سال پہلے مسلم باغ شہر کے وسط میں سپین غر لائبریری کے نام سے ایک لائبریری کا افتتاح کیا گیاجس میں ہزار بارہ سو کے قریب کتابیں موجود ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے