مجھے مزور کہتے ہیں تلاش زر میں رہتا ہوں
نئے منظر بناتاہوں پس منظر میں رہتا ہوں
میری مجبوریاں مجھ کو کبھی تھکنے نہیں دیتیں
مگر پھر بھی میں حاضروقت کی ٹھوکر میں رہتا ہوں
بہت ہی مختصر روزی میں ہوتا ہے گزر میرا
میں گُھٹنے موڑ لیتا ہوں مگر چادر میں رہتا ہوں
جومستقبل میرے بچوں کا سوچوں تھرتھراتا ہوں
میں زندہ ہوں مگر ہر وقت ہی محشرمیں رہتا ہوں
بہت کم کام ہوتا ہے میرا ساون کے موسم میں
ٹپکتی چھت بھگو دیتی ہے جب میں گھر میں رہتا ہوں
پسینہ بیچ کر اپناعلاجِ ذات کرتا ہوں
ہے جس پر دھوپ کی چھت میں اُسی دفتر میں رہتا ہوں
میرے بالوں کی چاندی پاؤں کی بیڑی نہیں بنتی
میں یوسفؔ خواب ہوں تعبیر کے محور میں رہتا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے