نیا سال کچھ تو بہتر ہو!۔

 

ہم آئی ایم ایف کے قرضوں کی کیچڑ میں دھنسے پیروں کے ساتھ نئے سال کے پاک کمپارٹمنٹ میں داخل ہو رہے ہیں ۔اور یہ 2023کا سال کہلائے گا۔ طویل عرصے تک اپنی برباد یاں جاری رکھنے والے سیلاب نے آگے پیچھے کی ہماری ساری یادداشتوں کے اوپر اپنی بدبخت تہہ نقش کروائی ہے ۔ غربت انسانی برداشت سے بہت گنا زیادہ ہے ۔ ریاست تمام تر وصولیوں کے باوجود بھی اپنے شہریوں کی سماجی خدمت سے اس حد تک پیچھے ہٹتی جارہی ہے کہ بطور ریاست اپنی خصوصیت ہی کھودے گی، غیر پیداورای اخراجات ہیں جو سب کچھ بک جانے کے باوجود کم ہونے میں نہیں آرہے ۔جامد سسٹم کی اخلاقیات اپنی پستی سے باہر نکلنا تو درکنار، باہر جھانکنا تک گوارا نہیں کرتی۔ ہمارے دوست دوست نہ رہے ، اور پڑوسی ہمارے شرارتی بچے کی غلیل بازی سے عضو عضو زخمی ہیں۔ بے اعتباری کے ہاتھوں نہ گلی میں چھا بڑی والا قرض دیتا ہے اور نہ دور یورپی بازار کا ڈیپارٹمنٹل سٹور۔

گھر کے اندر بھی اچھے حالات نہیںہیں ۔ بڑے نے ضمیر فروشی سے لے کر ہیروئن فروشی تک اور عقیدہ فروشی سے لے کر اعتماد فروشی تک ہر حربہ استعمال کر کے چھوٹے کا جیب مکمل طور پر چھید ڈالا ہے ۔ اُس کے گھٹنوں کے نیچے قومی مادری زبانوں کا دم گھٹ رہا ہے، قومی ثقافتیں باسیاں لے رہی ہیں اور میٹریل ترقی میں غیر مساویانہ حقیقت اب ناقابل بیان ہوگئی۔

ہم ایسی حالت میں نئے سال میں داخل ہورہے ہیں جب ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ بنیادی انسانی حقوق کے قتل سے آلودہ ہیں۔ جن پہ کوئی الزام ہو انہیں عدالتوں میں نہیں لایا جاتا گم شدہ کردیا جاتا ہے ۔پارلیمانی بورژوا جمہوریت اپنے تمام تر دھو کے بازیوں ، دکھاووں ، جلووں اور مرغن انگریزیوں کے باوجود اپنی عریانیت جاہل ترین شہری سے بھی چھپا نہیں پارہی۔ اس کے ممبر مردم خور، اس کے سپیکر فاشسٹ اور اس کے چیرمین گوادر گیر ہیں۔ آئین اور قانون کی بالادستی اپنے مطلب کھو چکے ہیں۔ جج اور جیوری فریادی کی جیب کا آخری ٹکہ تک ھڑپ کر کے فیصلے سناتے ہیں۔ انصاف کے سلسلے میں فوری کا لفظ اب ”غیر معینہ مدت “ کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔ ملا اب منکر ، پیر اب فقیر اور میر اب حقیر کی مترادف اصطلاحیں بن گئیں۔

ہم بہت بد صورتی کے ساتھ نئے سال کا پاک دروازہ عبور کر رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی وِرد کوئی منتر یاد نہیں ۔ خیر مقدمی کلمات ادا کرنے کو زبان کنگ ہے ۔ ہمارے پاس تو ہماری ماں زبان میں ”بیاد شاتکئے “جیسے خیر سگا لی کے الفاظ کے جو خرمن موجود تھے انہیں گیدڑ کھا گئے ۔ ایک بے کلچر، بے رواج ہجوم اپنے صدیوں پرانے میل کچیل جلا ڈالنے کے لیے نئے سال کی مقدس کرنوں کی طرف پر امید دیکھ رہا ہے ۔ انہیں مگر یہ خبر نہیں کہ اُن کی زندگیاں اجلی تب ہی ہوسکیں گی جب سورج کی جلا ڈالنے والی کرنیں اُن کی طرف نہ ہوں بلکہ حکمران طبقات کی ارواح کو بھسم کر ڈالیں۔ انہیں خبر نہیں کہ اُن کی نجات، لوٹنے والے استحصالیوں کا مکمل صفایا کیے بغیر ممکن نہیں ۔یہ بھی کہ ان دو طبقات میں بٹی ساری آبادی اب اکٹھے خوش نہیں رہ سکتی۔ ایک کامعدوم ہونا ضروری ہوگیا ہے ۔

اور مہان سورج ایسا کرے گا ۔ شرط ایک ہے کہ شمس تبریز کے اِس گھوڑے کی شست سیدھی کی جائے ۔ جی ہاں، سورج اُسے ہی راکھ کر دے گا جس کی درخواست عوام الناس کریں گے۔ اتنے بڑے سورج کی سمت متعین کرنا کروڑ دو کروڑکے بس کی بات نہیں ہے ۔اس کے لیے تو پورے کے پورے 22کروڑ کو پہلے تو سمت کا ادراک کرنا ہے ، مل کر زور لگانا ہے اور بالآخر سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کی ڈائریکشن اپنے طبقاتی دشمنوں کی طرف کرنا ہے ۔ ۔۔۔۔ بس اتنا ساہی کام ہے !

مگر یہ کام آسان لگتے ہوئے بھی اتنا آسان نہیں، یہ کام تیز رفتار لگتے ہوئے بھی تیز رفتار نہیں۔ دس ہزار لگڑ بھگڑ کھڑے کیے گئے ہیں تبدیلی کے سورج اور انسان کے بیچ۔

مثلاً انسان کو نانِ شبینہ کے حصول میں اس قدر چکرا دیا گیا ہے کہ اُسے روٹی کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر وہ کچھ اور دیکھنے کے لائق رہ بھی جائے تو وہ زبان، رنگ اور علاقے کی تفریق بیچ میں لاتے ہیں ، نسل اور قومیت کے معاملات کھڑے کرتے ہیں۔ عقائد کی کھڑی کردہ سہانی گھنٹیاں لاتے ہیں ، سجادہ نشین کے نورانی چہرے ہوں گے، سردار کے خوفناک باڈی گارڈ ہوں گے ، کوتوال کی بے شکن وردی ہوگی۔ اگر عوام اِن سب سے بھی ذرا آگے کی سوچنا چاہیں تو کارپوریٹ دنیا کی چمک آنکھیں خیرہ کر ڈالتی ہے ۔ آسمان تک سربلند بنک ہیں، آئی ایم ایف کے امدادی نورانی ہاتھ ہیں، پولیو والا بل گیٹ ہے ۔۔۔۔اور یہ ساری چمکتی چیزیں عوام سے دو دشمنیاں کرنے کے لیے قائم ہیں: ایک ، اسے شعور سے پرے رکھنا ، اور دو ، اسے تنظیم میں نہ جانے دینا ۔ اور اس کے لیے وہ فلمیں دکھاتے ہیں ، بچوں کو کارٹون پہ لگاتے ہیں، لیکچر سمینار بناتے ہیں، دورے اور سیریں کرواتے ہیں ۔ اور کبھی کبھی ڈرون سے حسبِ ضرورت کم یا بڑے پیمانے پہ اُن پہ بم گراتے ہیں۔

بہت بڑا جال ہے یہ۔ اس ساری ریشمی اور نظر نہ آنے والی جال کو انفرادی طور پر سمجھ لینا ، دوسروں کو سمجھاتے رہنا، سمجھے ہوﺅں کو منظم کرنا اور اس تنظیم کاری سے کپٹلزم کی مزاحمت کرنا بہت طویل بہت دشوار ہوتا ہے ۔

مگر بقائے انسان کے لیے دوسری راہ بھی تو نہیں ۔

روتے دھوتے ہوئے ہو، یا گاتے ناچتے ہوئے جانا تو اُسی طرف ہوگا۔

پچھلے سال کے تسلسل میں نیا سال اپنی ابتداءکر رہا ہے ، وہی جنوری تا دسمبر 365کا شب و روز ۔ وہی متعین منزل و محنت ۔ مگر ہر دن پچھلے سال کے اُس دن جیسا نہ ہوگا۔ پلڑہ خواہ حکمران کی طرف ہی کیوں نہ ہو مگر یہ ضروری ہے کہ عوام کی جدوجہد کی مقدار زیادہ ہو، اس میں گہرائی اور سنجیدگی فہمیدگی کا پرسنٹیج بڑھا ہوا ہو، اور وہ زیادہ منظم و متحد و ڈسپلنڈ ہوں۔

 

اتنا سا فرق تو ہم ڈالیں گے ہی!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے