کسی بھی قو م کی تا ریخ ، زبا ن ، طر ز تعمیر ،رسم و رواج، رہن سہن کے طر یقے ،لبا س ،خو راک ، مو سیقی ،لو ک ورثہ ،روایا ت، معا شر تی تعلقات ،معاشرتی اقدار ،ذرائع معا ش ،روزمر ہ استعما ل کی اشیاء،غم اور خوشی اور امن و جنگ کے تصوارت وغیرہ کا مجمو عہ جو اس قوم یا معا شر ے کو دوسروں سے الگ شنا خت دیتا ہو اس معا شر ے یا قو م کی ثقا فت کہلا تا ہے۔
ثقا فت کی کو ئی تحر یر ی شکل یا قا نو نی د ستا ویز ات نہیں ہو تے ۔یہ معا شر ے کے مجمو عی اخلا قی تصورات اور پا بند یا ں ہو تی ہیں جن کی پا سداری یا رکھوالی معا شر ے کی مجمو عی ذمہ داری ہو تی ہیں ۔ثقا فتی پا بند معا شروں کو منظم ،مر بو ط امن و استحکا م اور مہذ ب پا یا گیا ہے۔ جبکہ اس کے بر عکس غیر پا بند معا شروں کو بند امنی ،انتشا ر اور تنزلی کی جا نب دیکھا گیاہے۔ کسی بھی معا شر ے میں ثقا فتی اقدار کی پا سداری کر نے والے افراد کو اچھے نظر وں سے دیکھا جا تا ہے ۔ ثقا فت کے کچھ پہلو ؤ ں کی خلا ف ورزی پر مختلف معاشروں میں مختلف سزائیں بھی متعین ہیں ۔ایک ہی معا شر ے کے مختلف حصوں میں علا قا ئی روایا ت اور اقدار ہو تے ہیں ۔جو معا شر ے کے دوسرے حصے میں کسی اور شکل ،میں پا ئے جا تے ہیں ۔اور انہیں ان جزوی معا شروں میں قد ر کی نگا ہ سے دیکھا جا تا ہے۔ جزوی معا شروں کی چھو ٹے چھو ٹے اقدار ، رسم و رواج روایا ت اور لبا س وغیرہ جیسے تما م اجز اء مل کر ایک مجمو عہ ثقا فت کی تکمیل کر تے ہیں اور کسی بھی معا شر ے میں ثقا فت کے تما م پہلو ؤں کا ایک جیسا ہو نا اور ایک ہی نگا ہ و اہمیت اور خصوصیت کے سا تھ قا ئم و دوائم رکھنا ممکن نہیں ۔جبکہ ثقا فت کے اہم پہلو ؤں اور بنیا دی اہمیت کے حا مل اجزائے ثقا فت کو معمولی تفر یق کے سا تھ معا شر ے کی جغرافیا ئی حد وں اور طبقا ت میں قا ئم رکھنے کی کو شش کی جا تی ہے۔
کسی بھی ثقا فت کے دو بنیا دی تصورات ہیں۔1۔ ما دی اور 2۔ غیر ما دی ثقا فت
1۔ ما دی ثقا فت میں معا شرے کے رہن سہن کے طر یقے ، طر ز تعمیر ،لبا س و پو شا ک کا شتکا ری و کا روبا ر اور روز مرہ کے اشیا ء ذرائع رسل و رسائل اور ثقا فت میں شا مل تما م مادی اشیا شا مل ہیں جنہیں دیکھا اور چھو ا جا سکے ،ما دی ثقا فت کے حصے کہلا تے ہیں ۔
2۔ غیر ما دی ثقا فت میں تا ریخ ،زبا ن،مو سیقی ،روایا ت،اقداراور وہ تما م غیر ما دی تصورات و خیالا ت جو کسی ثقا فت میں قد ر کی نگا ہ سے دیکھے جا تے ہو ں ،غیر ما دی ثقا فت کہلا تے ہیں ۔
معا شرے کے لو گو ں میں جد ت اور دنیا کی تبد یلیوں کے سا تھ معا شرے کی ثقا فت میں بھی تبد یلیا ں ہو تی رہتی ہیں۔بعض نئے اجزاء شا مل ہو تے رہتے ہیں جو وقت اور حا لا ت کے سا تھ سا تھ جڑ پکڑ تے ہو ئے معا شرے کے جزو کل میں ضم ہو کر معا شر ے کی ثقا فت کا با قا عد ہ حصہ بن جاتے ہیں۔
بعض اقد ار قد یم ہو کر صر ف تا ریخی صفحا ت میں رہ جا تے ہیں ۔
زیا دہ تبد یلیاں کمزور ثقا فتی معاشروں میں و قو ع پذیر ہو تی ہیں۔ جو تبد یلی کو جلد قبو ل کر لیتے ہیں اور نئی چیز وں کو قبو ل کر کے پرانی اقدار اور روایا ت کو نظر اند از کر لیتی ہیں ۔ تبد یلی کے اس عمل سے کسی بھی معا شر ے کی ثقا فت نہیں بچتی لیکن ما دی ثقا فت کی تبد یلی بہ نسبت غیر ما دی ثقا فت کے قد ر ے جلد ی قبول کی جا تی ہیں ۔ اور تبد یلیا ں آتی رہتی ہیں ۔جبکہ غیر ما دی تبد یلیا ں بہت ہی بڑے عر صوں کے بعد انتہا ئی کھٹن حا لا ت میں و قو ع پذیر ہو تی ہیں ۔
بلو چ معا شر ہ اپنی بے تحا شہ خو بیوں کے سا تھ ثقا فتی لحا ظ سے بھر پو ر ثقا فتی معا شر ہ ہے۔ بلوچ قو م نے اپنے او پر گز رنے و الے سخت ترین اور کٹھن حالا ت کا سامنا کر نے کے با و جو د اپنے اقد ار اور روایا ت کی مکمل پا سد اری کی ۔ جس کے لئے انہیں بھا ری قیمت کیو ں ادا کر نی پڑ ی ۔ لیکن اپنی ثقا فت اقد ار ، رسوم رواج ، لبا س و پو شا ک بو د و با ش اپنی تا ریخ زبا ن اور سر زمین کو کسی نہ کسی طر ح محفوظ رکھا ۔
بلو چ قو م نے اپنی تاریخ ، زبا ن ، اور تا ریخی ثقا فتی اقدار کو شعر و شا عر ی لو ک داستا نو ں اور لو ک کہا نیوں کے ذریعے نسل دَر نسل جا ری رکھا اور نئے نسلوں کو منتقل کر تے رہے ۔ کیونکہ دورِ حا ضر سے پہلے بلو چ معا شر ے میں درس و تد ریس نہ ہو نے کے بر ابر رہی تھی ۔ اس لئے تما م تا ریخی و اقعا ت جنگ و جد ل اور قو می زند گی میں رونما ہو نے و الی تبد یلیوں کو سینہ بہ سینہ یا د رکھ کر اس کی پا سداری کر تے ہو ئے قو م کی اما نت کو نئی تک منتقل کر تے رہے۔ کیونکہ دورِ حا ضر سے پہلے بلوچ معا شر ے میں درس و تد ریس نہ ہو نے کے بر ابر رہی تھی ۔ اس لئے تما م تا ریخی واقعا ت جنگ و جدل اور قو می زند گی میں رونما ہو نے والی تبد یلیوں کو سینہ بہ سینہ یا د رکھ کر اس کی پاسداری کر تے ہو ئے قو م کی اما نت کو نئی تک منتقل کر تے رہے۔
دنیا کے مسلمہ اصو لو ں کے عین مطا بق بلو چ معا شرے میں ما دی اور غیر ما دی ثقا فت کے تصورات پا ئے جا تے ہیں ۔ بلوچ معا شرے میں دستا ر ایک ثقا فتی و رثہ ہے ۔ جسے انتہا ئی قد ر کی نگا ہ سے دیکھا جا تا ہے ۔ دستا ر پہننا ما دی ثقا فت ہے لیکن دستا ر کی تقد س ، عظمت ،حر مت اور احتر ام کا جو تصور ہے وہ غیر مادی ثقا فت ہے۔ سر سے دستا ر کو گرا نا سر کا ٹنے سے زیا دہ خطر ناک ہے اسی طر ح دستا ر گر انے کے بجا ئے بلو چ معا شر ے میں سر کٹا نے کو تر جیح دی جا تی ہے۔ اسی طر ح بلو چی دِیوان ،بلوچی مُچی یا بلوچی کچہر ی میں بیٹھنا ، خیا لا ت کا اظہا ر کر نا، قصے و داستا نیں سننا وغیر ہ ما دی ثقا فت ،جبکہ اسی مُچی یا دِیو ان کے جو آداب اصول و ضو ابط اور قا عدے و قوانین کا جو تصور ہے وہ غیر ما دی ثقا فت کے حصے ہیں ۔جن کی پاسداری نہ کر نے پر خطر نا ک نتا ئج سامنے آسکتے ہیں ۔
بلو چی مُچی یعنی بھر ے دیوان میں غیر اخلا قی الفا ظ کی ادائیگی ،کسی کی عز تِ نفس پر حملہ ،کسی شخصیت کے کسی پہلو پر عیب ظا ہر کرنا بلوچ معا شر ے میں کسی بڑے جر م سے کم نہیں اور اخلا قی قد روں کی انتہا ئی خلا ف ورزی تصور کی جا تی ہے۔
قول و قرار کی پا سداری ،پنا ہ گیر کا تحفظ ،مہما ن نو ازی ،خو اتین کا احترام، دوران جنگ بچوں ، بو ڑھوں ،خو اتین اور جنگ میں حصہ نہ لینے والو ں کاتحفظ ،ہمسایو ں کے سا تھ امن و بر ابر ی کی بنیا د پر تعلقات استوار کر نا ، اخوات و بر داشت کی روایا ت بلوچ ثقا فت میں روزِ اول سے بڑی شدت سے پا ئی جا تی ہیں ۔جنکی مثا لیں بلوچ تا ریخ کی ہر دور میں نما یا ں ہو نے کے سا تھ سا تھ دورِ حا ضر میں بھی اپنے حقیقی شکل و صورت میں مو جود ہیں۔
ضر ورت اس امر کی ہے کہ بلوچ ثقا فت کے تما م حقیقی پہلو ؤں کو اجا گر کر کے بلو چ معا شرے کی حقیقت اور اہمیت سے دنیا کو اگا ہ کیا جا ئے ۔جوکہ اس سے قبل ممکن نہیں ہو سکا اور بعض حلقو ں کی جا نب سے بلو چ معاشرے سے متعلق غلط فہمیا ں اور بد گما نیا ں پا ئی جا تی ہیں ۔جنکا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔
بلوچ قو م کو چا ہیے کہ وہ اپنی ثقا فت کے تما م اجزاء کو مقد م رکھ کر زند ہ قوم ہو نے کیلئے اپنی الگ زبا ن ،جغرافیا ،ثقا فت اور قومی تشخص کو دنیا کے سامنے اجا گر رکھے اور ما دی ثقا فت کی نمو دونمائش پر اکتفا کر نے کے بجا ئے قو می ثقا فت کے تما م اجزاء جس میں ننگ و نامو س کا تحفظ ،عزت و عظمت ،امن و سلا متی ، محبت و یکجہتی ، مسا وات و بر داشت ، دوست و دشمن کی پہچا ن ، جر ت و بہا دری ، اچھے بُر ے کی تمیز ، قومی سوچ و فکر ،عملی کر دار،اتحا دو اتفاق ، ہمت و حوصلہ ،تہذیب و تمد ن ، سر زمین کا دفا ع ، تا ریخی قومی تشخص کی بحا لی ،جُہد مسلسل ،قو می اقد ارو روایا ت کا تحفظ اور اپنی قومی زبا ن کی تر قی و تر ویج کو اپنا شعا ر بنا کر دنیا میں مو جو د دیگر اقوام کے سا تھ انسا نی بر ابر ی کی بنیا د پر اپنے قومی وجو د کو ثا بت کر یں اور امن و محبت اور بھا ئی چا رے کی فضا ء کو قا ئم کر کے معا شرتی معا ملا ت کو گزار یں ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے