"دانیال یہ نظم تو دیکھو!”
ایک
یگ بیتا ہے
تم نے میری کوئی
نظم کو نہیں چھوا
روح تک سلگتی ہے
اشک میں بھگوئی ہے
یار !
شہر کوئٹہ میں
کس قدر ہے تنہائی
تم کہاں ہو اے بھائی
اس طرح نہیں کرتے
دید کو میں ترسا ہوں
دستکیں ہیں پلکوں پہ
دھڑکنوں پہ مرتا ہوں
کاش!
یہ پلٹ جائے
وقت میری یادوں سے
کس قدر تسلی سے
ہم بھی مسکراتے تھے
تم جیو
میرے بھائی
گفتگو بہت سی ہے
اس برس ملاقاتیں
نت نئی کریں باتیں
پھر سے مسکرا اٹھیں
۔۔۔
اے خدا!
سوچ…
درد، یہ تنہائی…
اک دعا لپٹتی ہے
بار بار اشکوں سے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے