اگلے دن بندرگاہ کا ایک افسر ،داؤد بلوچ ہمیں پورٹ میں گھما رہا تھا۔جب ہم چینیوں کے رہائشی ؍دفتری علاقے سے گزر رہے تھے تو وہاں مجھے دیوار پر ایک چینی کہاوت( انگریزی میں ترجمہ شدہ )بہت ہی موٹے الفاظ میں لکھی نظر آئی۔ میں نے وہ فقرہ پڑھا ۔اور جیند خان، ضیا شفیع اور داؤد بلوچ کے لیے دوبارہ اُسے زور زورسے پڑھا ۔ اس سے ہمیں چین کی آج کی صورت حال، گوادر پر اُس کی مہربانی، اور پاکستان کے ساتھ اُس کی گہری دوستی کا سارا فلسفہ پہلے سے زیادہ شفاف اور وضاحت سے سمجھ میں آگیا ۔ فقرہ تھا: ’’ پیسے کے بغیر ایک شخص اُس کما ن کی طرح ہے جو تیر کے بغیر ہو‘‘۔
ہت تیرے کی!۔اب میں سمجھا ہوں تیرے رخسار پہ تل کا مقصد۔تم اپنے کمان کے لیے تیر کی تلاش میں ہو۔ اُس ٹرک سے بھی بدتر جس کے پیچھے لکھا ہے ؛ ’’ ڈالر کی تلاش ، لوڈ کی پرواہ نہیں‘‘۔پیسہ جس کسی کا بھی زندگی کا مقصد ٹھہرا، زمانے نے اُسے انسانی شرف اور عزت مندی سے دور دیکھا۔
میں دوستوں کو مشورہ دوں گاکہ وہ آج کے چین کو سمجھنے کے لیے امریکی ’’ کاؤ بوائے‘‘ سلسلے کی دو چار فلمیں دیکھیں، انہیں سونا اور سفاکیت کی جوڑی سمجھ میں آئے گی۔
بھئی، کپٹلزم اخلاقیات پہ زیادہ بھروسہ نہیں کرتا۔ دوستیاں ،اور وفاداریاں منافع خوری میں کسی کام نہیں آتیں۔ چین ’’پیسہ ازم ‘‘کی طرف رواں دواں ملک ہے۔ ہمارے کچھ احباب ابھی تک پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی والی چینی روسی جھگڑے کے نفتھالین بھرے آکسیجن سیلنڈر میں جی رہے ہیں۔ اُن کے پیشِ نظر راہداریوں کے نام پہ انفراسٹرکچر کی فوری معاشی، کلچرل اور سیاسی قیمت ہے ہی نہیں۔ذہنی طور پرپرانے زمانے کے اِن دوستوں سے کیا مباحثہ ، ہمیں تو تیر اور کمان کی بات پہ غور کرنا ہے ۔ اندازہ ہوا کہ ہمارے انفراسٹرکچر پر اس قدر اضافی پیسہ لگانے سے چین کی کمزور ہوتی معیشت کو مدد ملے گی ۔اس کی کمپنیوں کو زبردست اور دیر پا منافع ملے گا۔ اسے اپنے زرمبادلہ ذخائر پر مالی منافع میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چین گلف کے تیل کو خلیج ملا کا کے ذریعے اپنے بحرالکاہل کے ساحل تک لے جاتا ہے۔ چین پُر خطر ملا کا خلیج پر انحصار کو ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے کہ اِن جزائر پر بہت جھگڑا رہتا ہے۔ دراصل چین، عرب خلیجی ممالک کے تیل اور توانائی کو مغربی چین تک لے جانا چاہتا ہے۔ اس کی اس اہم خواہش کا جواب گوادر کے پاس ہے۔ گوادر گہرے پانیوں کی بندرگاہ کے بطور بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ یہ قریب ترین روٹ مہیا کرتا ہے اور یہ بندرگاہ ہر موسم اور پورا سال چلنے والی ہے ۔
منصوبہ یہ ہے کہ چین عرب خلیج کے ذریعے گوادر تک آئے۔ گوادر کو سڑک اور ریل کے ذریعے پاکستان کے شمال میں قراقرم شاہراہ سے ملایا جائے۔ یہ روٹ اُسے ملا کا روٹ سے بہت نزدیک پڑتا ہے ۔ خلیجی عرب دنیا سے تیل سیدھا، توانائی کے لیے بھوکے اندرون چین تک۔
تو دوستو!یہ صرف پوٹھوہار نہیں جسے گرم پانیوں کی تلاش ہے بلکہ یہ تو پیکنگ بھی ہے جسے راہوں کو مختصر کرنے والا پانی چاہیے۔ اِس بین الاقوامی اور قریب تر روٹ کو چین کی کپٹلزم کی خدمت میں دینے کی آرزو کو تکمیل بخشنا ہے۔چین گوادر سے کاشغر تک اپنا مال لانا لے جانا چاہتا ہے۔ بارہ ہزار میل کا فاصلہ کم ہوکر2395 کلومیٹر رہ جائے گا۔
اِس کے علاوہ چین کا مغربی علاقہ پسماندہ ہے۔ اس نے اسے ’’ ترقی ‘‘ وغیرہ دینا ہے۔ گوادر اُس کے لیے تو یوں گیم چینجر ہے کہ اس کی مسافت کم ہوجائے گی، ہمارے لیے اس لیے گیم چینجر ہے کہ یہاں شناخت، ملکیت اور اقتدار اعلیٰ کا خاتمہ ہوجائے گا۔اور، ایک مدہم وموہوم و غیر یقینی ہماری قومی بصیرت کی آنتڑیاں اکھاڑتی رہے گی۔
لہٰذا ہمیں چین کی شرافت معلوم ہونی چاہیے۔ ہمالیہ سے اونچا یہ دوست تو سمندر کی گہرائی سے ہماری ہڈیاں تک نکال لے جانے کو کدالیں بیلچے لیے آن موجودہوا۔چین کے ساتھ جو نظریاتی رشتے تھے وہ اُس دِن بخارات بنے جس دن سے اس نے سوشلزم سے بے اعتنائی برتنی شروع کردی اورسرمایہ دار ی کی مکھیوں مچھروں کی آمد کے لیے کھڑکیوں کی جالیاں اکھاڑ پھینکیں۔ اب وہ بلوچ عوام کو مدد دینے نہیں بلکہ ہم غریب لوگوں کا پیٹ چیرکر اپنی تجوریاں بھرنے آتا ہے۔یہ گوادر ، یہ کوسٹل ہائی وے ، یہ رنگینیاں، یہ چِینیاں بے چَینیاں، یہ وفود یہ دورے ، یہ چکا چوند، یہ دبئی گیریاں ہمارے وقار و خزانوں کا دوپٹہ نچوڑ ڈالنے کے لیے ہیں۔
کون کہتا ہے کہ گوادر نہ بنے، اس کا پورٹ نہ بنے، اُس کی بے مثال ترقی نہ ہو۔ مگر بیل کے مالک سے یہ پوچھنا ضروری ہوتا ہے ناں کہ وہ اپنے بیل کو ہل چلانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے یا ذبح کرنے کے لیے۔ اِدھر مصیبت یہ ہے کہ بلوچستان ایسا نازک ہے جیسے پیلوں کے درخت پہ لگا پھل جو بالکل آبلہ کی طرح ہے، ذرا ہاتھ لگا نہیں آبلہ پھٹ گیا۔ ہماری آبادی میں ایک لاکھ بھی گھس جائیں تو سمجھو بلوچ اقلیت ۔ یہ احتیاط تو صرف ماں ہی کرسکتی ہے ، تاجر ایسی ناز برداریاں کہاں کرتا ہے۔ دکان اور بلوچستان کبھی دوست نہیں بن سکتے۔
اُس روزمیں نے آس پاس نظریں گھما کر دیکھا،اس سمندر کن ( بمشابہ گورکن ) کے گھینتی بیلچے کی حفاظت کو لوگ موجود تھے!۔
گوادر ایک مستقبل بدبختی ہے اور بدبختی کا منیجر اور ہیڈ ماسٹر تو سب سے بڑا بدبخت ہوتا ہے ۔ جس کے ہاتھ یہ بدبختی لگی وہ برباد ہوا ۔ یہ بدبختی پیدائشی طور پر بلوچ کے ساتھ تو ہے ہی، مگر جس بھی خارجی نے اس کی چمک دمک کا دھوکہ کھایا وہ دوبارہ پیروں پہ کھڑا نہ ہوا۔ ایسا زندہ کیکڑوں بھرا نوالہ جو کھانے والے کے گلے میں اپنے کانٹوں نوکوں سے بری طرح چپک جائے۔نہ نگلا جائے نہ اُگلا جائے۔ مرگ تک ۔
ہم سیاہیں ڈِک (سیندک) میں چینیوں کے ہاتھ بلوچ کا لُٹنا دیکھ چکے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سامراج ( جو کہ سرمایہ داری نظام کی معراج کا نام ہے ) جب کسی سونا چاندی والی جگہ سے واپس جاتا ہے تو پیچھے نہ سونا بچتا ہے اور نہ کاپر ۔ بس انسانی آہوں، پشیمانیوں اور احساسِ شکست کے کھنڈرات چھوڑ جاتا ہے۔
گوادر کی ’’ ترقی ، تنزلی‘‘ کا تھرمامیٹر تو پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ یہاں تو اُس کے ’’ پراپرٹی‘‘ کے ڈیلر بھی ناچ رہے ہیں اورگوادر بے چارہ خود بھی دوسروں کی وجہ سے ناچ رہا ہے۔پراپرٹی ڈیلرز کبھی تُو تُو بجاتے آتے ہیں کبھی بَین کرتے جاتے ہیں۔ اور یہ پراپرٹی ڈیلر ہیں کون؟۔ ڈیلر ہیں یار۔ پراپرٹی کی صورت کچھ بھی ہو۔ سوات اور پھجے کے پائے کے بیچ ڈیلنگ ہو یا بحریہ ٹاؤن اور بل نگوئر کے بیچ۔ جسمانی عصمت کی ہو یاماں زمین کی ۔
چنانچہ گوادر کا ڈیلر پہلی بار جب آیا تھا تو گوادر نے اُسے امید سے کرلیا تھا ۔ پھر ادھر ادھر کوئی سمال یا بِگ بینگ ہوا تو حمل ضائع اور وہ واپس اپنے وطن چلا گیا۔ مگر اونٹ تو دس برس پرانی چراگاہ کو بھی یاد کرکے رسیاں تڑوا کر وہاں جاتا ہے ۔ ڈیلر بھی۔ پیسہ اُسے کھینچے ہے تو گوادر دھکیلے ۔پیشہ و روں کا بھی اعتماد ہوتا ہے۔ اعتماد بحال یا ٹوٹ سکتا ہے ۔’’ اُن ‘‘کا بھی۔ ڈیلر اپنے پیسہ کی تولید درتولید کی خاطر ملک و قوم کی خیر و برکت کو بانجھ پن کا آپریشن کرنے کو ہمہ وقت تیاررہتا ہے۔
بہر کیف چین کی راہداری کی نئی کروٹ کے ساتھ ڈیلر پھر واپس آنے لگے ہیں۔ کبھی کبھی ’’راہداری‘‘ لفظ کے پرانے معانی کو نئے میں ڈھلتے ہوئے عجب محسوس ہوتا ہے۔ راہ ، راہ داری، سپردگی، خود سپردگی۔۔۔۔۔۔ کیا کیا لفظ ہیں ڈکشنری میں۔
پھر یہ ڈیلر خود کچھ بھی نہیں ہیں جب تک لینڈر یونیو میں موجود کوئی ’’ بُڑھیا‘‘ ان کی راہ ہموار نہ کرے۔ اور ’’ بڑھیاؤں‘‘ کے ہاتھ تو اس قدر لمبے ہوتے ہیں کہ گوادر سے سول سیکریٹریٹ کوئٹہ اور فلاں فلاں سیکریٹریٹ تک ایک پوری زنجیر ہوتی ہے ۔ ہائے رے کارل مارکس، تمہیں بھی تب مرنا تھا جب گوادر کی’’ گاہ ‘‘ابھی جُتی نہ تھی۔ارے یہ منڈی تو ابھی سجی ہے۔ خوشبو، بوتلیں،کٹورے، جھنجنے ، تاپ ، تھاپ،دھوتی ٹائی، نغمہ، آواز، لکھنو، کوٹھا،حقہ۔۔۔۔۔۔۔
گوادربلوچستان نہیں ،پلاٹستان ہے ۔ گوادر میں پلاٹ انڈے دیتاہے۔ ہم آپ تصور تک نہیں کرسکتے کہ ارزاں فروشی کسے کہتے ہیں۔ ہم مڈل کلاس پارٹیوں کو سمجھاتے سمجھاتے عمر بتا چکے ہیں کہ ’’رموزِ سرکار سرداراں می دانند !! سائیں‘‘۔ اور سردار وزرائے اعلے کے فیصلے تم مخلوط و رنگ برنگی بیساکھیوں کے مڈل کلاسیے کہاں Undoکرسکتے ہو۔ قاری ، کیا آپ کو پتہ ہے کہ گوادر ایئر پورٹ کے لیے جو زمین گئی وہ لندن کے ہیترو ایئر پورٹ کے رقبے سے دوگنی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔گوادر اور ہیتھرو!۔ چنانچہ سب کچھ پلاٹستان قائم کرنا ہے۔ نقلی میگا ، نقلی پراجیکٹس ، نقلی شوشا۔ بس پلاٹ اصلی۔
زمینوں پر قبضے کرنے ، خریدنے اور الاٹ کرنے کے تماشے تو ہم سب کے دیکھے ہوئے ہیں۔مگر اصل بات تو چین اور گوادر کا ہے۔ معاہدوں اور معاہدوں کے بیچ اضافوں ، ترمیموں، تحریفوں پر مشتمل دستاویزات کی بھرمار ہوتی رہی ہے یہاں ۔ یہ باہمی بات نہیں یک طرفہ بات ہے۔یہ تو گوادر کو کاٹن پیک کرکے چین کے حوالے کرنے کی بات ہے۔گوادر ’’پاک چین دوستی‘‘ کا سب سے بڑا شکار ہے۔
بتانے والوں نے بتایا کہ پورٹ کی آمدنی میں 95 فیصد چین کا اور محض پانچ فیصد ہمارا ہے۔ہم تو اس پہ ماتم کریں گے ہی مگر ہمارا خدا ابھی تک مکمل طور پر چین کی طرف نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے گوآدر اپنی تمام تر موزونیت کے باوجود ایک پورٹ نہ بن سکا۔افلاطونی دماغوں نے اپنی طرف سے تو1993 میں یہ پراجیکٹ منظور کیا تھا۔ 2002 کواِس پراجیکٹ کا افتتاح بھی ہوا ۔2007 کو گوادر پورٹ کا افتتاح ہوا۔ اسے ٹرانزٹ ٹریڈ ، ٹرانس شپمنٹ کے بطور تصور کیا گیا ۔ اب وہارف کا 600 میٹرتعمیربھی ہوچکا ۔ تقریباً14 میٹر گہراکھدائی کیا ہوا ۔ اسے اگلے پانچ سال میں900 کلومیٹر تک بڑھانے کا منصوبہ بھی ہے۔
پھر،یہ پروگرام بھی ہے کہ اس پر ماڈرن پورٹ کا انفراسٹرکچر بھی تیار ہوتا جائے ، جس میں سٹوریج ، ویئر ہاؤس وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح ہوٹل، موٹل، ٹریول اینڈ ٹورازم کا فروغ ضروری ہوجاتا ہے۔ صنعتی شعبے میں سمندری خورا ک کا پراسسنگ اور ایکسپورٹ،، کھجور کی پراسسنگ اور برآمد بہت منافع بخش ہوگا۔ دفاتر اور رہائشی تعمیرات کا طوفان آنا تو یقینی بن جاتا ہے۔
بھئی کوئی مانے یا نہ مانے اصل مقصد تو گوآدر بندرگاہ کو اپنانا تھا ۔ وہ(اُن کی نظر میں) ہوگیا توگویا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا۔ دوسری بڑی خواہش معدنیات بھرے بلوچستان کو گوادر پورٹ سے ملانے کی ہے۔
مگر کون یہ راز فاش کرے کہ دلہن گوادر، پیدائشی لنگڑی ہے۔ کون عقلمندوں کو بتائے کہ سہاگ رات ہی کو یہ ڈائن بن جاتی ہے ۔ اس نے اپنے مالک کو کہیں کا نہ چھوڑا یہ دوسروں کو کیا چھوڑے گی۔ پرتگالیوں نے اسے، اور اس نے پرتگالیوں کو تار تار کیا، مسقطیوں نے اسے اور اس نے انہیں نو چادبوچا، انگریز نے اسے چیچک لگا یا تو اس نے انہیں حتمی بونے پن کی بدعا پھونک دی ۔ سنگا پور والا سیٹھ اپنے سایہ دار ہیٹ اور سگار لٹکے منہ کے ساتھ آیا، اُس نے گوادر کی اور گوادر نے اُس کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ۔ اور اب چین کی باری ہے ۔۔۔۔۔۔ دیکھیں!!۔ زمانے نے راکھشس کو زخم اور درد میں کراہتا چنگھاڑتا ابھی دیکھنا ہے۔
بلوچی زبان کا ضرب المثل ہے کہ ’’بدبخت کے ریوڑ میں بھیڑیا گھس جاتا ہے اور خوش قسمتوں کو اُس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ علاقے میں بھیڑیا موجود ہے ‘‘ ۔مندرجہ بالا مذکورہ بدبخت لوگوں کو گوادر نے چبا ڈالا تو خوش قسمتوں کو پتہ چلا کہ یہاں سرمایہ کاری خطرناک ہے ۔ تاجر کوتو منافع چاہیے ہوتا ہے ، فوری اور یقینی منافع۔ اور یہ گوادر نہ فوری منافع دیتا ہے نہ یقینی منافع ۔ اسی لیے امریکہ اور یورپ یہاں سرمایہ کاری نہیں کررہے ۔
گوادر کو دبئی بنانے کے لیے سڑک اور ریل چاہییں۔ وہ کم بخت بن نہیں پا رہیں۔ انہی سڑکوں ریلوں کو دالبندین اور وہاں سے ایران اور پھر وسطی ایشیا تک جانا تھا۔ یوں سرمایہ داری نظام کا ایک اور سرکٹ بن جاتا ۔ مگر سرمایہ داری نظام تو لگام ٹوٹے گھوڑے کی طرح بد نظم و خود سر ہے۔ چین امریکہ سے تمام تر یاری اور اتحادی گیری کے باوجود، معاشی بقا کے لیے اُس سے مقابلہ میں ہے۔دبئی گوادر سے ، کہنی بازی میں لگا ہوا ہے ۔ایران پاکستان سے خاموش خاموش مسابقت میں ہے، بھارت الگ مفادات رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔ریل اور سڑک صرف جغرافیائی مسائل والے ہوتے تو بن جاتے ۔ مگر یہ تو سیاسی بھی ہیں۔ اس لیے بغیر گفت و شنید کے ،بغیر سمجھوتہ کے کیسے بن پائیں گے۔ اور اگر بن گئے بھی تو بدمزگی تو رہے گی ہی۔اور قوموں کی بدمزگی فرد کی بد مزگی سے بہت شدید بہت گھمبیر ہوتی ہے۔ اور اگر یہ سارے سرمایہ دار باہم مخاصم ممالک ایک بھی ہوجائیں، اورطویل بلوچ بغاوت کو پالتو بھی کرلیں تب بھی اس قدر طویل اور کٹھن و دشوار علاقے میں سے ، او ر بلا نوش مون سون سے بچتے بچاتے سڑک ریل بنانے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔
سنٹرل ایشیا تک ریل، روڈ بنانا جب نہ ہوا تو سمجھو پورٹ بے کار ہے۔ جی ہاں بے کار ہے۔
ہنسی آتی ہے جب بلوچستان کے باہر کے سرمایہ داروں کے مفادات کو بلوچستان کا مفاد قرار دیا جاتا ہے۔ بلوچستان و خیبر پختونخوا ہ کے کچھ ٹی وی اینکرز ، اورمذہبی اور لسانی پارٹیاں نواز شریف کی پنجاب پرست حکومت سے زبردست تنازعے میں ہیں ۔ یاروں نے گویا گوادر ہڑپ کر بھی لیا۔ اوراب محض اس کی مردہ لاش لے جانے والی روٹ پہ بحث مباحثہ جاری ہے۔ لاش برداری پہ پیسے کمانے کے لیے ٹی وی چینلوں پہ چیخ و پکار، علاقوں کو ’’ ترقی‘‘ دینے کی عرضیاں دھمکیاں۔ انہوں نے اپنے خیال میں گوادر چین کو کامیابی سے بخش بھی دیا، اور یار لوگ اب دنیا بھر کا سامان گوادر سے چین تک پہنچانے کا روٹ طے کررہے ہیں۔ ایک کہتا ہے حسن ابدال، کوہاٹ، ڈی آئی کوئٹہ، پنجگور گوادر والا راستہ ہو۔ دوسرا ایم 4,3,2 ملتان، راجن پور، حب اور وہاں سے گوادر جانا چاہتا ہے ۔ تیسرے کی خواہش ہے کہ حسن ابدال سے موٹر وے کراچی، رتوڈیرو، خضدار، آواران، خوشاب گوادر ہو۔
’’ بھائی صاحب‘‘ کا خیال ہے کہ وہ ریل کے ذریعے سنٹرل ایشیا تک اِن راستوں سے پہنچے گا:
1۔ گوادر دالبندین ( تقریباً 515 کلومیٹر) اور
2۔ گوادر قلات مستنگ ۔۔۔۔۔۔( تقریباً625 کلومیٹر)
3۔ گوادر خضدار ، ڈی جی خان، پشاور، طورخم
اسی طرح گوادر چین وہ اِس راستے سے جانا مانگتا ہے:
4۔ گوادر، ملتان، فیصل آباد، پنڈی، گلگت سے خنجراب کے ذریعے چین۔
طاقتور کبھی انشاء اللہ بولتا ہی نہیں!!
مگر اب تو’’ فر ی اکنامک زونز‘‘ کا سن کر دریائے سندھ کے اُس پار کے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں نے چین گوادر روٹ ہی پر اکتفا کرنے کا ارادہ باندھا ہے ۔ ٹیکس سے آزاد فری اکنامک زون پنجاب میں بن جائیں تو اور مزے ہوں گے ناں!!۔
تقدیر مہدی پہاڑ کی بلند چوٹی پر بیٹھی زہریلی مسکراہٹ مسکرارہی ہے۔ساحل بلوچ کا، معدنیات بلوچ کی، اور گزرنے والا راستہ بھی بلوچ کا، اور اُس پر لڑرہے ہیں خارجی گدھ۔ ارے بھائی ،گوادر کا روٹ بلوچستان ہی میں سے ہوکر گزرتا ہے ۔چینی بھائی، گوادر کا قبضہ بے کار جب تک بلوچستان کا قبضہ نہ ہو۔اور اکیسویں صدی میں قبضوں کا تصور محض عقل سے کھسکی ہوئی کوئی قوم ہی کرسکتی ہے۔کیا وہ اس بات میں کامیاب ہوں گے کہ ہم اچانک مالک نہیں رہیں گے بلکہ اُس کے ’’ روٹ‘‘ کی مینڈکوں، کتوں، گدھوں کے گوشت کے حفاظتی لیویز والے ہوں گے؟
کسی نے مجھے بتایا کہ یہ بندرگاہ تب ہی خود کفیل اور مکمل ہوجائے گا جب ہفتے میں21 کمرشل بحری جہاز یہاں آئیں۔ اور تصور کریں کہ ہر ہفتہ 21 دیو ہیکل بحری جہاز جو سامان لائیں گے لے جائیں گے اس کے لیے حکومت اور سرزمین کتنی تیار ہے؟۔ اسی طرح ملک میں پھر بجلی تو ہے نہیں۔ جبکہ ایک پورٹ24 گھنٹے کی بجلی اور وہ بھی وافر بجلی مانگتا ہے۔چیونٹیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں ٹرالروں کنٹینروں کی ۔سڑکوں کی نہیں شاہراہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض شاہراہوں کی نہیں مصروف ترین ریلوے لائنوں کی بھی۔ گنڑیش دیوتا لاؤ، یا شاؤ لین کا پورا جوڈوکراٹے والا لشکر، یا جوج ماجوج لاؤ یاچین کے سارے تصوراتی راکھشس جمع کرو ۔ساری دنیا کی بلائیں اکٹھی کرو لاؤ مگربقول شہ مرید گوادر نامی ’’ ہندومسلمان نہ ہوگا‘‘۔ واللہ اعلم بالصواب۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے