شاید 1974 کی بات ہے ، جب پارس حمید نے مجھ سے پوچھا، ’’ کبھی کامریڈ سوبھو سے ملے ہو؟‘‘۔ اُس نے بڑے اشتیاق سے سوبھو کا نام لیا تھا ۔ یہ نام میرے لیے بالکل نیا تھا۔’’ سرکار کی نظر میں بہت خطرناک آدمی ہے ۔ کمال ہے تم سوبھو کو نہیں جانتے !؟‘‘ پارس کے لیے یہ واقعی حیرت کی بات ہونی چاہیے تھی کہ لاڑکانہ کا نوجوان ادیب کامریڈ سوبھو کو نہیں جانتا !۔ شاید اسے اندازہ نہ تھا کہ میرے شعوری دن تب شروع ہوئے جب میں حیدر آباد اور کراچی میں تھا اور لاڑکانہ سے میرا واسطہ کم ہوچکا تھا۔ یہی سبب ہے کہ میری لاڑکانہ والی تمام سنگت کراچی میں ہی بنی۔ انور پیرزادو، کیہر شوکت، ہدایت منگی، کلیم لاشاری ، اشتیاق انصاری، انور ابڑو ، بلہڑ بجی کے احباب اور پورا تخلیق کار طبقہ۔
’’ وہ کس طرح خطرناک ہے ؟‘‘۔ میں نے پوچھا ۔
’’ ہمیشہ جیل میں یا نظر بند! جو بھی اس سے رابطہ میں آتا ہے ، اس کی جاسوسی شروع ہوجاتی ہے۔ میں نے سوبھو کو اپنی شادی کی دعوت دی تو سی آئی ڈی والے میرے پیچھے بھی پڑ گئے!‘‘۔ پارس نے بتایا ۔ میں نے محسوس کیا کہ پارس جتنا سوبھو سے متاثر تھا، اتنا ہی ڈرا ہوا بھی تھا ۔ وہ بعد میں سی ایس ایس کرکے محکمہ اطلاعات میں چلا گیا تو پھر اس کی محبت روحانی حد تک ہی رہ گئی ۔لیکن اس نے سوبھو کی بات کرکے مجھے عجیب کیفیت میں مبتلا کردیا ۔ کیا مجھے سوبھو سے ملنا چاہیے؟۔ لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ سی آئی ڈی والے میرے پیچھے پڑ جائیں۔ کامریڈ سے میری ملاقات پھر بھی کافی عرصہ تک ہو نہ سکی۔ یہ بھٹو کی حکمرانی کے دن تھے اور کامریڈ اپنے گاؤں میں نظر بند تھا، البتہ اس کے بیٹے کنہیا سے میری ملاقاتیں سندھی ادبی سنگت کراچی کے اجلاسوں میں ہوتی تھیں، وہ ان دنوں انور پیرزادو اور نبی بخش کھوسو کے دوست تھے۔
کامریڈ سے میری پہلی ملاقات کیسے اور کہاں ہوئی؟۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ لاڑکانہ میں کامریڈ کے گھر میں ہوئی تھی۔ مجھے انور پیرزادو وہاں لے کر گئے ۔ ایک بڑا ہال، جس میں ہر دو اطراف دیوار گیر الماریوں میں ترتیب سے رکھی ہوئی کتابیں، ہر کتاب مجلد اور شاید ان پر کتاب کے نام کی پرچی بھی چسپاں تھی۔ کامریڈ نے خوب باتیں کیں۔۔۔۔۔۔ شانتی نکیتن کی، علم کی، کتابوں کی، اپنے بیٹے کنعیا کی ، اور بھی بہت ساری باتیں ۔ لیکن ان تمام تر باتوں میں کوئی بھی بات، خطرناک ، یا ایسی نہ تھی کہ جسے ریاست کی زبان میں تخریبی یا بغاوتی کہا جائے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ کامریڈ سوبھو کو دیکھا تھا تب وہ ساٹھ پینسٹھ برس کا تھا۔
ان دنوں میں خود بھی تازہ تازہ جیل کا ذائقہ چکھ کر باہر نکلا تھا ۔ کامریڈ کی صحت اس وقت بھی اچھی تھی اور وہ لاڑکانہ میں وکالت کیا کرتا تھا۔ اکہر ااور لمبا بدن، مضبوطی کاٹھی، گھنے اور جڑواں ابرو اور انگلش سٹائل کے گھنگھریالے بال۔ اس نے سفید شلوار قمیص پہن رکھے تھے ( وہ شاید اکثر اسی لباس میں رہتا تھا یا پھر میں نے اسے ہمیشہ سفید پتلون اور سیاہ کوٹ میں دیکھا)۔
میں اپنی جیل ڈائری کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ، مجھے اس میں کامریڈ سوبھو کے متعلق کچھ تحریر نظر آئی۔ یہاں وہ سب جس طرح ہے، اسی طرح دہراتا ہوں۔ یہ جیل کے ایک سپاہی کی یادداشتیں ہیں، جنہیں میں نے کرید نے کی کوشش کی تھی۔میری ڈائر ی میں تحریر ہے:
-1 اپریل1984
چاچا یوسف ( حوالدار) جیل کا بہت شریف لیکن سخت گیر حوالدار کے طور پر مشہور ہے ۔ چرسیوں اور ہیروئینوں کا سخت دشمن۔اسے کوئی بھی کام کہا جائے تو کر آئے گا، شرط یہ ہے کہ وہ انسانی اقدار کے خلاف نہ ہو اور اس سے انتظامیہ کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہ ہو۔ اس کا نام رکھا گیا ہے ، کمپیوٹر، کیا مجال ہے کہ کوئی قیدی چرس کا ایک ٹوٹا یا ہیرون کی ایک پریا ماڑی ( ملاقاتی کمرہ) سے پار کر جائے ، جب چا چا یوسف ہوالدار وہاں ڈیوٹی پر موجود ہوں! چاہے موالی اُس پڑیا کو چمڑی کے اندر چھپالے، گلے میں ڈال دے کہ بالوں میں گم کردے یا پھر جسم کے دیگر حصوں میں۔ پتہ نہیں چاچا یوسف کو ان چھوٹے سمگلروں کا پتہ کیسے چل جاتا ہے ! اس کی یادداشت بھی کمال کی ہے جس دن پروفیسر جمال نقوی اس جیل میں ٹرانسفر ہوکر آئے ، تب اسے دیکھ کر چاچا یوسف نے فوراً کہا، ’’آپ پھر آگئے؟‘‘ پروفیسر اس سے پہلے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں1953میں گرفتار ہوا تھا اور دوسری مرتبہ1972-73 میں اور اب کی بار یوسف کی نوکری کا تقریباً تمام عرصہ ( تیس بتیس برس )کراچی سینٹرل جیل میں گزرا ہے ۔ آج میں نے چاچا یوسف سے انٹرویو لیا۔
میں نے پوچھا کہ آپ نے اس عرصہ کے دوران سینکڑوں لیڈر دیکھے ہوں گے، ان میں سے کوئی ایسا دیکھا جس میں واقعتا لیڈر کی خصوصیات اور خلوص ہو؟ چاچا یوسف نے ایک طویل خاموشی اختیار کرلی۔ اس نے سوچ سوچ کر جواب دیا۔ ’’ ہاں! ویسے تو میں نے بہت سارے دیکھے، لیکن ایک ہندو یاد آتا ہے !1057-58 کا زمانہ تھا۔۔۔۔۔۔ شاید ایوب خان کے مارشل لا کا زمانہ تھا۔۔۔۔۔۔ اُس ( ہندو) کی پارٹی بہت بڑی پارٹی تھی۔ وہ بڑا ہی شریف اور باہمت تھا ۔۔۔۔۔۔ اُس نے ہمیں کبھی تنگ نہیں کیا تھا۔ اس پر کڑی نگرانی تھی۔ اس کے ساتھ ایک ہندوستانی حیدر آبادی نوجوان بھی گرفتار ہوا تھا۔ جو بعد میں لاہور کے قلعہ میں مر گیا، اس کی نعش بھی ورثا کو نہیں دی گئی۔۔۔۔۔۔ عزیز و اقارب نے اسے بہت سمجھا یا ،منت سما جت کی کہ سیا ست چھو ڑ دو۔۔۔لیکن وہ اپنے اصو لو ں سے تِل بھر بھی اِ دھر اُدھر نہ ہو ا۔‘‘
میں نے اس سے ان دو نوں کے نام پو چھے ، ’’اس نے کہا مجھے اچھی طر ح تو یا د نہیں ۔۔۔بڑ ا عر صہ ہو گیاہے ۔۔۔ہند و کا نا م سو بھو تھا اور حید ر آبادی کا ناصر ! نا صر تو تھو ڑ ے دنو ں کے لیے یہاں رہا ، پھر اسے لا ہو ر لے گئے، سو بھو کو یہاں ستر ہ نمبر وارڈ میں رکھا تھا ۔ ( نو ٹ:۔ میں بھی اسی واڑڈ میں تھا )
کامر یڈ سو بھو جب بھی بو لتا ، اس کی گو نجتی آواز میں ہر چیز سا کت ہوجا تی ۔ تما م تر حاضر ین اسے خامو شی کے سا تھ سُننے لگتے ۔ کسی کو بھی ہمت نہ ہو تی کہ اس گر جدار گو نج میں اپنی آواز شامل کر ے یا کا مر یڈ کو درمیا ن میں روک سکے۔
سال 1986-87 کے دنو ں میں کا مر یڈ بلا پتلا لیکن مضبو ط لہجہ والا ایک دانشو ر دکھا ئی دیتا تھا۔ وہ کو ئی بھی ’’لا ئن ‘‘ نہیں دے رہا تھا۔ بس ما ضی کے واقعا ت سنا تا یا پھر حالا ت حاضر ہ پر کو ئی رائے دیتا۔ یہ کچھ ایسا ہی منظر تھا، جیسے قدیم یو نا ن کا کو ئی استا د سند ھی لبا س میں تاریخ کے نو ا جو ن طلبا کو کلا س روم میں (کتا بو ں کی بنیا د پر نہیں) تجر بہ اور علم کی بنیا د پر لیکچر دے رہا ہو اور نو جوان با ادب بیٹھے سب کچھ غور سے سُن رہے ہو ں ۔تاریخ بولتی جا رہی تھی اور ہم سنتے جا رہے تھے ۔
کامر یڈ خو د ہی کسی نو جو ان سے سوال کر تا پھر جو اب سننے سے پہلے ہی جو اب دینا شر وع کر دیتا ۔ شاید رابند ر نا تھ ٹیگو ر بھی اسی طر ح کر تے تھے ، شاید سقر اط اور افلا طو ن بھی اسی طر ح سو ال کھڑا کر کے جو اب دیتے تھے ۔ میں نے کا مر یڈ کی جو انی کی کچھ تصا و یر دیکھی ہیں ۔ وہ خو بصو ر ت ، مضبو ط جو ان تھا۔ وہ خو د ہی کہتا ہے ۔ ’’میں بڑا لڑ ا کو تھا‘‘! میں سمجھتا ہو ں کہ ’’لڑ اکو ، سے اس کی مر اد جھگڑ ا لو نہیں بلکہ زوردار جسمانی اور زبانی مز احمت کر نے والا کی تھی ۔ مجھے کا مر یڈ کی کسی بھی با ت میں زبا نی یا جسما نی جا ر حیت کی بوُ نہیں کبھی نہیں لگی۔ کا مر یڈ کہتا تھا کہ ’’اس نے کبھی سگر یٹ نہیں پی ، شر اب نہیں پی، جھو ٹ نہیں بولا اور غیر عورت کے پا س نہیں گیا۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی غلط فہمی ہو ئی ہو ، لیکن میں نے کبھی بھی شک کی بنیا د پر کسی پر الز ام نہیں لگا یا ! اس لیے میں نے زند گی میں جو کچھ کہا، سچ کہا ہے ۔‘‘
پھر کا مر یڈ سو بھو کے ساتھ میر ی کا فی ملا قا تیں ہو ئیں ۔ جب بھی لا ڑ کا نہ جا تا ہو ں اس کے ضر ور حاضر ہو تا ہو ں ۔ وہ ہر مر تبہ کوئی نہ کو ئی نئی با ت ضر ور کہتا ہے ، کچھ پر انی بھی دہر اتا ہے۔ وہ لفظ بہ لفظ ویسے کی ویسی ہو تی ہیں ۔ جس طر ح پہلے سُنا چکا ہو تا ہے۔ تین چا ر بر س قبل (9دسمبر2008) لا ڑکا نہ جا نا ہو ا تو اس نے کہا ، ’’تمہارا با پ جو انی میں بہت خوُ بر و جو ان تھا ، کئی لڑ کیا ں بڑ ے چا ؤ سے اسے دیکھا کر تی تھیں ۔ اس کا اولین دفتر یہیں ہو تا تھا ۔ اٹھو ،تمہیں چل کر دکھا تاہو ں ، اس جگہ میں اب سید خاند ان رہا ئش پذ یر ہے ۔ ‘‘ اپنے گھر سے نکل آیا اور ایک گلی چھوڑ کر دوسری گلی میں ایک جگہ کھڑا ہو گیا ،’’ یہ جگہ تھی !‘‘ میں نے دیکھا ، وہ جگہ سرُ خ اینٹو ں سے بنی دو منزلہ عما رت تھی ، جس کا ذکر با با سا ئیں نے اپنی آپ بیتی میں کیا تھا۔ وہ جگہ جس کے قر یب والی جگہ میں ایک مہا جر سید خاند ان نے ڈیر ہ ڈالا تھا۔ اس آفس کے اوپر ی منز ل پر مہما ن بن کر رہنے والا ایک ہند و وکیل ایک پڑ وسی لڑ کی کے ساتھ زیاد تی کر گیا تھا۔ ’’ اوہ ! تو یہ واقعہ اس جگہ ہو ا تھا! ‘‘
میں نے ذاتی ریکا رڈ کے لیے اس عما رت کی تصا و یر لے لیں ۔
حال ہی میں دسمبر 1913 میں اُس نے کہا’’تمہا ر ا با پ بڑا شر یف آدمی تھا ،اس کسی لڑ کی کی طر ف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔ اس کا والد علی خان ابڑ و بڑا ہی ملنسار آدمی تھا۔۔۔اس نے مجھے بھی پڑ ھا یا تھا۔ ایک مر تبہ انہوں نے بطور سز ا مجھے مر غا بھی بنا یا تھا۔۔۔۔ میں نے کیاکیا تھا؟ وہ تو یا د نہیں آ رہا ۔۔۔پڑ ھا ئی کے معا ملہ میں تو سز ا ملی نہیں ہو گی ، کیونکہ میں پڑ ھا ئی کے معا ملہ میں بہت ہو شیا ر ہو ا کر تا تھا ۔۔ تمام اسبا ق وغیر ہ یا د ہو تے تھے ۔ہو سکتا ہے کہ میں نے کسی لڑ کے سے لڑ ائی کی ہو ، اس پر سزا ملی ہو گی یا پھر ا یسی کو ئی حر کت کی ہو گی میں نے ! ‘‘ جس وقت میں کامر یڈ کی سب باتیں اس کی اجا ز ت کے ساتھ وائس ریکا ڈر میں محفو ظ کر تا جا رہا تھا۔اس وقت محمد علی پٹھا ن میرے ساتھ تھا۔
محمد علی پٹھا ن نے اپنے آپ کو سو بھو کی با تیں ریکا رڈ کر نے اور اس کی یا د داشتیں کھنگا لنے پر لگا دیا ہے۔ اس کے اسی شو ق کے نتیجہ میں اب تک ریکا ڈر کی پا نچ چھ کتابیں شایع ہو چکی ہیں ۔ یہ تمام تر محنت محمد علی کی ہے ۔ میں اسے کہا کر تا ہوں کہ عام لو گوں کا ایک مر شد ہو تا ہے ، تمہارے تین ہیں : بھٹا ئی ، سوبھواور انو ر پیر زادو ۔ وہ سوبھو کو ’’تاریخ کی عظیم کتاب ‘‘ کا لقب دیتا ہے اور اس کے ہر لفظ پر مقد س کتاب کی طر ح یقین کر تا ہے ۔ سوبھو واقعتاً کھرا اور راست گو آدمی ہے، البتہ کو ئی غلط فہمی کسی کو بھی ہو سکتی ہے ۔ اس نے غلط فہمی کی بنیا د پر کوئی رائے قا ئم کی ہو تو ہو جا نچ پڑ تا ل کے بعد دور کی جا سکتی ہے۔
سو بھو کا مطا لعہ بہت و سیع ہے، شاید ہی کچھ اُس نے چھو ڑا ہو! اس کے مطا لعاتی مو ضو عا ت میں تاریخ ،سیا ست اور ادب رہے ہیں ۔ ’’میں نے کون سے مو ضو ع پر زیا دہ مطا لعہ کیا ہے ؟ مجھے پتہ نہیں ہے! ’’سوبھو نے اعتر اف کیا ، ’’لیکن سیا ست اور ادب پر زیا دہ مطالعہ کیا ہے‘‘
’’ آپ ٹیگور سے متاثر تھے ؟ محمد علی پٹھا ن نے کر یدتے ہو ئے پو چھا :
’’نہیں، وہ میرے گرو نہیں تھے ، میں نے اس کے لیکچر ز ضر ور سنُے ،کتابیں پڑھیں۔۔۔لیکن وہ میرے گر و نہیں ہیں !‘‘ سوبھو نے کہا :
’’تو پھر آپ کسی سے متا ثر نہیں ؟ ۔
’’میں نے جو کچھ بھی پڑھا اور سمجھا ،اس پر عمل کیا ہے ۔ میر ا گُر و کوئی بھی نہیں ہے!‘‘ سوبھو نے بڑے مضبو ط لہجے میں جو اب دیا ،’’گُر و اسے کہتے ہیں ، جیسے قد یم ایا م میں (راما ئنٹر اور مہا بھارت میں بیان کر دہ رشی برہمنٹر آشرمو ں میں ہر علم کی تر بیت دیا کر تے تھے ) گُر و و دیا کر تے تھے ! ‘‘ کا مر یڈ نے اپنی با ت آگے بڑھا ئی میں نے کا مر یڈ سے کچھ اور سو الا ت کیے۔
’’آپ کی اپنی زبا نی ہے کہ آپ نے رابند ر نا تھ ٹیگو ر کے لیکچر ز سنے ، کتابیں پڑ ھیں ،فلسفہ پڑھا ، آپ نے اس کے ساتھ احتر ام و محبت کا تعلق رکھا ۔۔۔ آپ کو اس کے خیالا ت اچھے لگے۔۔۔گُر و اور کس کو کہتے ہیں؟ ہم تو بھٹا ئی صاحب کو ، ڈاکٹر بلو چ کو ، آپ کو ،محمد ابر اہیم جو یو صا حب کو بھی اپنا گُر و ما نتے اور کہتے ہیں ۔۔۔حالانکہ ان میں سے کسی نے بھی ہمیں کسی سکو ل یا مد ر سہ میں نہیں پڑ ھایا ۔ آدمی جس سے سیکھتا ہے ، وہی استا د ، گُر و یا مر شد ہے ۔۔آپ اُسے جو بھی نام دیں !‘‘
میں نے کا مر یڈ کو مز ید کر ید نے کی غر ض سے کہا۔کامریڈ خا مو ش ہو گیا ، اس کے پا س جو اب نہیں تھا یا پھر سن رسید ہ ہو نے کے با عث تھک چکا تھا۔
کا مر یڈ سو بھو شانتی نکیتن میں 1939 تا1940 دو بر س طالبعلم رہے۔ اس وقت ٹیگور کی عمر اسیّ بر س کے لگ بھگ تھی اور کا مر یڈ اینس بیس برس کے نو جو ان۔
’’کامر یڈ ! آپ نے کبھی عشق کیا؟‘‘ محمد علی پٹھا ن نے کا مریڈ سے اچا نک سوالا کر ڈالا ۔
’’نہیں ۔۔۔لیکن لا ڑکا نہ ہا ئی سکو ل میں میر ے ساتھ ایک لڑ کی پڑ ھتی تھی ، سُند ر ی کشن چند شو داسانٹریں ۔بڑی ذہین و فطین اور خو بصو رت تھی۔ مجھے اچھی لگتی تھی۔۔۔وہ پھر شانتی نکیتن تعلیم حاصل کر نے کے لیے چلی گئی ۔‘‘ کامر یڈ نے با ت کو گو ل مو ل کر دیا۔
’’اچھا تو آپ اُس کے سبب شا نتی نکیتن پڑ ھنے گئے ؟‘‘ محمد علی ہا ر ماننے والو ں میں سے نہیں ، وہ کا مریڈ کے تعا قب میں لگا رہا ۔
’’سُند ری نے مجھے بتا یا کہ وہاں کا تعلیمی معیا ربہت اچھا ہے۔ تو میں بھی وہا ں چلا گیا۔‘‘ کا مر یڈ نے وضا حت کی ۔
’’جب آ پ گا ؤں لو ٹ آئے تو وہ لڑ کی بھی آ پ کے گاؤں آئی تھی؟‘‘ محمد علی نے کھو جی کی طرح کامر یڈ کے نقش پا کا تعاقب کیا اور کامر یڈ کے گھر تک پہنچ گیا۔ اسے کچھ باتوں کا پتہ پہلے سے بھی تھا،شاید کامر یڈ نے اس کے چہر ے پر نظر یں مر تکز کر دیں ۔ جھو ٹ نہ بو لنے والے سو بھو کو کہنا پڑ ا ’’ہاں،وہ اپنی والدہ کے ساتھ میر ے گھر آئی تھی ۔ اس کی ما ں بھی ایک ذہین عور ت تھی ۔ اس نے میر ی بھابھی سے بالواسطہ سوال کیا کہ ’’سوبھو کی سگا ئی کہیں کر دی ہے کہ نہیں ؟ ۔بھابھی با ت کی تہہ تک پہنچ گئی کہ وہ کچھ اور کہہ رہی ہے۔ لہذا اُس نے کہا کہ منگنی ہو چکی ہے ، اس کی منگیتر بیٹھی ہو ئی ہے۔ بعد ازاں وہ چلی گئیں ۔ ‘‘ کامر یڈ نے بغیر کو ئی جذ باتی پن دکھاتے ہو ئے پو ری با ت سُنا دی ۔۔لیکن با ت صا ف ہو گئی کہ سُند ری کا دل کا مر یڈ سے اٹکا ہو اتھا اور وہ کوئی اُمید لے کر ماں کے ساتھ آئی تھی ۔
’’بعد میں کبھی وہ لڑ کی آپ سے ملی؟ ‘‘محمد علی نے پھر سوال داغ دیا ۔ وہ اس ادھوری کہا نی کے انت تک پہنچنا چاہتا تھا۔
’’ ہاں ،وہ ہند و ستا ن سے لو ٹ کر آئی ہی نہیں ۔ ایک مر تبہ ملی ۔وہ نحیف ہو چکی تھی ۔میں نے اس سے پو چھا تھا، ’’یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟‘ تو اس نے جو اب دیا ، ’’تم نے اپنا حال دیکھا ہے!
بات کے اس مو ڑ تک آتے کا مر یڈ کچھ دل گر فتہ ہو گیا تھا، پھر سننے میں آیا کہ اُ س نے کسی کا ر پو ریشن کے افسر سے شا دی کر لی !‘‘
’’اب وہ کہا ں ہے ؟‘‘ محمد علی نے اب بھی تعاقب جا ری رکھا۔
’’پتہ نہیں ہے۔۔۔ لیکن میری خو اہش ہے کہ اسے ایک مر تبہ دیکھ لو ں کہ کس حال میں ہے اور کہا ں ہے ؟‘‘
کامر یڈ کے ساتھ مذ کو ر ہ کچہری دسمبر 2013میں ہو ئی ، جس میں یہ راز بھی عیا ں ہو ا کہ کامر یڈ نے پو ری زند گی جو بات ایک راز کی طر ح جگ والو ں سے چھپا کر ،دل میں سانبھ سانبھ کر رکھی ، وہ سُند ری شو داسا نٹر یں تھی جو آج تک اس کے دل میں ایک پھول کی طر ح کھلی ہو ئی ہے ۔
یہ اس آدمی کے دل کے نفیس ترین گو شے ہیں ، جسے قیا م پا کستان سے قبل انگر یز وں اور قیام پاکستان کے بعد اس ملک کے حکمر انوں نے غد ارِ وطن اور خطر ناک آدمی قر ار دے کر کئی مر تبہ اور کئی بر سوں تک قید و بند میں رکھا اور ٹا رچر سیل کی صعو بتیں اٹھا نے پر مجبو ر کیا ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے