اکثر آپ نے یہ قصہ سنا ہوگا کہ ایک بکری کوذبح کرنے لے جارہے ہوتے ہیں۔تو بکری خود کو چھڑانے کی کوشش کررہی ہوتی ہے۔اور زور زور سے میں میں کرتی ہے تو ساتھ کھڑے بچے کہتے ہیں کہ ایسا لگ رہاہے جیسے اسے سکول لے جارہے ہیں ۔مطلب یہ کہ بچے کیلئے سکول میں جانا موت سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ موت تو صرف ایک بار آتی ہے لیکن سکول روزانہ جانا پڑتا ہے۔ کیا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ بچوں کو سکول جانا کیوں اتنا گراں لگتا ہے۔؟اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہم کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ آخر کیا وجہ ہے؟ہم گھر سے بچوں کو مار کر دھمکا کر سکول بھیج دیتے ہیں۔ْوہاں استاد بھی جب جلاد کی شکل میں بچوں سے پیش آتے ہیں تو بچہ سہم کررہ جاتا ہے۔بچے کی سمجھ میں نہیںآتا کہ وہ کیا کرے۔ اس طرح کہیں بچہ برداشت کرتا ہے یا اپنے سے چھوٹے بچوں کو مارکر اپنا غصہ نکال دیتا ہے۔کیونکہ انہیں اذیت مل رہی ہے۔وہ دوسروں کو ازیت دے کر تسکین محسوس کرتے ہیں۔۔(فرانز فینن اپنی کتاب افتادگان خاک میں اس طرح کے تشدد اور اس کے ردعمل کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ نوآبادیاتی نظام کے ظلم و تشدد کا شکار شخص آخر میں اپنا غصہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف نکالتا ہے۔جب نوآدیاتی فوج اسے بے عزت کرتے ہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو وہ کچھ نہیں کرتا بس برداشت کرتا رہتا ہے۔لیکن اپنے لوگوں کی ایک چھوٹی سی بات پر ایک دوسرے کو مارنے پر جلدی تیار ہوجاتے ہیں۔ایک دوسرے کو مارنے پر تسکین محسوس کرتے ہیں۔) ہمارے بچوں کی مثال بھی نوآبادیاتی نظام کے شکار شخص کی طرح ہوتے ہیں۔تشدد اور ڈر کی وجہ سے بہت سے بچے تو سکول چھوڑتے ہیں۔ میں نے ایسے سکول بھی دیکھے ہیں جہاں اگر بچے دیر سے سکول آتے ہیں تو اس سے پیسے لیے جاتے ہیں کہ تم جب بھی دیر سے آؤ گے تو دس روپے جو پاکٹ منی کیلئے لاتے ہو وہ استاد لے جاتے ہیں۔اور بچہ سارا دن سکول میں بھوکا رہ کر گزارتا ہے۔اور جب پیٹ خالی ہوجاتاہے تو جو سکول میں پڑھایا جاتا ہے۔وہ بچے کے سر کے اوپر سے گزر رہا ہوتا ہے ۔کیونکہ بچے کا دہان تو پیٹ سے اٹھنے والے آواز کی طرف ہوتا ہے۔جب پیٹ خالی ہوتا ہے تو دماغ کچھ بھی کام نہیں کرتا۔
ہم اتنے خود غرض بن چکے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی غلط دکھائی نہیں دیتا۔آج کل سکول تو بہت زیادہ بن رہے ہیں۔لیکن اگر دیکھا جائے تو ان میں تعلیم کم دی جاتی ہے۔لیکن ان سکولوں سے جو کاروبار کیا جاتا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ نہ والدین کو اس کی فکر کہ بچوں کی تربیت کیسے جائے۔اور نہ اساتذہ کو۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم جو کرنا چاہتے ہیں وہ ہم حالات کے یا کسی اور مجبوری کے تحت نہیں کرسکتے۔جیسا کہ کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔لیکن قابل ہونے کے باوجود اس کی جگہ کسی نا اہل نے لے لی۔ْوہ مایوس ہوکر دوسرا راستہ چنتا ہے۔جیسا کہ استاد کا۔حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ استاد کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ وہ کیسے بچوں کو پڑھا سکے گا۔بس صبح آتا اور دوپہر کو گھر جاتا ہے۔اور بچوں نے کچھ سیکھا یا نہیں سیکھا اس کی کوئی فکر نہیں ۔بس اسے تنخواہ مل سکے تاکہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ اور ویسے بھی والدین نے کونسا بچوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔کہ وہ سکول میں کیا پڑھتے ہیں۔بچے بس سکول جائیں یہی کافی ہے۔ اگر کوئی خود نابینا ہے تو وہ اوروں کو کیسے دریا پار کراسکے گا؟۔
کئی جگہ ایسے نا اہل اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں جن کا تعلق حکمران جماعت سے ہوتا ہے۔اور وہ اپنے فرض نبھانے میں غفلت برت رہے ہیں۔ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اگر ان کو معطل کیا جاتا ہے تو پھر اوپر سے ان کی شفارس کی جاتی ہے کہ خبردار یہ تو ہمارے سیاسی جماعت کا بندہ ہے۔اور دس سالوں سے ہمارا ووٹر اور ورکر ہے ۔یہ جو کرتا ہے کرے کیونکہ ابھی تو اس کی سیاسی جماعت اقتدار میں ہے۔یہ ہے اساتذہ اور ہماری تعلیم کی صورتحال ۔ اب ایسے معاشرے میں بچوں کی کیا خاک ذہنی نشوونما ہوگی؟ اگر یہی صورتحال برقرار رہا تو بچے سکول جانے سے بدتر ہوجائیں گے۔ان میں نااہلی ۔کمزوری مایوسی اور کرپشن کا بھوت سوار ہوگا۔ایسے معاشروں کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد کو ہر وقت چاک و چوبند اور اپنے خیالات اور جزبات سے آگاہ رہنا ہوگا۔اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کن کن بندشوں میں گرفتار ہے۔اس کے مسائل کیا ہیں۔اور وہ کن طریقوں سے متاثر ہوتا ہے۔کیونکہ باخبر اور باہوش رہنے ہی سے عقل و فہم حاصل ہوتا ہے۔دانش کا تعلق صرف امتحان پاس کرنا نہیں ہوتا اسے بھی یہ جان لینا چاہیے کہ دنیا میں جگہ جگہ تعلیم کے متعلق کیا تجربات کیے جارہے ہیں۔ اگر زیادہ توجہ تعلیم پر صرف کریں گے بہ نسبتاََ پیسے کمانے کے تو یقین مانیں ایک نئی دنیا وجود میں آئے گا۔ہم میں بھی عقل و دانش کی کمی نہیں لیکن ہم لکیر کے فقیر ہیں۔کبھی خود سے کچھ نہیں کریں گے اور یہ نہیں سوچیں گے کہ کیسے اپنے تعلیمی معیار کو بہتر بنائیں۔اگر والدین اور اساتذہ ہر کوئی اپنا فریضہ بخوبی انجام دیں تو ہم بہت ترقی کر سکتے ہیں۔ جو کچھ چاہتے ہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ بس ہمارے اساتذہ کے اندر انسانیت ہونی چاہیے ۔سب بچوں کو اپنا بچہ سمجھ کر اسے اچھی طرح سے پڑھا ئیں تو ہم جلد عظیم اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے