دھواں اٹھنے لگا ہے گنبدوں سے
جلائی جارہی ہیں پاک روحیں
مساجد کے درودیوار پر چھینٹے لہو کے
فضا ماتم کناں ہے
ہوا شوریدہ سر ہے
موذن خاک کی چادر لپیٹے سورہے ہیں
خدا ناراض تو کل تک نہیں تھا
مگر اب رابطے سب منقطع ہیں
نہ جانے کون سی سازش ہوئی ہے آسماں پر
جو آدم بٹ رہے ہیں
ہمارے اپنے تن سے اپنے ہی سرکٹ رہے ہیں
کہانی ایک ہی لکھی گئی تھی
فقط کردار بدلے جارہے ہیں
اچانک کیا ہوا ہے
ملایا جارہا ہے خیر وشر کو
مٹایا جارہا ہے بحر و بر کو
زمانے کے قدم تھکنے لگے ہیں
خدا اگلی کہانی لکھ رہا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے