امن کی دیوی!
تیری مشعل کی لو اونچی رہے
تیری آواز پر جمی کائی
تہہ بہ تہ دبیز ہو
تیری آنکھوں میں دہکتی
آگ جلتی رہے
لپکتی رہے ان کی طرف
جن کے ہاتھوں میں
میزائل نہیں
بلکہ انکے بچوں کی لاشیں ہیں
یہ نہتے
امن نامی جانور کو چا رہ ہیں
ان کے کڑیل جوان
امن کی بھٹی کا
ایندھن ہیں
ان بستیوں سے اٹھتا دھواں
تیری آنکھوں کو سرمہ ہو
امن کی دیوی !
یہ لاشوں سے
پٹے ہوئے میدان
تجھے نذرانے ہیں
کہ ہماری خوش حال بستیوں نے
یہ فیصلہ بقلم خود لکھ کے
تیرے قدموں میں دھردیا ہے
ہماری دھندلائی آنکھیں
اس سر بہ مہر لفافے کے مضمون
سے خوب واقف ہیں
جو تیرے ہاتھ میں ہے
مگر ہماری خوش حال بستیوں کے حواسوں
پر سونے کا خول چڑھا ہوا ہے
انکی آنکھوں میں
خود غرضی کے جالے اتر آئے ہیں
اور انکے دلوں پر
غلامی کی مہر ہے
اپنے گھروں کے ملبے پہ تنہا
اور بدحواس
ان گنت فلسطینی بچے
امن اور انسانیت نامی
جھوٹ کی غذا بن گئے
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہو لہان فلسطین
کو تاکید ہے
وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کے ملبہ پر امن کی دیوی کے نام کا
پرچم لہرا کے
شکرانے ادا کریں
اے پتھر کے ہونٹوں پہ
پتھرائی ہوئی انسانیت
تیری آواز پر جمی کائی
تہہ بہ تہہ دبیز ہو رہی ہے
اور ہم لب بستہ
ہاتھ باندھے
تیری غلامی کے حلف نامے سینے سے لگائے
اپنی باری کے منتظر ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے