کوئٹہ کا موسم ابھی نومبر تک بہتر تھا کہ ایک دن موسم نے اچانک انگڑائی لی کہ آسمان بادلوں سے ڈھک گیا۔ آہستہ آہستہ بوندا باندی بھی شروع ہوگئی۔ دوپہر دو بجنے والے تھے لنچ کرکے ہم نے بھی کمبل اوڑھا اور لیٹ گئے۔ ابھی نیند کی کیفیت طاری ہونے والی تھی کہ موبائل بچ اٹھی ۔دیکھا تو مری صاحب کا نمبر موبائل سکرین پر بلنک کر رہا تھا ، ہیلو سلام ، وسلام کے بعد ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کراچی سے ہمارے مہمان سنگت رمضان بلوچ، عیسی بلوچ اور اصغر لعل آئے ہوئے ہیں ان سے دو بجے ملنے کا کہا ہوا ہے آپ لوگ لیب آ جائیں یہاں سے ساتھ چلیں گے دوستوں کو کھانا کھلائیں گے اور گفتگو بھی کریں گے۔ بائیک اسٹارٹ کی اور لیب کے لیے روانہ ہوا۔ ہلکی بوندا باندی میں ہلکی سی سردی محسوس ہو رہی تھی۔ جیل روڈ سے ہوتے ہوئے بینظیر پل کے پاس پہنچا میں ادھا بھیگ چکا تھا عالم یہ تھا کہ نہ پیچھے مڑ سکتا تھا اور نہ آگے کیونکہ بارش اب کافی تیز برس رہی تھی۔ توکل اور پل پر چڑھ گئے ، خدا کا قہر آگے راستہ مکمل بلاک ، اوپر سے بارش اوپر سے کڑاکے کی سردی۔ سردی سے دانتوں کے بجنے کی آواز پاس والے لوگ بھی سن رہے تھے۔ کسی طرح سے بائیک نکالا اورجناح روڈ کے پاس شیر محمد روڈ والی گلی کی طرف مڑے اور سیدھا بائیک پارکنگ میں ٹھہرا دی۔ اسی دوران نوجوان انیس بلوچ وٹس ایپ پر کال کر رہا تھا ، لیب ابھی پاس تھا چنانچہ بھیگا ہوا لیب میں داخل ہوا تو دیکھا مری صاحب اور انیس بلوچ پہلے سے انتظار میں ہیں۔ مری صاحب غصے میں دوست لوگ فون نہیں اٹھا تے نہ عابد ہ رحمان سے رابطہ ہو پا رہا ہے اور نہ جاوید اختر سے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ہم تنیوں گاڑی سے نکلیں گے دوستوں کو اٹھا ئیں گے اس دوران کسی نے رابطہ کیا تو ٹھیک نہیں تو بالاچ گورگیج کی بات پر عمل پیرا کہ تین لوگ بلوچ لشکر ہے ہم ہی کافی ہیں۔ گاڑی میں بیٹھے مری صاحب نے عیسی جان سے فون پر بات کرنے کو کہا کہ ان کو بولیں پریس کلب کے گیٹ تک آئیں ہم آ رہے ہیں ، ہم نے ایسا ہی کیا۔ کوئٹہ میں ٹریفک کا رش تو ویسے زیادہ ہے اور اگر بارش ہو تو راستوں سے گزرنا محال ہو جاتا ہے ہم جناح روڈ سے نکلے اور بلوچی اکیڈمی والی گلی پار کرکے پریس کلب کے سامنے رکے، سنگت عیسی بلوچ سمیت دوست پہلے سے ہمارے انتظار میں تھے چنانچہ ہم گاڑی میں سوار ہوئے۔ اسی دوران سنگت جاوید اختر سے بھی رابطہ بحال ہوا ان کو ہم نے سائنس کالج چوک آنے کو کہا کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ وہ ٹریفک میں پھنس جائیں گے۔ ہم جناح روڈ سے واپس ہوئے اور مین نیشنل بینک کے پاس ٹھہرے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ سنگت رمضان بلوچ آج سے تیس برس قبل کوئٹہ آئے اب چونکہ شال بہت بدل چکا تھا تو وہ ہر چیز کو حیرت سے دیکھ رہے تھے اور آہیں بھر رہے تھے کہ ضیا کے ضیالحق نے شال سمیت ملک کے ہر علاقے کی رونقیں تباہ کر دی ہیں ، پہلے کی ہوٹلیں ، کیفے ہر جگہ بس سیاست ادب پر بات ہوتی تھی اب یا تو وہ ہوٹل ختم ہو چکے ہیں یا پھر بحثیں اور مطالعہ دم توڑ چکے ہیں۔ تھوڑی دیر میں سنگت جاوید اختر آئے اور گاڑی میں سوار ہوئے ، ہم نے سوچا کہ ائیر پورٹ روڈ کی طرف جائیں گے تاکہ دوست شال کو بھی دیکھ سکیں۔ ٹریفک رش اور بارش اور ادبی باتیں سفر کیسے کٹا کچھ معلوم نہیں۔ مری صاحب نے گاڑی پارک کی اور ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ایک کونے میں جیسے بیٹھ گئے تو جاوید اختر نے دوستوں کو ایک ایک کتاب پیش کی۔ سب نے جاوید اختر سے کچھ لکھنے کو دیا۔ انہی کتابوں میں ایک میرے حصے میں بھی آئی۔ جس کا ابھی ذکر کرنے جا رہا ہوں۔
دیدہ وران بلوچستان کتاب میں سنگت جاوید اختر نے پانچ شخصیات پر لکھا ہے یہ سب سنگت جاوید اختر کے ساتھ رہے دوست ہیں جس میں ڈاکٹر خدائیداد ، پروفیسر نادر قمرانڑیں ، ماما عبداللہ جان جمالدینی ، گل بنگلزئی اور ڈاکٹر شاہ محمد مری شامل ہیں۔ کتاب بہت مختصر 100 صفحات پر مشتمل ہے جس کو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھا۔ مگر معلومات کے حوالے سے بہت ہی مفید کتا ب ہے۔ شروعات تھوڑا بورنگ لگا جس میں ڈاکٹر خدائیداد ، پروفیسر نادر قمبرانڑیں پر لکھی ہوئی تحریر مجھے کسی حد تک بورنگ لگی خاص کر روانی اور اور ادبی چاشنی کم محسوس ہوئی ۔اکیڈمک اور ہسٹاریکل باتیں ویسے بھی کونین کی گولی طرح کڑوی ہوتی ہیں تاہم آگے جب ماما عبداللہ جان کو پڑھا تو دل کر رہا تھا کہ کاش مزید طویل ہو۔ سنگت نے اپنے تجربات اور ماماعبداللہ جان کے ساتھ گزاری ہوئی اپنی یادیں بہت خوبصورت انداز میں پیش کی۔ اسی طرح گل بنگلزئی اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں جو صرف ان تک محدود تھیں کتاب کے ذریعے ہم تک پہنچ گئی۔
اس میں بہت سے مفید کتابوں ، اور ایونٹس کا ذکر ہے۔ یہ کتاب آپ کو ماضی کے دریچوں کی سیر کروا کر پھر حال میں لے آتی ہے۔ ڈاکٹر خدائیداد کا ذکر کرتے ہوئے سنگت جاوید اختر کہتے ہیں کہ ان سے ملاقات ٹریڈ یونیں رہنما عبداللہ جان اور محمد امین کے توسط سے ہوئی بعد میں ڈاکٹر شاہ محمد مری کی صحبت کی وجہ سے یہ رشتہ اور مضبوط ہو کر دوستی میں بدل گیا۔ لٹ خانہ تحریک میں بھی ڈاکٹر خدائے داد پیش پیش رہے اور بعد میں سنگت اکیڈمی کی نشستیں جمعہ پارٹی بعد میں سنڈے پارٹی کے بھی روح راواں رہے۔ سنگت جاوید اختر نے خوبصورتی سے ان کے ادبی، سیاسی تنظیمی زندگی پر روشنی ڈالی۔ ان کے پشتو ادب پر لکھے گئے کتابوں کا ذکر کیا ان کے ترجمے اور پشتو زبان کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔ وہ آخر میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر خدائیدا د ایک بڑے مارکسی دانش ور تھے ۔ وہ آج جسمانی طور پر تو بچھڑ چکے ہیں ۔
پروفیسر نادر قمبرانڑیں پر روشنی ڈالتے ہوئے سنگت جاوید اختر لکھتے ہیں کہ وہ ان ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں کہ جنہوں نے براہوئی ادب میں جدت ، ترقی پسندی ، مزاحمت پسندی اور قوم پرستی کی روایات سے روشناس کرایا۔ نادر قمبرانڑی سے ملاقات کا وسیلہ ڈاکٹر شاہ محمد مری بنے اور پھر ماما عبداللہ جان جمالدینی اور دوسرے احباب کی وجہ سے قربت میں اضافہ ہوا۔ کتاب میں نادر قمبرانڑیں کے براہوئی اشاعر کو تو لکھا گیا تاہم ان کا اردو ترجمہ شامل نہیں کیا گیا جس کی کمی محسوس ہوئی۔ تاہم کتاب نادر قمبرانڑیں پر پیش بہا معلومات فراہم کرتی ہے۔
ماما عبداللہ جان جمالدینی پر سنگت جاوید اختر ماما جان کے ساتھ گزارے ہوئے اپنے یادوں کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے سارا منظر ہمارے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہو۔ وہ لکھتے ہیں کہ ماما سے پیار کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے وہ بڑے سیاست دانوں کے ساتھ رہے جن میں غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، بابو شورش سمیت کئی دیگر اہم رہنما شامل ہیں۔ ان سب سے ماما جان کے ذاتی مراسم تھے۔ سنگت جاوید اختر بتا تے ہیں کہ وہ عبداللہ جان جمالدینی سے کتابیں لیتے ان کو پڑھتے اور پھر واپس کرتے یہ سلسلہ ان کے زندگی کے آخری ایاموں تک جاری رہا۔ جب عبداللہ جان کو فالج کا حملہ ہوا تو ان کی یاداشتیں کمزور ہوئی اور پھر وہ جاوید اختر کو پہچاننے میں بھی غلطی کر جاتے تھے۔ تاہم سنڈے پارٹی کو ہر ماہ وہ ایک ساتھ ہوتے گفتگو ہوتی۔ چنانچہ 19 ستمبر 2016 کو ہمارا یہ بزرگ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ ان کی عملی جدوجہد بلوچستان کی تاریخ میں ایک اہم باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
گل بنگلزئی بلاشبہ براہوئی ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ براہوئی ادب کے پہلے افسانہ نگار تھے۔ ان کے بارے میں جاوید لکھتے ہیں کہ گل بنگلزئی عبدالرحمان کرد، نادر قمبرائڑیں ، عبداللہ جان جمالدینی کی وجہ سے ادب میں داخل ہوا اور ان لوگوں کی ان کی ادبی معاملے میں ہر طرح سے رہنمائی کی۔ گل بنگلزئی نے ترقی پسند ادب کا مطالعہ کیا، جس کا جھلک ان کی ادبی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ ان کے اولین براﺅئی ناول دریہو کے نام سے مشہور ہوا۔ گل بنگزئی نے برہوئی زبان کی ترویج میں بڑا کردار ادا کیا۔ گل بنگلزئی کے بارے میں مزید معلومات پڑھنے کےلیے کتاب پڑھنا لازم ہے۔ 4 نومبر 2022 کو گل بنگلزئی وفات پا گئے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری پر انہوں نے اپنے جو خیالات کا اظہار کیا وہ بلاشبہ مری صاحب کی شخصیت پر کم ان کے علمی، سیاسی، ادبی سرگرمیوں پر زیادہ ہے۔ وہ ابتدائی دنوں میں مری صاحب سے ملے اور پھر یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور پھر دونوں ساتھ مل کر انسانیت کی خدمت میں جڑ گئے۔ وہ کامریڈ محمدامین کے توسط سے شاہ محمد مری سے ملے۔ بعد میں جب جاوید اختر لاہور میں ایم اے کرنے گئے تو مری صاحب بھی وہیں ایم فل کر رہے تھے کچھ عرصے ایک ساتھ رہے لیکن بعد میں جاوید اختر اپنے کسی دوست کے ہاں شفٹ ہوئے تاہم رات کا کھانا وہ ایک ساتھ کھاتے تھے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے ادبی کاموں کے حوالے سے وہ عشاق کے قافلے کا ذکر کرتے ہیں کہ اس سیریز کی تقریبا 32 جلدیں چھپ چکی ہیں ، بلوچ تاریخ پر بھی ڈاکٹر صاحب کا پیش بہا خدمات ہیں مہرگڑھ سے لے کر حالیہ بلوچ تاریخ تک ڈاکٹر صاحب نے سائنسی بنیادوں پر تحقیق کرکے لکھا۔ اس کے علاوہ بلوچی ادب پربھی ان کا بے شمار کام ہے۔ تراجم کے حوالے سے سپارٹکس سمیت شاہکار کتابوں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ سیاسی کردار پر بات کرتے ہوئے سنگت جاوید اختر لکھتے ہیں کہ شاہ محمد سیاست اور تنظٰم کاری کا شغف رکھتے ہیں اور ہم وقت لوگوں کو منظم کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ ضیاالحق کی آمریت میں بھی تنظٰم کاری کرتے رہے۔ اس کے علاوہ سنگت اکیڈمی پر جاوید اختر نے کوئی خاطر خواہ نہیں لکھا تاہم امید کی جا تی ہے کہ وہ اپنے نئے ایڈیشن میں سنگت اکیڈمی جو کہ ڈاکٹر صاحب کا بنیادی اثاثہ ہے پر ضرور تفیصل سے لکھیں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے