اس کا چہرہ زرد ہے ۔ وہ سڑک کے کنارے دھوپ میں ناامید اور مایوس بیٹھا ہے اور اس کی نگاہیں سب سے پہلے پاس سے گزرنے والے لوگوں کے پیروں پر پڑتی ہیں، یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا اُس کے جوتے پھٹے ہوئے ہیں کہ نہیں؟ تاکہ یہ اُسے سینے کے لئے مل جائیں۔ وہ زمین پر اکڑوں بیٹھا ہے اور اس کے دونوں گھٹنوں کے درمیان اس کی رمبی اور اس کا سندان رکھا ہوا ہے۔آج وہ اس بات پر خوش ہے کہ سردی کم ہے۔ وہ سورج کی طرف منہ اُٹھا کر لمبی سانس لیتا ہے۔
اسی لمحے ایک سفید پوش شخص گزرتا ہے جس نے ایک لمبی قمیص پہن رکھی ہے اور سر پر ایک سفید ٹوپی ہے جس پر کشیدہ کاری کی ہوئی ہے اور اس کے اوپر سفید پگڑی باندھ رکھی ہے۔ اس شخص کے پیچھے پیچھے کچھ اور سفید پوش بھی چل رہے ہیں ۔جس وقت وہ موچی کے قریب پہنچتے ہیں تو اگلا شخص رک جاتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔
” خان میرے لئے جو یہ کشیدہ والا جو تا لایا ہے اسے اس موچی کو دو تا کہ وہ اس پر ایک اچھا تلا لگادے“۔
ساتھی کہتے ہیں کہ ہاں یہ اچھا رہے گا ۔ وہ دوبارہ روانہ ہوگئے۔ جب مدرسہ پہنچے تو بہت سے لوگ اس سفید پوش شخص کی تعظیم کے لئے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک شخص نے خاکساری اور ادب سے کہا!
”مفتی صاحب! خوش آمدید۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آپ کے عدل و انصاف کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر رہے۔ آپ کے آنے سے ہماری آنکھیں روشن ہوئیں اور دل ٹھنڈا ہوگیا“۔
یہ صاحب گدّے پر بیٹھ گئے جس کا غلاف کالے رنگ کا تھا اور اس پرکشمیری دھاگوں سے رنگ برنگے پھول کڑھے تھے۔ وہ صاحب خاموش اور چپ چاپ بیٹھے رہے۔ سانس آہستہ آہستہ ناک سے لے رہے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آنکھیں شان ودبدبہ سے چمک رہی ہیں۔
آدھ گھنٹہ بعد وہ جوتے واپس لائے گئے جو موچی کو دئیے گئے تھے۔ انہیں ادب سے اس شخص کے سامنے رکھ دیا گیا۔ موچی نے میخیں لگا کر ایک مضبوط تلا لگادیا تھا۔ جس وقت جناب مفتی کی نظر جوتوں پر پڑی تو انہوں نے کہا”بدبخت “ خدا تمہیں خوار کرے۔ تم نے موچی کو کیوں نہ کہا کہ وہ زیادہ میخیں لگا تا۔ ہم نے ان جوتوں کے حصول کے لئے کتنی تگ و دو کی تھی،پھر بھی تم نے انہیں خوبصورت اور مضبوط نہ بنوایا۔ جا ئو اور موچی کو سپاہی کے ذریعے یہاں بلوالائو تاکہ میں خود اسے ہدایات دوں“۔
سپاہی نے اپنا ڈنڈا موچی کے کندھے پر چبھویا اور اسے کہا کہ وہ اس کے ساتھ ابھی چلے اور مفتی صاحب سے جوتوں کو خوبصورت طریقے سے بنانے کی ہدایات اچھی طرح سنے اور سمجھے۔
موچی نے سپاہی سے کہا: میرے پاس یہ سندان ، ہتھوڑا ،رمبی اور میخیں ہیں‘ میں کس طرح انہیں میدان میں چھوڑ کر تمہارے ساتھ چلوں۔ تم جس طرح کہو گے میں اسی طرح جوتے یہیں پر بنادوں گا اور تمہیں دے دوں گا “۔
لیکن سپاہی نے اس کی باتوں پر کان نہ دھرا اور دھکے دے دے کر ساتھ لے گیا۔ موچی نے قریب کے دکاندار کو آواز دے کر کہا کہ اس کے سامان کا خیال رکھے کیونکہ اس کو سپاہی لے جارہا ہے۔
موچی اس بات پر سخت برہم تھا کہ سپاہی اسے ڈنڈے سے مار مار کر مدرسہ تک لایا تھا ۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ ضرور اس سپاہی کے خلاف مفتی صاحب کے پاس شکایت کرے گا کہ سپاہی کیوں اسے ناحق اور ناجائز مار مار کر اور دھکے دے دے کر یہاں لایا ہے۔
لیکن جس وقت مفتی صاحب کی نظر موچی پر پڑی تو انہوں نے غصہ سے منہ بنایا۔ مفتی صاحب نے جب اپنی گالی گلوچ کا سلسلہ مکمل کرلیا تو سا تھ بیٹھے ہوئے ایک بڑی توند والے شخص نے موچی کو درشتی سے کہا۔
”تمہےںعلم نہیں کہ یہ جوتے کس کے ہیں؟ لوگ تو اپنے آپ کو علماءکے پیروں کی مٹی کے برابر گردانتے ہیں لیکن جاہل و بے شعور لوگ معاوضہ لینے کے باوجود علماءکا کام خوش دلی سے نہیں کرتے۔ یہ جو تمہارا زرد اور بے خون چہرہ ہے نا ، اسے خدا نے تمہارے اعمال کی سزا کے طور پر بنایا ہے۔ تم اسی قابل ہو کہ خدا نے تمہیں خوار اور بدبخت بنایا ہے“۔
موچی جھنجھلا گیا اور اس شخص سے بولا۔”دو افغانی (افغانستان کی کرنسی) سے اتنا ہی کام ہوسکتا ہے۔ جتنا کہ میں نے کیا ہے۔ ان پیسوں سے میں تمہارے لئے محل تو نہیں بناسکتا۔اگر تم لوگوں کو میرا یہ کام پسند نہیں ہے تو میں اپنا تلا اور میخیں نکال لیتا ہوں کسی اور موچی کو یہ چپل دے دو تاکہ وہ اس کو تمہاری مرضی کے مطابق بنادے۔ میں ایک غریب اور نادار شخص ہوں ۔ مجھے کیوں اتنا پیٹا اور بے عزت کیا گیا ہے؟“۔
مفتی ان باتوں کو سننے کے بعد نہایت خفگی سے بولا ۔
”اس بے حیا اور بے ادب کو نکال دو…….. باہر کردو…….. اسے میری نظروںسے دور کردو۔ میں اسے اس بے ادبی کی سزا دوں گا“۔
موچی بھاگتا ہوا اپنے سامان تک پہنچا اس کی خواہش تھی کہ جلد از جلد اپنا سامان اکٹھا کرے اور کسی اور طرف نکل جائے۔ لیکن اسی وقت دو تین سفید پگڑیوں والے مریدوں نے جنہیں مفتی نے بھیجا تھا اسے دبوچ لیا ۔ ایک مرید نے اسے وہ سب کچھ دوبارہ سنا دیا جو اسے پہلے ہی سنایا گیا تھا اور دوسرے مریدوں نے اسے نہایت گندی گالیاں دیں، اس کے سر پر جوتے مارے اور کہا۔
” یہ جوتے تمہیں بنانے ہوں گے“
موچی بھی بہت غصے میںتھا ۔ کیونکہ اسے مریدوں کے مزاج اور اصلیت کا پتہ نہ تھا اس نے مریدوں کو گالیوں کا جواب دیا۔ مریدوں نے اسے بڑی عدالت کی طرف کھینچا اور اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ راستے میں انہیں جو بھی ملتا وہ اسے کہتے:” موچی نے ہمیں گالی دے کر کفر بکا ہے۔ قاضی کی طرف اسے لے جارہے ہیں تاکہ وہ اسے سزا دے“۔
موچی کو پہلے مفتی کے پاس لے گئے۔ لوگوں سے بھری کہچری کے سامنے طالبوں نے درخواست کی” جناب! اس جاہل نے ہمیں گالی دے کر کفر کیا ہے“۔
مفتی اس وقت قاضی کے پاس چلا گیا او رموچی کو اس کے حضورپیش کیا۔سارے مریدوں نے یک زبان ہوکر کہا” ہاں جناب! اس نے ہمیں گالی دی اور کفر بکا ہے“۔ مفتی نے بھی مریدوں کی بات کی تائید میں سر ہلایا اور کہا۔
” اگر جناب نے اس موچی کو سخت سزا نہ دی تو یہ ہمیشہ علماءکا مذا ق اُڑاتا رہے گا“۔
قاضی نے اسی لمحے حکم دیا کہ ” موچی کو انتالیس کوڑے لگائے جائیں ۔ اس کا منہ کالا کیا جائے اور کالے گدھے پر سوار کرکے پورے بازار میں پھرایا جائے تاکہ لوگ اس بدکردار شخص کے انجام سے عبرت حاصل کریں اور آئندہ کوئی ان سفید پوش اور سفید پگڑیوں والے بزرگوں کی بے حرمتی کرنے کی جرا ¿ت نہ کرسکے“۔
قاضی کے حکم کو مفتی نے منظور کیا۔ اسے بوسہ دیا اور کہا” موچی کو 39کوڑے نہایت زور سے لگائے جائیں“۔
سخت کوڑے لگنے سے موچی بے ہوش ہوگیا اور اس قابل نہ رہا کہ اسے کالے گدھے پر سوار کیا جائے۔ چنانچہ موچی کو گدھے پر ڈال کر رسیوں سے سخت باندھا گیا تاکہ حکم کی تعمیل ہوجائے۔
یہ موچی بے چارا تین ماہ تک ان کوڑوں کی وجہ سے بیمار رہا اور اس کے بعد نہایت کربناک حالت میں مر گیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے