آ دم جان بزنجو اور عبدالکریم بزنجو نے ضلع آ واران بشمول ان علاقوں کے لوگوں کیلئے تحریک چلائی جن کی زمین اُن کے قبضہ میں ہونے کے باوجود وہ آ زادانہ طورپر کاشت نہیں کر سکتے تھے۔ سردار زمینوں پر فصل کے وقت آ کر سارا فصل اٹھاتے تھے۔ اور زمینوں کو اپنا تصور کرتے تھے۔ ان حالات میں شہید عبدالکریم کو خیال آ یا کہ ان کسانوں اور بے سہارا لوگوں کی خاطر ایک تحریک چلائی جائے ۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے بھتیجے شہید آ دم کو تیا رکروایا ۔ جو کہ ایک نڈر اور تعلیم یافتہ شخص تھا ۔ آ دم جان انتہائی بہادر اور خدا ترس انسان تھا۔ وہ عام لوگوں کے درد اور دکھ کو لے کر تحریک میں شامل ہوگیا۔ ابتدائی مراحل میں تحریک کو بہت کامیابیاں نہیں ہوئیں ۔ کیونکہ علاقے کے لوگ سرداروں سے ڈرتے تھے۔ ان کے خیال میں سردار انتہائی طاقتور ہیں ۔ اُن سے وہ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن تحریک کے راہبراس کے بر عکس خیال کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ جہاں رہتے ہیں اور جس قسم کی کھیتی باڑی کرتے ہیں وہ زمین ان کی اپنی ملکیت ہے۔ اس زمین پر انہیں ٹیکس(ششک) دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
برٹش جب بلوچستان آ ئے تو انہوں نے علاقوں میں قبضہ جمانے کی خاطر بلوچستان کو مختلف خطوں پر تقسیم کیا ۔ اور ان خطوں میں اپنے نائب مقرر کر دیے ۔ انگریزوں کے یہ نائب بعد میں ان علاقوں کے سردار کہلائے ۔ ان کا کام یہ تھا کہ یہ علاقے میں رہنے والے لوگوں سے ٹیکس لے کر حکومت کو دیں ۔ اس کے لیے انہوں نے لیویز بھی بنائی۔
جب انگریز یہاں سے چلے گئے تو نائب جو کہ انگریزوں کے مقرر کردہ تھے ۔ ان علاقوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں لائے۔ اور وہاں پر اراضی کو سرکاری قرار دینے کے بجائے اپنا تصور کیا۔ اس وقت کی حکومت انتظامی طور پر اتنی مضبوط نہیں تھی کہ ان علاقوں کو اپنے دائرہ کارمیں لائے ۔ چنانچہ سرداروں نے اس بات کو غنیمت جان کر زمینوں کو اپنے رشتہ داروں کے درمیان تقسیم کر دیا۔
ضلع آ واران کی زمینوں پر بزنجو اور میروانڑیں سردار نے اپنی ملکیت کا دعوٰی کیا۔ اور وہاں پر رہنے والے عام لوگوں سے اپنی مرضی کے مطابق کام کروائے۔ ان حالات کو دیکھ کر بہت سے لوگوں نے تحریک چلانے کی کوشش کی تاکہ ان مصیبت زدہ اور مظلوم طبقات کی مدد کی جا سکے ۔ سرداروں نے جہاں ان آ بادیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا وہیں انہوں نے ان علاقوں کو اندھیرے میں بھی رکھا۔ تعلیم کو عام کرنے نہیں دیا ۔ سکول تعمیر ہونے نہیں دیتے اور کہیں کوئی سکول تعمیر ہوتا بھی تو وہ اس کوا پنا بیٹھک یا اس میں اپنے مویشی باندھ کر باڑہ خانہ بنا دیتے ۔
ان ناگفتہ حالات میں عبدالکریم بزنجو نے آکر غریب لوگوں کے مصائب اور مسائل کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کا ذمہ لیا ۔ عبدالکریم بزنجو خود ان پڑھ تھا لیکن اس نے اپنے بھتیجے کو تمام خطرات کے باوجود اپنی تحریک میں شامل کیا ۔اس نے تحریک کو تما م غریب طبقے تک پھیلایا ۔ اس کے لیے انہیں قید بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ اُن کو تحریک سے ہٹانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ۔ اور اُن کو مختلف مراعات دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ لیکن اس نے ان تمام چیزوں کو اپنی تحریک کی راہ میں رکاوٹ سمجھا اور اپنی تحریک جاری رکھی۔ اُن کواس کے بھتیجے کے ساتھ سال 1983کو شہید کر دیا گیا ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے