اور۔۔ مجھے حفاظت کے نام پر،
بس نظر بھر محدودیت میں
قید کردیا گیا،
اور ڈر، بییقینی اور شک کی
تہہ در تہہ,
چادروں میں چھپایا گیا
دھیرے دھیرے آنکھیں
روشنی سے ڈرنے لگیں۔
اظہار کی خواہش بھی
برہنگی کی سعی سی
لگی۔۔ اور
مسلسل قید کی عادت نے
جینا آسان کردیا
بہت آسان۔۔
بس ذرا اک زندہ لاش کی طرح
رینگنا اور سانس لینا۔۔ بس
اور بس۔۔۔
تو پھر۔۔ خموشی سے،
لہو میں زندگی کی خواہش جیسی
یہ کھلبلی سی
کہاں سے سرک آئی ہے۔۔
خواہش کہ۔۔۔۔
جینا ہے۔۔ جی کر دیکھنا ہے
آہ۔۔
آزادی کی تمنا
میری جبلت میں
شامل ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے