میرا پی اے سلام میٹنگ کے دوران نہ تو فون ملاتا اور نہ ہی چٹ بھجواتا۔اس نے بزر دیا تو میں سمجھا کہ کوئی خاص بات رہی ہوگی دوسری جانب سے کوئٹہ کا سپرنٹینڈنٹ جمعہ خان لاشاری تھا۔کچھ پریشان سا لگ رہا تھا۔
،” محمد نثار پوسٹ ماسٹر انفنٹری سکول نے خودکشی کرلی ہے “
مجھے بالکل یقین نہ آیا۔اچھا بھلا تھا۔ایک پوسٹ ماسٹر شادی شدہ کامیاب آدمی۔میں نے جمعہ خان کو سمجھایا۔
” لوگوں کو افواہیں اڑانے کا شوق ہے۔خود جاو¿،تصدیق کر کے مجھے فون کرنا“
جمعہ خان ترنت بولا ” نثار رسی سے لٹکا ہوا ہے اسی کے ہی سامنے کھڑا ہوں “
میں نے فون پٹخا اور باہر کی جانب لپکا۔کچھ افسر بھی ساتھ ہی چل پڑے۔ان دنوں گیریڑن میں داخل ہونے کا ٹیکس نہیں ہوا کرتا تھا۔اب تو کوئٹہ وال قطاروں میں لگ کر ذلیل و خوار ہو کر کوئی بارہ کروڑ سالانہ کینٹ پاس کے نام پر بھرتے ہیں۔سیویلین پر ٹیکس لگانے کا اختیار بلوچستان اسمبلی کو ہے۔نہ کہ سٹیشن کمانڈر کو، مگر یہ معرفت کی باتیں ہیں۔
جب نفنٹری اسکول کی نئی عمارت بنی تو ہمارا ڈاک خانہ بھی باہر نکال دیا گیا۔چند ایک دکانیں بینک بنا تو ہمیں بھی فی سبیل اللہ عمارت کا ایک حصّہ عطا ہوا۔اب بات ہو رہی تھی کہ افتتاح کون کرے گا۔میں ڈاک کا جرنل تھا،ادھر فوجی جرنل۔
میں نے ریکارڈ دیکھا تو سب سے سینیئر جی پی او کا مسو خان میل اوور سیئر تھا۔اس نے پوسٹ کو متاع حیات بخشی تھی۔اسے بطور مہمان خصوصی بلایا۔اس کا تعلق بارتھی ٹرائیبل ایریا سے تھا۔اس نے وردی کے اوپر سرائیکی وسیب کی پگڑی پہنی ڈرائیور والی گاڑی دی۔سرکاری گاڑی میں وہ آیا۔ہم نے بڑھ کر استقبال کیا۔اس نے سرخ ربن کاٹا۔تالیاں بجیں اور ڈاک خانہ فعال ہو گیا۔انگریز نے 1839ء میں تو یہاں باقاعدہ ڈاک خانہ کھولنے کی کوشش نہ کی۔مگر 1876ءمیں افغانستان کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر کے کچلاک تک قابو کر لیا تو اسے برٹش بلوچستان کا نام دیا۔یہ ادائے دلنوازی تھی برٹش گھانا،برٹش کو لمبیا۔
پوسٹل سروس میں کوئٹہ ہیڈ آفس 1883ءمیں قائم کیا۔اصل شہر تو شہواڑیوں کا کراڑیں تھا جہاں ولی بابا کا سلسلہ یک پاسی سید روحانیت کی دنیا بسائے ہوئے تھے۔اس کے پہلو میں کوئٹہ چھاو¿نی آباد کر کے اپنی کالونی برٹش انڈیا کو تحفہ دیا۔گیریژن چلانے کے لیے بھارت بھر سے مستری، بڑھی، کاروباری،بوہرے،پارسی منگوائے۔کوئٹہ شہر دراصل چھاو¿نی کا سٹیلائٹ ہے۔جہاں اس کے ملازمین بستے ہیں۔آقا و بندہ کا احترام دو صدیوں سے اسی کروفر سے قائم ہے۔اب بھی 14 اگست کو درشن جھروکہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بابائے ڈاک خانان 601 ورک شاپ قائم کیا۔اس کے بعد سٹاف کالج پھر قلی کیمپ۔باروزئی اور کاسی پتھریلی بنجر زمینیں برٹش پر بیچتے رہے۔زرخیز ہموار زمینیں کوئٹہ کی اپنے قبضے میں رکھیں۔جس کے باعث ہمارا سٹاف پیڈل مارتا روز چھاو¿نی کے ڈاک خانوں میں آتا جاتا۔قلی کیمپ کا سٹاف تو دھونکنے لگتا یا جلدی فوت ہو جاتا۔
دراصل شمال کے چھ درے بند کرنے کے لیے بولان ریلوے زاہدان ریلوے بنائی تھی۔کیونکہ برطانیہ نے ہندوستان کی کالونی سے اس قدر کمایا کہ چھوٹے سے برطانوی جزیرے کا حاکم Emperor بن گیا۔زار روس اور نپولین کی رال ٹپکتی دیکھ کر برطانیہ گھبرایا تھا۔یہ اس کے جذباتی فیصلے تھے جسے افغانستان نے دل سے لگائے رکھا۔
ہم ڈگ بھرتے ڈاک خانے میں داخل ہوئے پولیس اور ہندوستان کی کالونی بچائے رکھنے والے فوجی پہلے سے ہی موجود تھے۔نثار کا گلا تو پھندے میں تھا،مگر زمین سے لگ کر اس کے گھٹنے مڑے ہوئے لگے تھے۔جسم کا وزن برداشت نہ کرنے کے باعث ٹیڑھے ہو گئے تھے۔میں نے چونکہ چھپ چھپ کر ابن صفی کے جاسوسی ناول پڑھے تھے کیونکہ بابا جاسوسی ناولوں کے خلاف تھے۔ان ناولوں کے باعث میں کچھ عمران اور کرنل فریدی قسم کا بن چکا تھا۔میں نے ان فوجی اور پولیس افسروں سے کہا کہ یہ خودکشی نہیں قتل ہے۔ورنہ پاو¿ں ایک دو انچ ہی زمین سے بلند تو ہوتے۔میری آہ و فغاں کے باوجود وہ مرد ناداں مصر تھے کہ یہ خودکشی ہے۔میرے ساتھ بھی افسروں کی نفری تھی۔وہ بھی میرے ساتھ ہی خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے۔جس پر باوردی افسر بڑے جزبز ہوئے۔
” سینکڑوں لوگ جیتے مرتے ہیں آپ نے تو وقار کا مسئلہ ہی بنا لیا ہے۔یہ تو فوت ہو گیا،قتل ہو یا خودکشی دوبارہ واپس تو نہیں آ سکتا۔اس پر تکرار کی کیا ضرورت ہے“
بلڈی سویلین انگشت بدنداں تھے۔مجھے حیرت ہوئی۔
” یہ ہمارا ساتھی ہے۔ہم قاتل کو پکڑ کر سزا تو دے سکتے ہیں،زندہ کرنے کا کب کہتے ہیں“
بوٹ وردیاں متامل تھیں۔
” انفنٹری سکول میں قتل! پورا جی ایچ کیو ہل جائے گا۔اتنی بڑی دھماکہ خیز خبر سے ہمارے افسر زیر عتاب آجائیں گے“
میں جھلا گیا ” آپ کو پروموشن کی پڑی ہے۔میرا پوسٹ ماسٹر قتل ہو گیا ہے “
وہ مجھے ایک جانب لے گئے۔اور دوستانہ مشورہ دیا کہ میں زبان بند ہی رکھوں۔وہ چاہتے تھے پریم چند کے افسانہ دوبیل کی طرح ہم ہیر اور موتی بیل کی طرح پریم سے رہیں۔باہم سینگ نہ اڑائیں۔
پوسٹ ماسٹر بدستور پھندے میں تھا۔جبکہ ہماری بحث تکرار کی صورت اختیار کر گئی۔اس کی تو کسی کو پرواہ نہ تھی۔قربان علی مری کا خیال تھا کہ یہ بحث بے سود ثابت ہوگی۔طاقتور کی درخواست کو حکم سمجھا جائے۔سید محمد خالد اور حاجی معزالرحمان گو مگو کی کیفیت میں تھے۔اکاو¿نٹینٹ منظور احمد،ایس ایم کوثر کے علاوہ امتیاز علی اور اکرم کا بھی اسرار تھا کہ ہم اپنے موقف پہ ڈٹے رہیں۔کسی نے فوٹوگرافر منگوانے کے لیے بھی آدمی دوڑا دیا تھا۔یہ رائے بھی تھی کہ پریس کو خبردی جائے۔یہ دیکھ کر آمد و رفت کا دروازہ سپاہیوں نے بند کر دیا۔اور ڈاک افسر ’قید میں ہے بلبل صیاد مسکرائے‘ کی مجسم تصویر بن کے رہ گئے۔
وردیوں بوٹوں نے باہم کچھ مشورے کیے پھر چند پولیس افسر آئے ” اگر یہ قتل ہے تو ظاہر ہے آپ کے لوگوں نے ہی کیا ہوگا۔ہم ان افسروں کو تھانے لے جاتے ہیں۔پوچھ گچھ کرتے ہیں۔قاتل کا پتہ چلاتے ہیں “
یہ سنتے ہی افسر سبگتگین کی ہرنی کی طرح مجھے دیکھنے لگے۔میری بھی سٹی گم ہو گئی۔قربان علی مری میرا سکول فیلو بھی تھا۔اس نے مجھے اشارہ کیا ہم دونوں ایک جانب ہٹ آئے۔
” جناح کی زیارت میں قید،فاطمہ جناح کے پیٹ میں زخم،لیاقت علی خان کا قتل اس کا سبھی کو علم تھا کوئی اسمبلی ممبر نہ آیا صرف لیاقت علی خود لاعلم تھا،نواب نوروز خان کا انجام۔بھٹو کی پھانسی۔کیا اتنا کافی نہیں ہے۔ایسا نہ ہو کہ ہمارے کچھ افسروں کو پھانسی اور عمر قید ہو جائے“
یوں تو میں پوسٹ ماسٹر جرنل تھا یہ سن کر جرنیلی تو ہوا ہوئی پوسٹ ماسٹری ہی بچی۔مجھ پر ڈاک خانیت طاری ہوگئی۔
” آپ کیا چاہتے ہیں “
میں نے دوٹوک سوال کیا۔
انہوں نے فائل پہ رکھا ایک کاغذ میری جانب بڑھا دیا۔
” اس پر دستخط کر دیں کہ یہ خودکشی ہے“
میں نے مڑکر افسروں کو دیکھا۔ان کے چہرے فق ہوچکے تھے۔میں نے بلا تامل دستخط کر دیئے۔اور ڈاک خانے سے باہر نکل گیا۔مجھے یوں لگا نثار پھندے سے نکل کر جھپٹ پڑے گا۔میرا گریبان پکڑے گا۔حالانکہ یہ پکڑا پکڑی میدان حشر تک موقوف تھی۔
ہم تو گریژن سے رفو چکر ہونا چاہتے تھے۔مگر سٹاف کالج پوسٹ آفس کے کوارٹروں میں وہ فیملی سمیت مقیم تھا۔لازم تھا کہ بیوہ سے اظہار ہمدردی اظہار یک جہتی کے لیے ان کے ہاں جائیں۔انفنٹری سکول اور سٹاف کالج قریب ہی تھے۔ہم ان کے ہاں پہنچے۔برآمدے میں دری بچھی تھی۔بہت سی عورتیں اور عملہ کے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔مجھے یقین تھا کہ بیوہ اس سانحہ غیر متوقع قتل پہ پچھاڑیں کھارہی ہوگی۔لوگ لخلخہ سنگھا رہے ہوں گے۔
پوسٹ ماسٹر جرنل کی آمد کا اعلان کیا گیا۔بیوہ چادری اوڑھے شاہانہ جلال سے بیٹھی تھی۔آنکھوں میں آنسوو¿ں کی بجائے انتقام کے انگارے تھے۔جوں ہی میں قریب پہنچا اس نے مجھے للکارا ” آ گیا میرے شوہر کا قاتل پوسٹ ماسٹر جرنل جس کے ظلم سے تنگ آ کر میرے شوہر نے خودکشی کرلی۔اور کہاں ہے قربان علی مری؟ میرے شوہر پر سختی کرنے والا“۔
مری نے کچھ بولنا چاہا تو میں نے اشارے سے منع کر دیا کہ جب وہ پہچانتی ہی نہیں وضاحت کی کیا ضرورت ہے۔
کچھ دیر وہ جلی کٹی سناتی رہی پروپیگنڈا تو Fifth generation war fareکا حصّہ ہے۔بوٹوں وردیوں کی لپک جھپک دھمک نے باور کرا دیا تھا کہ نثار نے محکمے کے افسروں کی سختی سے گھبرا کر خودکشی کرلی ہے۔اس وقت جان بچا کر نکلنے میں ہی عافیت تھی۔ہماری ہمدردی کے بول سینوں میں ہی ابل کر رہ گئے۔گیریژن جاتے میں ہم سینہ تانے پروقار افسر تھے مگر واپسی پہ سرکک تھے،Spineless زمین سے سینہ گھسیٹتے۔گردن اٹھانے کی طاقت نہ تھی۔اپنی کرسیِ افسری پہ میں دھم سے آن گرا۔فوراً ہی ایک کڑک چائے لانے کو کہا۔
کچھ ہی دیر میں ایک فائل کور لیے اکرم آیا۔وہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر انویسٹیگیشن تھا۔میں نے متجسس نظروں سے دیکھا اور فائل سے چپکی درخواست پر نظر ڈالی۔اس نے قبل از وقت فوری طور پر ریٹائر منٹ کی درخواست دی تھی۔
” جب میں اپنے مظلوم ساتھی کے قتل کی تحقیق نہیں کر سکتا تو اس عہدے کی کیا ضرورت ہے۔خدا حافظ“
وہ صاحبِ اولاد تھا۔ایک بیٹا چرسی بھی تھا۔چرسیوں کے تو اخراجات بھی کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
” نوکری چھوڑ کر کیا کرو گے؟ “
میں نے سوال کیا۔ویسے میرا تو دل چاہتا تھا کہ میں اپنی درخواست بھی لکھ ڈالوں۔مگر پیاز کی ریڑھی لگانے کی طاقت نہ تھی۔تیسری پشت تھی سرکار کی مداحی میں۔
اکرم دکھی تھا،چائے بھی نہ پی اور تھکے ہوئے جواری کی طرح سر نہوڑائے چلا گیا۔جیسے کلر راو¿نڈ لنگڑی پٹ گیا ہو۔
ابا کے دور میں اچھا تھا جونیئر کلاس،ون سینیئر کلاس ون برٹش انڈیا کے ابتدائی دور میں Queen’s Bounty کے نام پر ہر ماہ مشاہرہ ملا کرتا Pay کا لفظ تو کہیں بعد میں آیا۔اب ہم کالے انگریز سے Bounty لیتے تھے۔بھلا ہو بھٹو کا خود شیواز ریگل کا ذوق رکھتے تھے۔مگر دخت رز پہ پابندی کے مرتکب ہوئے۔محمود و ایاز کو پینٹ میں دوڑانے کا اہتمام کیا۔ ستراں گریڈ سے دوڑتے ہانپتے بائیس گریڈ تک پہنچتے پتلون لنگوٹی ہو جاتی رتن ناتھ سرشار کا آزاد گھس گھس کر مرزا ظاہر دار بیگ بن جاتا ہے۔دل میں چند Stent سر گنجا،مرغ کی بانگ سے ہی دھل جائے وہ طوفان والا بن کر افسر ریٹائرڈ ہوتا تو دور سے چغد نارائن دکھائی دیتا کسبیوں کی طرح اس کا چہرہ دور سے ہی پہچانا جاتا۔
ایک دو روز تو اذیت اور ذہنی تکلیف میں گزرے پھر ماحول بدلنے کے لیے دالبندین کے دورے پہ نکل گیا۔بالکل کاو¿ بوائے فلموں والا ماحول تھا۔ریت اگلتے صحراو¿ں میں ویران سٹیشن اونگتے ہوئے سٹیشن ماسٹر اور پوسٹ ماسٹر۔وہیں مجھے ڈپٹی پوسٹ ماسٹر جرنل کا فون آیا کہ اکرم اپنی ریٹائرمنٹ کی درخواست واپس مانگ رہا ہے۔میں نے تاکید کی کہ درخواست پارٹ آف فائل ہے۔اب واپس ہونے سے رہی۔معاملہ لٹکائے رکھنا۔ میں اسکی غیرت سے حسد کر رہا تھا۔
میں دورے سے واپس لوٹا تو اکرم بالکل ہی سوکھ چکا تھا۔دور سے ہی سرکاری افسر لگ رہا تھا۔جوش اترنے کے بعد اسے خیال آیا کہ سرکاری مکان اردلی ماہانہ تنخواہ اور افسری کے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔جہاں ضروریات زندگی منہ کھولے کھڑی ہیں۔دریائے بیجی اب دریائے ناڑی بن چکا تھا۔ آرام سے سیوی کے کنارے لیٹا اونگھتا ہوا ۔کئی ایک درخواستیں بھی افسروں کی بھی آچکی تھیں کہ اکرم والا مکان انہیں الاٹ کیا جائے،جونیئر گریڈ میں ہلچل بھی تھی کہ اکرم کا چارج انہیں دیا جائے۔ادھر گھر میں بیوی تابڑ توڑ حملے کر رہی تھی کہ بچوں کو بھوک سے مارو گے مورکھ۔اکرم کا بس چلتا تو نثار والے اسی رسے سے سرکل آفس کے شعبہء تحقیقات میں لٹک جاتا۔مگر وہ رسہ بھی رسہ گیر ساتھ ہی لے کر چلتے بنے تھے کہ کیس پراپرٹی ہے۔
اکرم یوں تو دندناتا دفتر میں داخل ہوا کرتا۔مگر اب وہ خاکساری تلے دبا ہوا۔پی اے سے بازیابی کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ملک کا سچا اور کھرا سرکاری ملازم اس کے چہرے پہ ناگ کی گرم دھول چپکی ہوئی تھی۔
حال احوال کے بعد اس نے ہتھیار پھینک دیئے۔
” وہ میرا جذباتی فیصلہ تھا مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے “
وہ توتک کی اجتماعی قبر سے نکلی ہوئی تیزاب سے منہ جلی لاش سا کچھ بول نہ سکتا تھا۔لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر بکھر کر نکل رہے تھے بے ربط سے۔میں نے سمجھایا۔
” یہ دوقومی نظریہ جس پہ ہمارا ملک الگ ہوا کوئی نیا نہیں ہے۔ہندوستان میں بھی دو قومیں تھیں،حاکم،ٹیکس لینے والی،عیاشی کرنے والی تیس فی صد اور جوتے کھانے والی گیہوں کاشت کرنے اپنی بہن بیٹیاں ان کے شبستانوں میں بھجوانے والے اپنے بیٹے ان کی جنگوں میں قتل کروانے والے ستر فی صد۔ہم نعروں پہ پلنے والی اکثریت ہیں۔مذہبی،سیاسی،قومی نعروں پہ پلنے والے۔جیسے گندے جوہڑ کے کیڑے صاف پانی میں ڈالیں تو پھڑک پھڑک کر فوراً ہی مرجائیں،ہم اندھیرے گھروں میں نسل در نسل زندگی بھوگ کر اپنی قبروں کو روشن کرنے والے لوگ ہیں۔دن میں بار بار سر پہ ہتھوڑے برسا برسا کر ہمیں سدھارا جاتا ہے“
اکرم کی یہ حالت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔میں نے دراز سے استعفٰی نکال کر اسے واپس کر دیا۔اکرم اپناہی استعفٰی میز پہ پڑا دیکھتا رہا۔جیسے کوئی انہونی چیز ہو۔اچانک ہی اس کے چہرے کی رنگت بدلنے لگی۔
” تو یہ نظام کون بدلے گا؟ کون سا ملک؟ہمیں ہی یہ بدلنا ہوگا۔پاکستان قائم ہوتے ہی دوقومی چھوڑ کر یک قومی اختیار کرنا چاہیے تھا۔نصابوں میں بھی داخل کر دیتے“
مجھے خوشی ہوئی کہ اب تک ہم پورے مردہ نہیں ہوئے۔سپارٹیکس کی کچھ روح ہم میں زندہ ہے۔
” نظام بدلنے کے لیے ہمت چاہیے۔انقلاب میں بہت سے لوگ مرتے بھی ہیں۔آزادی خیرات میں تو نہیں ملتی۔سر سے کفن باندھ کر باہر نکلنا پڑتا ہے“
اچانک ہی اکرم کا چہرہ ایمان سے دمک اٹھا۔جیسے سینٹ تھامس بیکٹ نے پانی سے بپتسمہ دیا ہوا۔
” یہ دوقومی نظرئیہ یہ قد آدم بت آخر تو کسی کو توڑنا ہوگا۔کسی کو تو منگل پانڈے بننا ہوگا۔میں اس جہاد کی ابتداءکرتا ہوں“
اس سے پہلے کہ کچھ سوچ سکتا اس نے درخواست دوبارہ میرے منہ پہ اچھال ماری۔اور باہر نکل گیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے