میں بڑھ کے گلے سے بھی لگاتا انہیں صادق
لے کر وہ لبادے میں جو خنجر نہیں آتے

بچھڑے ہوئے اب ہم کو میسر نہیں آتے
صحرا سے بگولے تو پلٹ کر نہیں آتے

دامن پہ گریں یا کہ سرِ خاک ہوں ارزاں
آنسو ہیں کبھی لوٹ کے یہ گھر نہیں آتے

رہنا ہے قفس میں مجھے آباد بہت دن
جب تک کہ مرے بال مرے پَر نہیں آتے

مَیں ان کی کشش میں رہا برباد بہت دن
یہ خواب جو آنکھوں میں سمٹ کر نہیں آتے

جب تک کہ نہ مہناز دے خود اپنی گواہی
انجیر کے پیڑوں میں یہ تیور نہیں آتے

جلتا ہے چراغوں کا لہو صبحِ اذاں تک
وہ رات کہ جس میں مہہ و اختر نہیں آتے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے