نگو سرگی ویلے مسجد کے کھلے صحن میں جھاڑو دیتی تھی۔نمازیوں کی آمد سے پہلے ہی سٹک جاتی۔نماز فجر کے بعد کمی کمینوں کے بچے ہی مسجد سے ملحق مدرسے کے صحن میں جمع ہوتے تھے_ جو چنگا چوکھا کھاتے بلکہ کھاتے ہی چلے جاتے تھے، جن کی تھالیاں بھی کمی دھوتے تھے، ان نکمے گھروں میں مولوی صاحب بذات خود قران پڑھانے جاتے تھے۔ رسم قل ہو، گھر میں منعقد کیا گیا میلاد ہو، یا نئی فیکٹری کی افتتاحی تقریب، مولوی صاحب رقت آمیز دعاو¿ں کے لیے شہرت رکھتے تھے۔معاوضے کے مطابق آنسو کم زیادہ کر لینے پر بھی قادر تھے۔وہ زمانے گئے جب مولوی تنگ دست ہوا کرتے تھے، اب تو ہٹی خوب چلتی ہے اور کچھ سرکار کی مہربانیوں سے لگے بندھے وظیفے بھی مقرر ہیں _ حسبِ ضرورت مولویوں کو لڑاکا مرغوں کی طرح میدان میں اتار دیا جاتا ہے،پھر دیکھ تماشا! قصبے کے مخیر الحاج میاں منظور حسین نے مسجد سے ملحق ایک مدرسہ بھی بنوادیا تھا۔ جن گھروں میں روٹیوں کے بھی لالے پڑے ہوتے وہ اپنے بچے مدرسے چھوڑ جاتے کہ یہاں بظاہر روٹی فری ملتی ہے۔مدرسے کے صحن میں مولوی غریب غربا کی کلاس لیتے۔ان کوڑھ مغزوں کو پڑھانے کا تو فائدہ کوئی نہیں ہے لیکن صبر شکر تو سکھایا،پڑھایا جا سکتا ہے ناں!! لفظوں سے کھلواڑ کیا جاتا تھا، بنا سمجھے لفظوں کو رٹایا جاتا_ بچے رحل سامنے رکھے لفظوں کے جھولے پر ایسے جھولتے جیسے ھپناٹائز ہو گئے ہوں، مٹی رنگ کے زمین زادے، جنہیں جیون کے پٹھو گرم کھیل میں ٹھیکریوں کا کردار نبھانا ہے۔

نگو کی ماں نے جمعہ کے خطبے میں مولوی صاحب سے علم کی برکتیں سن کر سوچا کہ نگو بھی قرآن پڑھ لے تو شاید برکت کی چھتر چھاو¿ں ہم غریبوں کے سروں پر بھی آئے۔ جانتی نہیں تھی کہ برکتوں کی بھی بولیاں لگتی ہیں، چند لفظوں کا علم تو نگو کے گلے میں چھچھوندر کی مانند اٹک گیا ،نہ اگلے بنے نہ نگلے بنے۔ وہ جب تک رہی ایک لمبی ہوک کے ساتھ “ہائے اوئے میریا ڈاہڈیا ربا ” کی تسبیح ہی کرتی رہی۔ جب مسجد کے ملحق مدرسہ بن گیا تو بچیوں کا داخلہ مسجد اور مدرسہ میں ممنوع قرار پایا۔ٹوٹے، ادھڑے مکانوں کے بیچ ،چمکتی ٹائلوں سے مزین مسجد تمکنت اور کچھ رعونت لیے الگ سی نظر آتی۔ لشکتی مسجد میں میلے ملگجے لوگ کچھ اوپرے سے لگتے ہیں،کھلے عام آنے جانے میں کچھ جھجک سی محسوس ہوتی، اس لیے اب نگو سرگی ویلے مسجد کے کھلے دالان میں جھاڑو دیتی، بچپن میں اسی صحن میں سیپارہ پڑھنے آیا کرتی تھی۔ سیپارہ پڑھنے کے بعد سیدھی میاں صاحب کے گھر چلی جاتی۔ گھر کے چھوٹے موٹے کام نبٹاتی ، اپنی ہم عمر چھوٹی بی بی کے کمرے کی صفائی کرتی۔ میاں صاحب کی بیگم ہر وقت پلنگ پر براجمان ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی رہتی تھی۔ جانے کیسے تھک جاتی کہ زرا نگو کو فارغ دیکھتی تو آواز دے کر بلا لیتی ” چل شاواش زرا پنڈلیوں پر پولی پولی مکیاں مار دے” میاں صاحب کا گھر،ملک صاحب کا گھر،چودھری صاحب،راجے، ٹوانے سب گھروں میں ان کی گھر والیاں ایسے سٹور کی ہوئی تھیں جیسے اناج بھری بوریاں ذخیروں میں محفوظ ہوتی ہیں۔روپہلی سنہری تاروں سے کشیدہ،ریشم میں لپٹی ہوئیں۔ کبھی گھر سے باہر نکلیں بھی تو تو چادروں، عباو¿ں میں پیک گٹھڑیاں سی دکھتیں جنھیں احتیاط سے سامان مانند ادھر ادھر لے جایا جاتا تھا۔

نگو کی ماں تو لٹکے پستانوں کے ساتھ دوپٹے کا ایک پلو سر پر دوسرا کندھے کے پیچھے لٹکائے، گوبر کا ٹوکرا اٹھائے کیٹ واک کرتی، پائنچے پنڈلیوں سے اوپر اٹھائے پانی میں چاولوں کی پنیری لگاتی ، کھیت کے کنارے بیٹھی دامن اٹھائے بچے کو دودھ پلاتی بھی نظر آتی تھی۔ اور پھر کانٹوں سے بے پرواہ ننگے پیری چلتی ہوئی ماں نے نگو کو سکول بھی بھیجنا شروع کر دیا۔نگو سکول سے چھٹی کے بعد میاں صاحب کے گھر اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتی تھی۔چھوٹی بی بی کے کمرے میں رنگین کتابیں ریک میں سجی تھی۔چھوٹی بی بی تو کورس کی کتابوں کے علاوہ کسی کتاب کو ہاتھ نہ لگاتی۔لیپ ٹاپ،سیل فون اور جانے کیا کچھ، انہی کے ساتھ مصروف رہتی تھی۔نگو ریک سے ایک ایک کتاب احتیاط سے اٹھاتی،رنگین تصویریں آنکھوں میں خواب بھر دیتی تھیں۔ لفظوں کو چھوتی، لفظ انگلیوں کے پوروں کے ساتھ چمٹ کر رہ جاتے، شریر لڑکوں کے سے چلبلے لفظ، چیونگم چباتی،آنکھیں مٹکاتی،پڑ پڑ بولتیں،کھلکھلاتی ہوئیں شوخ لڑکیوں جیسے لفظ،آکاش میں تیز ہواو¿ں میں ڈولتی پتنگوں جیسے، چھلکنے کو بیتاب پانی سے بھرے بادلوں جیسے لفظ!!
پھر رنگوں میں ہولی کھیلتی نگو کو بھی ایک ٹین کے بکسے،دو چارپائیوں،دو کرسیوں، چار کھیسوں سمیت دوسرے گھر پہنچا دیا گیا۔جولاہا کھٹاکھٹ کھڈی چلاتا رہا۔ مکڑی جالا بنتی رہی۔خاوند ملکوں کے پاس راہک تھا۔ان سے ڈنڈا ڈولی کروا کر آتا تو گھر آکر نگو کی ڈنڈا ڈولی کر دیتا۔ نگو اس ڈنڈا ڈولی کو معمول کی بات سمجھتی تھی۔ اور اس میں غیر معمولی ہے بھی کیا!!۔ ہوش سنبھالتے ہی تشدد کو مہمیز کرتی گالیاں اور الٹی پرات پر ہاتھوں کی تھاپ کے ساتھ ایسے گنگناتے بول سنتی آئی تھی جو پیار اور مار کے ایک ہی معنی رکھتے تھے۔
اڈی ٹپا کھیلتے سال گزرتے گئے۔ ہاتھ میں لا حاصلی رہی تو بچے کے لیے مسجد میں جھاڑو پھیرنے کی منت مانگ لی۔بچہ پیدا کرنا کوئی خاص واقعہ نہیں ہوتا۔ کمی عورتیں تین چار لمبی سانسوں میں کھٹاک سے بچہ نکال باہر کرتی ہیں یا کبھی کوئی رکاوٹ پڑ جائے تو تین چار ایڑیاں رگڑ کر جان دے دیتی ہیں، مر جانا بھی کوئی خاص واقعہ شمار نہیں ہوتا ۔ہاں! برادری کو فوتیدگی ہی پر ذرا بے فکری کا کھانا میسر آتا ہے۔ہر دوسرے گھر میں ماں، بیٹی، بہو پیٹ سے ہیں، گھر کے صحن میں بندھی بھوری گائے یا پھر ٹوٹے، جھولتے دروازے کے پٹ سے جھانکتی بکری سب گابھن ہیں _ ایسے میں اگر نگو کا پاو¿ں بھاری نہیں ہوتا ، تو کون سا زمین نے گول گھومنا چھوڑ دینا تھا!! لیکن جھاڑو کمال کر گیا۔ نگو ماں بن گئی۔بیٹے کو کپڑے میں لپیٹ کر فوری طور پر مسجد لے جایا گیا۔مولوی صاحب عام طور پر نومولود کے گھر میں یا ہسپتال جاکر کان میں اذان دینے کا فریضہ ادا کرتے تھے۔ جو ہوم سروس افورڈ نہیں کر سکتے، انھیں مسجد آنا پڑتا۔ سبز گنبد کے سائے کو ناکافی جانتے ہوئے مولوی صاحب اے سی لگے ٹھنڈے ٹھار کمرے میں براجمان تھے ، بیدلی سے کان میں اذان کو پھونکا گیا اور بیٹے کا عربی نام عبداللہ تجویز کیا، ساتھ ہی انگلی اٹھا کر تاکید بھی کی: اوئے کم ذاتو! نام بگاڑنا نہیں ، اسلامی نام ہے ، توہین ہوتی ہے_” نگو کے شوہر پر تو لفظ :توھین ” سے کپکپی طاری ہو گئی اس ملوکڑے نے اس لفظ کے ہاتھوں کئیوں کا حشر نشر جو دیکھ رکھا تھا۔جب تک زندہ رہا صرف عبداللہ نہیں بلکہ عبداللہ صاحب کہ کر پکارتا رہا۔
نگو کا چھوٹی بی بی کے گھر جانے کا معمول جاری رہا۔ اب چھوٹی بی بی چھوٹی نہ رہی تھی پر کہلاتی چھوٹی بی بی ہی تھی۔میاں صاحب نے نیک شریف داماد لے پالک رکھ لیا تھا، ناخلف نکلا، بلے کی طرح گھر گھر دودھ سڑکنے کی عادت تھی۔لوگ چوہدری بلے کو دیکھ کر ہی راہ بدل لیتے،دروازہ بھیڑ دیتے تھے_ لعن طعن کرتے،پچھتاتے، میاں صاحب اور بڑی بی بی بھی اگلی دنیا کو سدھارے۔چوہدری بلے کو دیسی کپی لڑ گئی، ہارٹ اٹیک کا پردہ ڈال کر دفنایا گیا تو چھوٹی بی بی نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ اب تو نگو سارا دن چھوٹی بی بی کے پاس ہی رہتی۔ رات ہی کو گھر جاتی۔چھوٹی بی بی نیند اور ڈیپریشن کی گولیاں پھانک کر دن رات منہ سر لپیٹے پڑی رہتی تھی۔پشتی نوکر گھر میں تھے نہ فکر نہ فاقہ۔نگو سہیلی بھی تھی اور خدمتگار بھی۔ سکول کالج کی دوستوں کے ساتھ چھوٹی بی بی کی نبھتی نہیں تھی، کون نگو کی طرح انگلیوں کے اشارے پر چلتا ہے!۔عبداللہ تو دو ماو¿ں کا سانجھا تھا۔چھوٹے پلے کی طرح کوں کﺅں کرتا دونوں ماو¿ں کے گھروں میں دوڑ لگاتا رہتا۔نگو اب محض نگو نہیں رہی نگو جھلی ہوگئی تھی۔ہاتھ کام کاج میں لگے رہتے اور زبان پر :ہائے اوہ میریا ڈاہڈیا ربا! "کے ساتھ ایک اور ورد بھی جاری ہو گیا ‘”میں اپنے پت کو پڑھا لکھا وڈا افسر بناو¿ں گی”۔ نگو کے چاو¿ کو ہوا دینے کے لیے گاو¿ں میں لڑکوں کا ہائی سکول بھی موجود تھا_ ساری برادری میں جب بچہ روٹی کھانے جوگا ہو جاتا اسے روٹی کمانے پر لگا دیا جاتا تھا۔گھروں میں،کارخانوں میں ،کاریگروں کے پاس، چائے کے ڈھابوں میں، ٹرک ہوٹلوں میں یہ بچے بھاگتے دوڑتے، ہر طرح کی مار کھاتے نظر آتے۔ ایک نگو جھلی کا بیٹا بیگ اٹھائے سکول جاتا دکھائی دیتا_لیکن وڈی افسری اور صاحبی تو ایک طرف رہی سکول جاتے ہی وہ عمر بھر کے لیے عبداللہ مراثی ہو کر رہ گیا۔عبداللاو¿ں کے تو ہر جماعت میں ڈھیر لگے تھے،ماسٹروں نے شناخت اور اوقات نمایاں کرنے کے لیے عبداللہ نام کے ساتھ مراثی بھی چپکادیا۔نگو جھلی نے تو ہاتھ سے جھاڑو لے کر قلم تھمایا تھا کہ: ” پتر! اپنے نصیب آپ لکھ!” اور ماسٹروں کو بونس میں ہنسنے واسطے ایک لطیفہ میسر آگیا۔
عبداللہ مراثی لکھنے پڑھنے میں طرار تھا۔ حرفوں کے جوڑ توڑ میں بھی ماہر ہو گیا۔ کمی ماں پیو کی اولاد تھا_ اس لیے ماسٹروں کی خدمت میں بھی پیش پیش رہتا۔سکول ماسٹر جب بور ہوتے تو آواز دے کر عبداللہ کو بلا لیتے- “اووو مراثییی اوئے!۔۔ عبداللہ ہاتھ باندھ سر جھکا کر ماسٹر کی کرسی کے پاس کھڑا ہو جاتا۔ماسٹر بولتا: تیں کاہے کو جما رے؟”(بیک گراونڈ میں دبی دبی ہنسی کی کھی کھی)، عبداللہ ابھی “کیوں ” کے روبرو سٹپٹا رہا ہوتا کہ ماسٹر اگر مگر کے ساتھ امکانات پر روشنی ڈالنے لگتا: ” اوئے! تیں ماں اٹ (اینٹ) جم لیتی،تیں پیو دیوار میں لگا لیتا”- ہاہاہاہا۔۔۔ کی بے ہنگم آواز کے ساتھ ماسٹر کی توند اچھلتی نظر آتی۔ لطیفے بھی تو ستم گر ہیں جن باتوں پر رونا بنتا ہے، انہی باتوں پر ہنساتے ہیں۔ پھرعبداللہ کو صاحب کہہ کر پکارنے والا باپ بھی نہیں رہا، سانپ کاٹے پر پرلوک سدھارا۔ سال رسی ٹاپتے گزرتے گئے_ اب عبداللہ مراثی چھریرا پھرتیلا کالا ہرن لگتا تھا ، دسویں کے امتحان کی تیاری بھی کرتا،موقعہ ملنے پر چھوٹا موٹا کام بھی پکڑ لیتا۔ دیواروں پر ڈسٹمپر کرنے کا ماہر تھا,شادی بیاہوں میں ویٹر بھی بن جاتا۔چھوٹی بی بی کے گھر کا تو ہر کام جو چار دیواری سے باہر تھا، اسی کے ذمہ تھا۔چوکڑیاں بھرتا ،گھنٹوں کا کام منٹوں میں نبٹاتا۔دسویں پاس کرنے سے ہی پہلے ماں نے عبداللہ مراثی کا بیاہ رچا دیا۔مورنی سی لڑکی بیاہ لائی،عبداللہ مور کی طرح پنکھ پھیلائے اس کے ارد گرد پائل ڈالتا رہتا کہ مورنی کو بھی چار دن ہی عطا ہوئے تھے۔ وہ پھٹی پرانی اترنیں پہننے والے جن کو زندگی سیلیبریٹ کرنے کے لیے نئے لباس کے اذن کے ساتھ ، مرنا اور پرنا دو ہی ایونٹ عطا کرتی ہے ،مورنی نے دونوں جلد بھگتا کر زندگی سپھل کر دی۔ بچی کی پیدائش پر دائی نے کوشش تو بہت کی لیکن خون نہیں رکا۔نچڑی گئی، شوہدی میں خون تھا ہی کتنا! پائلیں بھول کر مور اپنے پاو¿ں ہی دیکھتا رہ گیا۔ ابھی بے بسی مورنی کی قبر ہی پر ششدر کھڑی تھی کہ الھڑ، بے نیاز قدرت نے پھر سٹیرنگ گھمادیا۔ بد حواس ہوئی نگو جھلی سڑک پار کرتے ہوئے ٹریکٹر سے ٹکرا گئی،جان سے گئی، شکر ہے کہ ٹریکٹر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ورنہ تنخواہ دار ڈرائیور کی بھی جان نکال دی جاتی۔
کھلنڈرا عبداللہ بیوی اور ماں کے جانے سے تنہا ہی نہیں بڈھا بھی ہوگیا تھا۔جھکے کندھوں کے ساتھ اپنے آپ کے ساتھ باتیں کرتا رہتا۔جب رونے کو جی چاہتا تو آتے جاتوں کو روک کر لطیفے سنانے لگتا _ اپنے لطیفوں پر آپ ہی ہنستے ہوئے آنکھوں میں آنسو آجاتے،ہنسی رک جاتی پر آنسو نہ تھمتے۔
عبداللہ مراثی کے سر پر لفظ مچھروں کی طرح گھوں گھوں کرتے رہتے، پکڑائی نہیں دیتے تھے۔اب وہ امتحان شمتحان بھول کر ایک نئی کٹھالی میں پڑ گیا۔کاکی سنبھالتا،رنگ روغن کرتا، کئی بار امتحان دیا لیکن کامیاب نہ ہوا۔چھوٹی بی بی کے پاس بیٹھا عبداللہ مراثی اپنے دکھڑے قہقہوں میں پرو رہا تھا:” ماسٹر صاحب راستے میں مل گئے تو میں نے انھیں کہا کہ ماسٹر جی! میں تو نہ پڑھ سکا لیکن اپنی کاکی کو یونی ورسٹی میں پڑھاو¿ں گا ” _ بی بی!” ماسٹر جی کا تو ہاسا ہی نکل گیا” کہنے لگے:
” اوئے تو واقعی نگو جھلی دا پتر ہے،وہ بھی کہتی تھی میرا پت وڈا افسر بنے گا,ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیراں نوں جپھے”_ اور پھر میرے کندھے تھپکا کر یہ کہتے ہوئے ایک طرف کر دیا ” پچھے ہٹ اوئے نماز سے دیر کروادی” اور مسجد کی طرف لپک گئے۔

کوڑھ کرلی سہی پر کاکی کو سکول ضرور بھیجوں گا۔کاکی جس کے نصیب میں نام بھی نہیں تھا ہر کوئی کاکی کاکی ہی کی صدا لگاتا تھا،اپنے ننھے منے ہاتھوں سے فرش پر پوچا لگارہی تھی۔ حیران،پریشان،سوال اٹھاتی، کاکی کی آنکھیں ہو بہو اپنی دادی جیسی تھیں۔ وہ چھوٹی بچی سے زیادہ ایک ادھیڑ عمر عورت دکھائی دیتی تھی۔عبداللہ مصلی جب اسے ہر وقت جھاڑو پوچا کرتے دیکھتا تو اس کا دل کسی بے مہر مٹھی میں بھنچتا تھا۔چھوٹی بی بی تو مہارانی تھی۔دوسروں کو استعمال کرنے کا ہنر خوب جانتی تھی۔کاکی جب تک اس کے پیروں کی تیل سے مالش نہ کرتی اسے نیند نہ آتی۔جب بھی عبداللہ مراثی کاکی کو سکول بھیجنے کی بات کرتا تو وہ گھما پھرا کر بات نگو جھلی تک لے آتی۔ “نگو جھلی جب تک رہی آس نراش کے ہیر پھیر میں رہی، نہ قدموں نے زمین کو چھوا، نہ آسمان نے دادرسی کی۔لفظ انگارے ہی رہے، پھول نہ بنے۔ اوروں کو بھی دیکھ !! جیسے ڈھورڈنگر ہوں،کیسے امن سکون سے رہتے ہیں، جو مل گیا کھا لیا،نہ ملا تو نہ سہی، گلے میں سنگل ڈالے،اپنے مالکوں کے در پر پڑے ،خصم اپنڑے دا در نہ چھڈدے،بھاویں وجنڑ جتے۔”۔۔۔۔۔ دکھ بھری لمبی سانس ادھوری چھوڑ کر چھوٹی بی بی بولی:” اللہ بخشے کاکی کی ماں نہیں رہی، تو کیا! میں ہوں نا۔۔۔۔،تو چنتا نہ کر!” کاکی کو کام کاج میں ماہر کر دوں گی۔ جہیز بھی اچھا دوں گی،تو پرائے دھن کو پڑھا لکھا کر کیا کرے گا!!! بیٹوں جیسا ہے تبھی سمجھاتی ہوں ورنہ مجھے کیا پڑی! رب سوھنڑے نے مجھے کسی آزمائش میں ڈالا ہی نہیں۔ گھر میں ہر طرح کا فضل ہے لیکن دیکھ پتر! اس نکی جہی کو لفظوں کے گورکھ دھندے میں نہ الجھا،اس نے تو گھاس کی طرح زمین پر ہی بچھنا ہے لفظ لگ گئے نا، تو سر اٹھا لے گی بن موت ماری جائے گی…….” عبداللہ مراثی چھوٹی بی بی کے پاس اکڑوں بیٹھا سر ہلاتا رہتا لیکن آنکھوں آنکھوں میں کاکی سے سکول بھیجنے کا وعدے بھی کرتا رہتا تھا۔ مراثی باپ کے وعدوں پر بیٹی وشواس کیا کرتی !وہ جانتی تھی کہ چاہے من میں اسمان چھونے کی آشا ہو پر ایسے باپوں کے پیر دلدلی زمین میں دھنسے ہوتے ہیں۔کاکی کو کشف مل گیا تھا کہ کتابوں کی جھاڑ پونچھ سے محض گرد ہی حاصل ہوتی ہے ،علم ہو یا خواب خریدنے ہی پڑتے ہیں۔برسات ہوتے ہی کاکی خود رو جھاڑی مانند ہری بھری ہو گئی تھی۔ اس سبزے سے جانتے بوجھتے انجان بنی چھوٹی بی بی سجری سویر کاکی کو کھیتوں سے تازہ سبزی توڑ کے لانے کے لیے بھیج دیتی تھی۔ عبداللہ پیڑھی پر چھوٹی بی بی کو حال احوال سناتا رہتا ،وعدے کرتی ہوئی عبداللہ کی آنکھوں کو وہیں صحن میں منتظر چھوڑ کر کاکی دوڑ کر بھیتر پار کر جاتی ۔ جانے سبزیوں کے ٹوکرے بھرتی رہتی تھی کہ گھنٹہ گھنٹہ پلٹ کر نہ آتی۔ ایک دن گھنٹے بھی گزرتے گئے اور کاکی نہ پلٹی۔ رات گئے تک چھوٹی بی بی کاکی کی تلاش میں ادھر ادھر ہر کارے دوڑاتی رہی۔ کہیں سے کچھ خبر نہ ملی۔ جیسے کاکی کسی حرف پر لگا سہو کا نقطہ ہو جو ایسا مِٹا دیا گیا کہ نشان بھی باقی نہ رہا۔
عبداللہ مصلی نے ہر گھر میں جھانکا ، آتے جاتے راستوں سے، کھیتوں کی پگڈنڈیوں سے پوچھا، لوگوں کے ہاسے مذاق سہنے کا تو جماندرو عادی تھا لیکن اب یہ کیسی برچھیاں ہیں جو سینے میں ترازو ہو رہی ہیں!! "مانتا ہوں ” توبہ استغفار !” وہ کانوں کی لووں کو انگلیوں سے چھوتا ،”خدا بے نیاز ہے لیکن اتنییییی بے نیازی؟؟ خدا تو ملک ساب سے بھی بڑھ کر سخت دل کا نکلا۔۔۔ ، ہائےےےےے اوہ میریا ڈاہڈیا ربا!” ایک ہوک عبداللہ کے سینے سے نکلتی تو آوازیں پتھریلی دیواروں سے نکل کر تعاقب کرتیں :” بیٹی گھر سے بھاگ گئی اور یہ ٹپے ماہیے گاتا پھر رہا ہے ، کھی کھی۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔ مراثی جو ہوا "۔
جیسے کئی پیالے بھنگ کے پی لیے ہوں وہ خوشی غمی سے بے نیاز ہو گیاتھا۔لیکن ایمان قائم تھا کہ کاکی واپس آجائے گی اور کاکی سکول بھی جائے گی۔
کئی دن کی بیکاری اور خواری کے بعد چھوٹی بی بی سے اس نے کچھ پیسے ادھار مانگے، کچھ دیر کاکی کے پلٹنے کا انتظار کیا پھر پلو میں کاکی سے کیا گیا سکول بھیجنے کا وعدہ باندھ کر گھر سے نکل آیا۔
نزدیک قصبے کی پرچون مارکیٹ سے ایک بڑا تھیلا پاپڑوں کا خریدا،سائیکل پر رکھ کر بازار کا ایک چکر لگایا۔ایک دو بچوں نے پاپڑ خریدے،اکثر نے ماو¿ں سے ڈانٹ ہی کھائی۔لڑکیوں کے کالج کے سامنے کافی دیر کھڑا رہا،لڑکیوں کو باتوں اور ذائقوں کے چٹخارے پسند ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں کافی بکری ہوگئی۔شام ڈھلے گاو¿ں کی طرف جاتے ہوئے نظر شادی ہال کے باہر گراونڈ میں لگے قناتوں پر پڑی۔کیا شاندار قناتیں تھیں جیسے کسی بادشاہ نے پڑاو¿ کیا ہو۔ادھ بھرے پولی تھین بیگ کی طرف نگاہ کی،نیم دلی کے ساتھ ذیلی سڑک کے کنارے کھڑا ہوگیا۔راناصاحب کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔شادی تو لاہور میں ہوئی تھی۔ ووٹرز اور دوڑ میں ذرا پیچھے رہ جانے والے شریکوں کے لیے ولیمہ قصبے ہی میں ارینج کیا گیا تھا کہ اپنا ساڑ یہیں پھونک لیں،نئی رشے داری تک دھواں نہ پہنچے۔چونچیں طوطوں کی طرح لال کیے،کتر کتر بولتیں، شراروں غراروں میں الجھتیں عورتوں کاریوڑ ،دلہن کے لاکھوں کروڑوں کی مالیت کے لہنگے کا ذکر اس شد مد سے کر رہا تھاجیسے ساری دنیا اسی لہنگے کے حدوداربعہ میں سمائی ہوئی ہے۔میمنوں کی طرح نٹ کھٹ اچھلتے کودتے بچے اس کے گرد جمع ہوگئے۔بھیڑ کے ریلے میں بہتا ہوا عبداللہ مراثی قنات کے اندر کیسے پہنچا اسے خبر ہی نہ ہوئی، خبر تب ہوئی، جب ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر آکر لگا:اوئے! تجھے ہمت کیسے ہوئی اندر گھسنے کی ! ایک گھونسا اڑتا ہوا آیا دوسرا بھی،کچھ ٹھڈے زیر ناف اور مضبوطی سے تھاما ہوا پاپڑوں کا تھیلا ہاتھ سے چھوٹ گیا۔۔ تڑاق تڑاق دھن دھننن دھن۔۔۔ ،اتنے میں آواز آئی: ” کھانا لگ گیا ہے_”
ہجوم عبداللہ مراثی کو وہیں چھوڑ کر کھانے کے میزوں کی طرف دوڑ پڑا۔ اوجھڑیوں کے تودے سنہری پنی لگی کرسیوں پر بکھرے تھے۔ان اوجھڑیوں میں خوراک کے ڈھیر ایسے گرتے جیسے فلیش کے بعد کموڈ کے پائپ لائن سے گزر کر فضلہ گٹروں میں گرتا ہے_
چہرے غائب ہوگئے تھے بس فربہ گردنوں پر سور کی تھوتھنیاں فکس تھیں۔پیلے پاپڑ سبز گھاس پر، بکھرے ہوئے تھے۔زمین پر سفر تمام ہوا، کھلے منہ، کھلی ہتھیلوں اور چاروں شانے چت پڑا عبداللہ مراثی اس جہاں پہنچ گیا جو شاید ستاروں سے آگے ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے