بنگلہ دیش نام نہاد جمہوریت سے واپس پاکستان اور برما کی راہ پہ پلٹ پڑا۔ اب وہاں "خالی خولی” سیکولرازم کی بجائے پکی پکی رائٹسٹ حکومت ہوگی۔ دونوں ملکوں کی جماعت اسلامیاں محو رقص ہوں گی۔ فوجی سربراہوں کے باہمی دورے ہوں گے۔ بین الاقوامی کپٹلزم کے تحت او آئی سی کی مزید مضبوطی کی زبانی کوششیں تیز ہوں گی۔ اسرائیل کے مزید مزے ہوں گے۔ سرمایہ داری مزید مضبوط رہے گی ۔ عوامی آزادیاں جہنم واصل ہوں گی۔۔۔

ڈھونڈیے تو کہیں نہ کہیں آپ کو چین کے سرمائے کا رول نظر آئے گا ، پس پردہ بنگلہ دیش کی فوجی بندوق کا رول نظر آئے گا، ملا کے لائوڈسپیکر کا کمال نظر آئے گا ، غیر منظم مڈل کلاسی نوجوان کے کندھوں اور سینوں کے ماہرانہ استعمال کا کمال بھی نظر آئے گا۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ کپیٹلزم کے عالمی مالک اور اس کے علاقائی سجادہ نشین خفیہ اداروں کی رضا سے ہوا۔

ناکام کیا ہوا؟۔ بورژوازی کی قیادت میں نیشنلزم ناکام ہوا۔شیخ مجیب اور اس کی بیٹی کے ہاتھ میں استاد کے بقول دو پتھر تھے۔ ایک وہ آزادی نہ دینے والے ملک یعنی پاکستان کو مارتے تھے اور دوسرا بنگلہ دیش کی کمیونسٹ پارٹی کو۔ لہذا وہاں مزدوروں کی کوئی فیصلہ کن ٹریڈ یونین نہیں ہے، وہاں کوئی انقلابی پارٹی پنپنے نہ دی گئی _۔۔۔۔ بغیر کسی مزاحمت کے سرمایہ داری جاری رہی ۔

اس بورژوا نیشنلسٹ خاندان کی بدقسمتی تو دیکھیے۔ شیخ مجیب سمیت پورا خاندان گھر کے اندر تلوار کی موت مرا۔ پورا خاندان۔ بوڑھے سے لے کر بچے تک، مردسے لے کر عورت تک۔۔ بنگالی فوج نے اپنے بابائے قوم کو بھون کر رکھ دیا۔۔۔۔ ایک حسینہ واجد بچی تھی کہ وہ اس وقت ملک سے باہر تھی۔ انہی رائٹسٹ فورسز نے حسینہ کو بھی معاف نہ کیا۔ برسوں تک انتظار کیا اور پھر وار کردیا۔ اسے ملک بدر کرکے اس مسلمان، بوڑھی عورت کے استعمال کے زیرجامہ کی نمائش کی گئی، اس کے انڈر ویئروں اور برا کے وڈیو بنائے گئے۔ اور اپنے بابائے قوم کے مجسموں کے ماتھے کو چھینیوں ہتھوڑوں کرینوں کی نفرت کے حوالے کردیا۔ کسی عوام کی بے شرمی اور بے شعوری کی انتہا دیکھنی ہو تو یو ٹیوب پہ بنگالی بابائے قوم( بنگلہ بندھو) کے مجسموں کی توہین کے ویڈیوز دیکھیے۔

یوں مسند کو نام نہاد سیکولر، کیپیٹلزم سے چھین لیا گیا۔عوام الناس کے لیے تو ایک درندہ گئی دوسرے درندے کی امپورٹ ہو بھی چکی۔

پاکستان میں ٹراٹسکیوں نے بہت واویلا مچایا کہ یہ گویا عوامی انقلاب تھا۔وہ عوام کے دس آدمیوں کے اجتماع کو بھی ” عوامی تحریک” کا چوغہ پہنانے کے نشہ ای لوگ ہیں۔یورپی پیسے کی مدد سے قائم کنفیوژن پیدا کرنے والے یہ لوگ جان بوجھ کر فلاسفر کے اس کوٹیشن کو چھپاتے ہیں، جس میں کہا گیا کہ: "بے شعور عوام،دشمن کا ہتھیار ہوتے ہیں”۔

اور پھر ذہن و تفکر کو گروی رکھنے والےکچھ دانشوروں کو بنگال کے لوگوں کے باشعور ہونے کا بڑا دعوی ہے۔ یہ لوگ گزشتہ 70 سال تک اس "عوامی شعور” کی جھلکیاں تک دیکھنے کی تکلیف نہیں کرتے۔ خود آج کے گٹر شعور کا تذکرہ نہیں کرتے جب ” باشعور”عوام نے فوج کا کوٹہ ختم کرتے کرتے ملک ہی فوج کے حوالے کر دیا۔

پھر ایک اور عاقل گروہ ہے، جسے ” تحریک” اور خودرو ابھار کا فرق ہی سمجھ نہیں آتا۔ تحریک کے پیچھے انقلابی پارٹی ہوتی ہے ، اور خود رو ابھار کے آس پاس سی آئی اے ہوتا ہے۔انہیں مشرق وسطی میں عرب سپرنگ اور سنٹرل ایشیا میں پنک اور ییلو کی رنگینیاں یاد ہی نہیں رہتیں۔

یہ عجب مخلوق ہے۔ افغانستان میں طالبان پاپولر،عوامی،( ہتھیاراٹھانے اور گلی دونوں) طاقت تھی ایرانی خمینی والوں کی طرح۔۔ طالبان نے نجیب کو اور خمینی والوں نے رضا کو "عوامی تحریک” کے ذریعے اور "محنت کشوں کی بھرپور شمولیت” سے اڑا کر رکھ دیاتھا۔ ۔۔ پتہ نہیں کیوں یہ مخلوق ان دونوں "عوامی تحریکوں” کے حق میں بولنے کی جرات نہیں کرتی۔

ہم ایک بار پھر یاد دلائیں کہ مجیب اور حسینہ سرمایہ داری نظام کے ٹٹو تھے۔ چے گویرا ٹھیک کہتاتھا کہ آج کی دنیا میں حتی کہ قومی آزادی کی تحریکوں کی قیادت بھی بورژوازی کے ہاتھ میں دینے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ مجیب اور حسینہ دونوں کے ادوار میں وہاں شخصی آزایاں نہ تھیں ۔محکوم طبقات کی تنظیم سازی کی راہ میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے گئے۔ بنیادی انسانی حقوق پاپولزم کی سیاہ چادر میں لپیٹ دیے گئے تھے۔۔۔ مزدوروں کسانوں پہ بدترین استحصال جاری رہا۔ اور ” قومی "جمہوریت کے نام پہ بدترین شخصی آمریت لاگو تھی۔۔۔سرمایہ داری نظام کو تقویت دیتے رہے دونوں باپ بیٹی۔

جب مقدس ٹام پین کے امریکہ پہ بائیڈن اور ٹرمپ قابض ہوسکتے ہیں تو عظیم نزرل کے بنگال پہ فوجی قابض ہونے پہ حیرت کیسی؟۔۔۔ مگر تجزیہ کم از جدلیاتی ہونا چاہیے۔ بنگال میں اقتدار گدھے اور بیل کے بیچ منتقل ہوتے رہنے کو انقلاب جیسی شئے سے مشابہت تک دینا بھی یا بددیانتی ہے یا عقل وشعور کا اندھا پن۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے