تنقید کو سائنس بھی کہا جا سکتا ہے ۔ سائنس کا کام منفی اور مثبت کا فیصلہ کرناہے ۔اس لیے کسی شخص کابحیثیت نقاد کسی چیزکے معیار کو پرکھنا او ر جانچنا انتہائی عرق ریزی کا کام ہوتاہے ۔ ہمارے ہاں تنقید تو بہت کی جاتی ہے مگر یہ تنقید منفی اورغیر ادبی رجحان کا سبب بنتی ہے ۔وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو تنقید کا کام اُس وقت شروع ہوتا ہے جب ہر طرف معیار ی ادب اور اعلیٰ معاشرتی روایات پروان چڑھ چکی ہوں۔ ایسی صورت میں چوں کہ تمام چیزیں معیاری ہوتی ہیں۔ اس لیے تنقید کی زیادہ ضرورت نہیں رہتی۔لیکن اگر ہمارے ہاں حکومت سے لے کر سیاست تک،معاشرے سے فرد تک ہر طرف مایوسی اور غیر سائنسی رجحانات عام ہوچکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ معاشرتی رہنمائی کا فقدان ہے ۔
ایسے ماحول میں اگر کوئی مثبت سوچ اور نظریے پر قائم ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ایسی سوچ ا و رفکر کا مالک جاوید اختر وہ شخص ہے، جو محنت اور محبت کاپروانہ لیے آگے بڑھ رہا ہے ۔اُس کی محنت کا ثبوت اس کی علمی و ادبی خدمات ہیں اور جس شخص کا ہاتھ جمالیات کی نبض پر ہو تو وہ کیوں کر محبت سے دور ہوسکتا ہے ۔ اُس کی محبت کا جذبہ آفاقی ہے ۔اس نے جمالیات پر پوری کتاب ”لینن اور جمالیات“کے نام سے لکھ کر محبت کے قافلوں کے نام کی ہے۔
زیرِ نظر کتاب اُس کی تازہ تصنیف ہے ۔اس کتاب کا مواد اچھی موسیقی کی طرح بااثر ہے ،جس کو بار بار سننے کے باوجود دل نہیں بھرتا ہے ۔اس لیے یہ کتاب بار بار پڑھنے پر مجبور کر تی ہے ۔کم از کم مجھے ایسی کم کتابیں ملیں، جن کے پیراگراف بار بار پڑھنے سے اکتاہٹ نہیں ہوتی ہے۔
اس کتاب کو ”سنگت اکیڈمی آف سائنسز“ کوئٹہ نے چھاپا ہے۔یہ 128 صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔اس کا انتساب کچھ اس طرح ہے ”بھگت سنگھ او راس کے کامریڈوں کے نام،جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر آزادی او رسوشلسٹ انقلاب کا علم سرنگوں نہیں ہونے دیا“۔یہ کتاب 500روپے ہدیہ کے ساتھ مری لیب شیر محمد روڈ کوئٹہ سے دستیاب ہے ۔اس کتاب کی فہرست کے مطابق ”پیش لفظ“ڈاکٹر شاہ محمد مری نے لکھا ہے۔ اور صاحب کتاب کے ”دیباچہ“کے علاوہ یہ کتاب "سجاد ظہیر کی تنقید نگاری”، "ظہیر کاشمیری کی تنقیدی جہات”، "علی سردار جعفری کی تنقید”اور "فیض بہ حیثیت نقاد”ایسے ابواب پر مشتمل ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے