30جون کے شمارے میں برژنیف اور نکسن کے مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ تفصیل سے دیا گیا ( تقریباً ڈیڑھ صفحے ) ۔ کچھ سائنسی خبریں اور ملک میں پارٹی کی سرگرمیوں کی باتیں ہیں۔ مگر مجھے یہ ٹکڑا یہاں دینا ہے :
”سوشلسٹ دانشوروں اور سوشلسٹ کارکنوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ مزدوروں اور کسانوں کو اُن کے طبقاتی کردار سے آگاہ کریں۔ انہیں طبقاتی شعور دیں، انہیں منظم کریں ۔ اور اپنے علم سے انہیں لیس کریں تاکہ وہ عمل کے میدان میں اتریں اور پرانے سماج کو ڈھا کر اسے از سر نو تعمیر کریں ۔ یہ کام خاصا کٹھن ہے ۔ لیکن اس کام کو کیے بغیر انقلاب کا راستہ ہموار نہیں ہوسکتا۔ ۔۔۔“
7 جولائی کا شمارہ ایک سرخی لیے ہوئے ہے : نیا سامراجی گٹھ جوڑ ۔اس خوبصورت مضمون میں ہمارے خطے میں شاہ ایران کے رول کی تفصیل دی گئی ہے ۔ اسے امریکہ کا ٹھیکیدار قرار دیا گیا اور ہمارے خطے میں ہر برائی اور بدقسمتی کا ذمہ دار اسی کو قرار دیا گیا ۔ بالخصوص بلوچوں کے لیے ۔ وہاں 900امریکی مشیروں کی موجودگی کا ذکر ہے ، اسرائیل کے ساتھ اس کے نفرت انگیز تعلقات کا تذکرہ ہے ۔ وہاں امریکی فوجی اڈوں کی بڑھوتری کی بات کی گئی اور پاکستان کے خفیہ اداروں کی تربیت میں ایران کے ہاتھ کا تذکرہ کیا گیا۔
14جولائی کے شمارے کا اہم عنوان ہے : لیفٹ کسے کہتے ہیں ، لیفٹ اتحاد کے کیا معنی ہیں۔
وہ پارٹیاں جو اپنے عمل سے اُن سامراجی اثرات کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کرتیں جو عوام پر چھائے ہوئے ہیں بلکہ ان پر پردہ ڈالتی ہیں وہ لیفٹ نہیں ہوسکتیں ۔ وہ پارٹیاں یا عناصر جو سوشلسٹ خیالات رکھنے والوں میں انتشار پیدا کرتے ہیں ، سوشلسٹ فلسفہ کی تعلیم اور اس کے مطابق نووار دسوشلسٹوں کی تربیت کا فریضہ انجام نہیں دیتے بلکہ سیاست کے بجائے افراد کی تنقید و توصیف کی بکواس سے ان کے ذہنوں کو پریشان کرتے ہیں وہ لیفٹ نہیں بلکہ انٹی لیفٹ ہیں ۔ وہ پارٹیاں اور عناصر جو بین الاقوامی اور قومی صورت حال اور روز مرہ کے بین الاقوامی اور قومی عوامل کا محنت کش تحریک کے نقطہ نظر سے تجزیہ ووضاحت نہیں کرسکتیں وہ جاہلِ محض ہیں اور وہ محنت کش طبقہ کی راہنمائی کرنے کے اہل نہیں ۔ ان کا لیفٹ محض فیشن ہے ۔ اسی طرح وہ افراد یا پارٹیاں جو موقع پرستی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں وہ کچھ بھی ہوں لیفٹ نہیں۔
21جولائی 1973کے شمارے میں بڑا مضمون بھٹو کی حکومت سے یہ مطالبہ تھا کہ ” امریکہ کی حاشیہ برداری چھوڑیئے “۔ ” آئین پر عملدرآمد کا سوال“ اس شمارے کا اداریہ ہے جس میں کہا گیا ”۔۔۔ وہ کھیل جو بھٹو نے سرحد و بلوچستان میں کھیلے ہیں اور وہ ظاہر ہے کہ فوجی اور سول نوکر شاہی کے بل پر ہی کھیلے گئے ہیں اُن سے احتراز کرے“۔ شمارے میں مزدوروں کی سرگرمیوں کی رپورٹیں ہیں۔
28 جولائی1973میں ” مزدور اتحاد کا مسئلہ ” کے عنوان سے ٹریڈ یونینوں کو ایک مرکزی تنظیم میں اکٹھا ہونے کی حمایت کی گئی۔ ایک مضمون ممتاز دانشور اور کمیونسٹ راہنما فیروز الدین منصور کے حالات زندگی اور جدوجہد پر ہے ۔” افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ“ نامی مضمون 17جولائی کو سردار داﺅد کی جانب سے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے پر لکھا گیا ہے۔”یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ اب بادشاہوں کا دور ختم ہوگیاہے ۔ اور افغانستان میں بادشاہت کے خاتمے پر کوئی آنکھ آنسو نہیں بہائے گی“۔
4 اگست 1973کے شمارے میں ایک فلسفیانہ مضمون ”علم فلسفہ کی تاریخ“ کے عنوان سے ہے ۔ مزدوروں کی سرگرمیوں کی رپورٹیں ہیں۔ ”بلوچستان جلتا ہے “ نامی جالب کا کلام چھپا ہے ۔ اور جنگی قیدیوں کے معاملے پر پاک بھارت مذاکرات کرانے کے حق میں مدلل مضمون ہے ۔
11 اگست کا شمارہ ” بائیں بازو کے اتحاد کی کوششیں“ کا عنوان لیے ہو ئے ہے ۔ جس میں اتحاد کے لیے کی گئی کوششوں اور ان کی ناکامیوں کا تفصیلی تذکرہ ہے ۔ اور اس خواہش کا اظہار ہے کہ کوششیں جاری رکھنی چاہییں۔ مضبوط نہیں تو کسی الائنس وغیرہ کے امکانات تلاش کرنے چاہییں۔
ایک مضمون 14اگست کے نام سے ہے جس میں اصل آزادی کے حصول کی بات کی گئی ۔ جاگیرداری کے خاتمے کو اِس حقیقی آزادی کی اہم ترین نشانی قرار دیا گیا ہے اور سوشلسٹوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت مزدوروں کسانوں اور محنت کش دانشوروں کوشعوری طور پر متحد اور منظم کرنے میں صرف کریں۔
18اگست 1973کا شمارہ” پاکستان کے عوام بلوچ عوام سے یک جہتی کا ثبوت دیں“۔ کے اہم موضوع سے چھپا ہے :
”پاکستان کے اس آئین کی مہورت ،جس کے متعلق یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ پہلا آئین ہے جو عوام کے نمائندوں نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ بلوچستان کے معروف رہنماﺅں میر غوث بخش بزنجو، عطاءاللہ مینگل ، خیر بخش مری اور ان کے ان متعدد ساتھیوں کی گرفتاریوں کی صورت میں کی گئی جن کی صحیح تعداد اور سب نام ابھی پوری طرح نہیں بتائے گئے ہیں۔ آئین کی یہ مہورت وزیراعظم بھٹو صاحب کی اس جمہویت کی بھی مہورت ہے جس کا انہوں نے اپنی تقریر میں راگ الاپا تھا جو وزیراعظم منتخب ہونے پر انہوں نے نیشنل اسمبلی میں کی تھی اور حزب مخالف کو افہام و تفہیم کی نصیحت فرمائی تھی اور ساتھ ہی دھمکیاںبھی دی تھیں ۔اس کے بعد ہی بلوچستان کے رہنماﺅں کی گرفتاریاں اس جمہوریت کے نقوش اور اجاگر کرتی نظر آرہی ہیںجو موجودہ حکومت پاکستان پر مسلط رکھے رہی ہے اور آئندہ بھی رکھنا چاہتی ہے ۔ وہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کا وجود نہ ہوتے ہوئے ان گرفتاریوں سے صوبائی اسمبلی کی اکثریت کو مقید رکھ کر اور سزائیں دلاکر اپنا وہ راج وہاں قائم رکھنا چاہتی ہے جس کا آغاز اس نے اکثریتی پارٹی کی حکومت کو برطرف کر کے کیا تھا۔ اور بڑے جوڑ توڑ اور داﺅں گھات سے ایسی حکومت نامزد کردی تھی جو اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد حاصل کرنے کی اہلیت نہ رکھتی تھی۔
”حقیقت یہ ہے کہ بھٹو صاحب آج اسی راستے پر گامزن نظر آتے ہیں جس پر جنرل یحیٰ خان ان کے مشوروں کے مطابق یا بغیر مشوروں کے چلے تھے ۔ جو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر رہا سہا پاکستان بھٹو صاحب کی میزبانی میں دے گئے تھے ۔ یحیٰ خان نے مشرقی پاکستان کے پاکستانیوں کو فوجی کشت و خون کا نشانہ بنایا تھا ۔ بھٹو صاحب بلوچستان کے پاکستانیوں کو بناتے رہے ہیں۔
”بھٹو صاحب نے اپنی کارگزاریوں سے صرف بلوچستان کے عوام کو ہی نہیں تمام پاکستا ن کے عوام کو انتہائی مایوس کردیا ہے کیونکہ اول تو ان کے انتخابی نعروں کا پول کھل کر وہ بے نقاب ہوئے تھے اور اب یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ ان کا ہر قدم اور ہر پالیسی صرف عوام دشمنی کے مترادف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمران بورژوا عوام کے استحصال اور لوٹ کو برقراررکھنے کے لیے چولے بھی بدلتا ہے مطلب برآری کے نئے جھوٹ بھی بولا کرتا ہے اور فریب سے بھی کام لیتا ہے اس کے باوجود فریب خوردہ عوام کچھ اس کا موثر اور فیصلہ کن جواب دینے سے بھی ہچکچاتے رہتے ہیں۔ لیکن جب حکمران بورژوازی کو حسب جاہ و دولت دیوانہ بنا دیتی ہے اور وہ خود ملک کو داﺅ پر لگا دیتی ہے تو عوام کی ہچکچاہٹ اور تذبذب کے بند ٹوٹ جاتے ہیں ۔ بھٹو کی حکومت نے بلوچ رہنماﺅں کو گرفتار کر کے اس بند کو توڑنے کا اقدام کیا ہے اور اپنے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت کی آگ بھڑکانی ہے۔
” یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالنے سے آج تک صوبائی اور علاقائی مصیبتوں کو ہتھیار بنا کر پنجابیوں کو پختونوں ، بلوچوں اور سندھیوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی اور عوام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے متواتر جتن کئے جس کا ثبوت ان کی پارٹی اور ان کی پارٹی کے گورنر کا وہ عمل ہے جس میں حزب مخالف کے روالپنڈی والے جلسے کو پنجابیوں پر پختونوں کی چڑھائی قرار دے کر خون میں ڈبو دیا گیا ۔ دوسرا ثبوت بلوچستان میں فوجی اقدامات اور بلوچستان کی برطرف شدہ منتخب حکومت کے ارکان کو بہتام طرازیوں سے رسوا کرنے کی کوششوں سے ملتا ہے اور ایسی ہی وہ کاروائیاں بھی اس کا ثبوت ہیں جو سندھ میں وہاں کی صوبائی حکومت کر چکی ہے اور کرتی رہتی ہے ۔
”پاکستان کے نئے آئین کے نفاذسے عوام کو توقع تھی کہ ملک ہنگامی حالت کی قابل نفرت و دلدل سے نکلے گا۔ سیاسی کارکن ، طلبا اور مزدور رہنما جیلوں سے نکلیں گے ۔ متشدد قوانین واپس لیے جائیں گے، پریس کو حکومت کی غلامانہ اور منافقانہ چاپلوسی سے نجات ملے گی ۔ سیاسی پارٹیوں کے جلسے فیڈرل پولیس اور پیپلز پارٹی کے زر خرید غنڈوں کے حملوں سے محفوظ ہوجائیں گے اور سیاسی سماجی زندگی آزادی سے اپنی جمہوری قدروں کو بروئے کار لاسکے گی ۔ اور اس سب کے نتیجے میں عوام کے وہ مسائل جو بھوک ، بے روزگاری اور گرانی کی صورت میں عوام کا کچومر نکال رہے ہیں ان کے حل کرنے کا سوال زیر غور آئے گا۔ لیکن آئین کے نفاذ کے فوراً بعد بلوچستان کے رہنماﺅں کو لایعنی الزامات کے بہانے سے ایسے وقت میں گرفتار کر کے جب کہ تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل اور اس ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام نکتہ خیال کے لوگوں کے اشتراک اور اتحاد کی ضرورت تھی بھٹو صاحب کی حکومت نے عوام کے مسائل اور تازہ مشکلات کو حل کرنے کے بجائے نہایت غلط جوا کھیل کر ملک کو نہایت نازک اور خطرناک صورت حال سے دو چار کردیا ہے ۔ بھٹو صاحب کا یہ عمل نیا نہیں وہ تو اس راہ پہ پہلے سے گامزن ہیں۔ سیاسی مسائل کو پیدا کرنا اور الجھا کر معاشی اور سماجی مسائل کو پس پشت ڈال دینا ان کا متواتر عمل رہا ہے ۔ ان کا یہ عمل وزیراعظم بننے کے بعد سے نہیں ہے بلکہ اُس وقت سے ہے جب سے کہ انہوں نے اقتدار کی کنجیاں اپنے پرانے رفیق جنرل یحیٰ خان سے لیں ۔اور اپنی جیب میں ڈال لیں۔ اس لیے پاکستان کے تمام عوام اور بالخصوص محنت کش عوام کے سامنے یہ سوال ایک بڑے استفہامیہ کی صورت میں آگیا ہے کہ کیا وہ بھٹو صاحب کے اعمال اور بالخصوص تازہ غیر جمہوری قابل مذمت و ملامت اس عمل کی مذمت کر کے ہی چپ ہو جائیں جو انہوں نے جمہوریت کو دفن کرنے کے لیے کیا ہے اور اس سے پہلے کرتے رہے ہیں ،یا ان کے خلاف ایسے موثر اقدام کریں جن کے نتیجے میں پاکستان کو پیپلز پارٹی کے پیدا کردہ گرد اب سے نکالا جاسکے اور عوام کے معاشی اور سماجی مسائل کے حل کرنے کی راہ کھلے ۔
“ان قابل نفرت دیواروں کو مسمار کرنے کے لیے درہ خیبر سے کراچی کے کلفٹن تک پاکستان کے محنت کش عوام مزدوروں، کسانوں، طلباءاور دانشوروں اور تمام سیاسی کارکنوں کو ان جمہوریت کش اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے ۔نیز بلوچستان کے تمام جائز اور جمہوری حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر کے بلوچستان کے عوام کو اپنے تعاون ،ہمدردی اور یک جہتی کا یقین دلانا چاہیے اور اس مطالبے پر بھی پیہم زور دینا چاہیے کہ ملک سے ہنگامی حالات ختم کیے جائیں ،تمام سیاسی کارکنوں ،مزدور رہنماﺅں اور طلبا کو خواہ انہیں سزائیں مل گئی ہیں یا نظر بند و پابند ہیں جیلوں سے نکالا جائے ۔ اور بلوچستان میں پھیلائی ہوئی فوجوں کو بیرکوں میں واپس لایا جائے ۔جن ذمہ دار افسروں نے بلوچستان کے عوام پر تشدد کیا ہے ان کو عدالت ہائے انصاف کے سامنے پیش کیا جائے۔ عوام کو بھٹو صاحب کو یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ وہ اگر انہیں تختِ حکومت پر بٹھاسکتے ہیں تو انہیں اس پر سے اتار دینے کی قدرت بھی رکھتے ہیں!“۔
25 اگست کا شمارہ ”تاریخی ضرورت“ کے عنوان سے ایک فلسفیانہ مضمون ہے ۔ ” اسی طرح سیلاب اور حکومت کی نا اہلی“ پر بھر پور لکھا گیا مضمون ہے ۔ راولپنڈی پارٹی کے اجلاس کی رپورٹ اور قراردادیں ہیں۔ ایک قرار داد میں کہا گیا کہ “۔۔۔۔ بلوچستان کا مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کرتا جارہاہے اور یہ معاملہ اب جمہوریت کے مسئلہ سے بڑھ کر ملکی سا لمیت کا مسئلہ بن رہا ہے ۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان کی غیر نمائندہ حکومت اور گورنر کو برطرف کیا جائے ، وہاں سے فوج واپس بلائی جائے اور وہاں کے منتخب لوگوں کی حکومت بحال کی جائے ۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے