1 ستمبر 2024 کو گیارہ بجے سنڈے پارٹی سنگت آف سائنسز اکیڈمی میں منعقد ہوا۔سنگت جاوید اختر نے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا اور بنگلہ دیش میں سیاسی تنائو پر مباحثے کی تجویز پیش کی۔اس تجویز پر اکثر دوست متفق ہوئے مگر دو دوستوں نے اعتراض بھی ظاہر کیا کہ بنگلہ دیش سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔مزید اس موضوع پر دیگر دوستوں نے بھی سوال کیئے ۔مثلاً : شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش سے ملٹری نے بدر کیا تو اب بنگلہ دیش کی سیاسی ڈائنامکس پہ ملٹری کا کتنا اثر رہے گا ؟۔اسکے علاوہ ایک دوست نے سوال کیا کہ حسینہ واجد نے امریکا پر حکومت گرانے کا الزام عائد کیا اس میں کس قدر سچائی ہوسکتی ہے ؟۔اس سوال پر سنگت رفیق طالب نے کہا کہ امریکا ہمیشہ مضبوط گھوڑے کا ساتھی رہاہے۔اس لیے بنگلہ دیش کی ملٹری کے ساتھ امریکا کی حمایت یقینی ہے۔مزید ایک سنگت نے سوال کیا کہ اکثر دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ بنگلہ دیش تو آزاد ہوا مگر بنگالی اب بھی غلام ہیں گویا بنگلہ دیش کی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی۔لیکن دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال پاکستان سے چنداں بہتر ہے۔اور وہاں معاشی خوشحالی بھی ہے تو بنگلہ دیش کی آزادی بے سود کیوں کر ہو ؟

اسکے بعد ایک سینیئر سنگت نے بنگلہ دیش کی تاریخ اور بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال پر جامع گفتگو کی۔

گفتگو کا آغاز اس جملے سے کیا کہ "بنگلہ دیش سے ہمارا کوئی تعلق نہیں” اس سے کوئی برا فقرہ نہیں شاید۔

یاد رکھیں!

ہم بیک وقت نیشنلسٹ بھی ہیں اور انٹرنیشنلسٹ بھی ہیں۔اس لیے کہ ہمارا عالمی سیاست سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہے۔

سنگت کے دوستوں کو عالمی سیاست پر بھی علم ہونا چاہیئے۔ہر ملک کی صورتحال پر کم از کم چھ سات فکرے بول سکیں وگرنہ یہاں آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس کے بعد "امریکہ ہمیشہ مضبوط گھوڑے کا ساتھی رہاہے ” جملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ امریکا پوری دنیا میں طاقت کا سرچشمہ ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ ہمیشہ طاقتور کے ساتھ کھڑا رہتا ہے درست نہیں کیونکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیئے یہ بعض اوقات کمزور کے ساتھ بھی کھڑا ہوجاتا ہے اور اسکی زندہ مثال مشرقِ وسطی کے ممالک ہیں۔ مثلاً؛ سعودی عرب،بحرین،قطر وغیرہ۔ مشرقِ وسطی میں تیل کے ذخائر ہیں اس لیے امریکا ان اقلیتی حکمرانوں کی پشت پناہی کرہاہے ۔اور انہیں ہمہ وقت اقتدار سے بے دخل کرنے کی بھی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔

اسی طرح پاکستان میں ضیاء کی حکومت سب سے کمزور حکومت تھی اسکے باوجود گیارہ سال تک جاری رہی کیونکہ امریکا کی آشیرباد اسے حاصل تھی۔

 

اسکے بعد بنگلہ دیش کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کبھی بھی جمہوریت نہیں آئی ہمیشہ آمریت کا راج رہاہے جو ہنوز جاری ہے۔بنگلہ دیش کی سیاست میں شیخ مجیب کا کردار اتنا نہیں تھا وہ تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کر چکا تھا۔ پوری عوامی تحریک عبدالحمید بھاشانی نے چلائی لیکن اس کے کردار کو روند کر شیخ مجیب ملک کا بادشاہ بنا۔

حالیہ سیاسی اتار چڑھائو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "تھرڈ ورلڈ ممالک” میں ہجوم ہمیشہ ایک مسئلہ رہاہے۔

یاد رکھیں! ہر ہجوم اچھا نہیں ہوتا،کچھ ہجوم دوزخ کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔

"موب” وہ اچھا ہوتا ہے جو آرگنائیزڈ ہو،نظریاتی ہو،جس کے پیچھے کوئی سیاسی پارٹی ہو۔

پاکستان میں بھٹو دور میں Unogranized mob کے نقصانات دیکھے گئے۔”روٹی،کپڑا اور مکان” جیسے نعرے بلند کرکے عوام کو ہانکا گیا نتیجاتاً اس موب نے پورے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔اسی طرح عمران خان بھیڑ جمع کرتا رہا۔” موب ” اندھی تقلید میں اسےانقلابی سمجھتا رہا۔اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔

اس وقت پاکستان ایک یوتھ بلج ملک ہے جسکی 60 فیصد آبادی یوتھ کی ہے۔بدقسمتی سے اس آبادی کو نہ اپنی سیاست کا پتا ،اور نہ ہی تحریکوں کے نشیب وفراز کا ۔یاد رکھیں ! یہ سوشل میڈیا کی دنیا ہے،یہی لیڈ کرتی ہے۔جو سوشل میڈیا پہ دیکھایا جاتاہے عوام وہی دیکھتا ہے اور عمل کرتا ہے۔ عمران خان والوں کے پاس وہ مشینری ہے جو اسکی ہر بات وئرل کردیتی ہے۔جس سے نوجوانوں کا برین واش ہوتا ہے۔یہی مسائل بنگلادیش میں بھی ہیں۔

بنگلادیش میں حالیہ ہونے والے الیکشن ایسے ہی ہوئے جیسے بلوچستان میں۔اپوزیشن پارٹیز کو دیوار سے لگایا گیا اور دھاندلی کی ایک بدترین مثال قائم کی گئی۔

پوری دنیا اس وقت کلاس سسٹم میں جکڑا ہوا ہے اس لیے ہم بنگلادیش کے ساتھ ساتھ پوری دنیا سے براہ راست Concerned ہیں۔

ایک سنگت نے سوال کیا کہ بنگلادیش میں حالیہ تحریک کی وجہ کوٹہ سسٹم تھا جس سے یوتھ تنگ آچکا تھا وگرنہ باقی مسائل سے تو عوام عادی ہوچکے ہیں۔

جس پر بتایا گیا کہ ایسا ممکن نہیں کہ عوام مسائل سے عادی ہوجائیں۔انسان مسائل سے تنگ آکر کبھی نا کبھی تو اٹھ جاتا ہے۔

ویسے ہوتا یہ ہے کہ آزادی کی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد نمایاں لوگوں کو ایوارڈز دیئے جاتے ہیں۔

لیکن بنگلہ دیش میں ایوارڈز اور مراعات کا سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا۔

۔

تھرڈ ورلڈ ممالک میں پہلے ہی نوکریاں نا ہونے کے برابر ہیں پھر 30 فیصد نوکریاں فریڈم فائیٹرز کے خاندانوں کو مل رہی تھیں اس لیئے مجبوراً یوتھ کو اٹھنا پڑا۔

آ

شیخ مجیب الرحمن کو خاندان سمیت بھون کے رکھ دی گیا اتھا۔

حسینہ شیخ ایک انتہائی ڈکٹیٹر خاتون تھی جس نےطاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔اقتدار پہ آتے ہی پہلے اپنے خاندان کے قاتلوں کو ایک ایک کرکے ماردیا۔اسکے بعد اس خوف سے کہ کوئی اسے قتل نا کردے یا اقتدار چھین نا لے اس لیے اس نے ہر اٹھنے والی آواز کو طاقت سے دبایا۔وہ تو deserve ہی نہیں کرتی تھی وزیر اعظم بننا لیکن چونکہ وہ سرمایا داری نظام کا وفادار تھی اس لیے ایک لمبے عرصے تک حکومت کرتی رہی۔سرمایہ دار اپنے سرمائے کی حفاظت کے لیے ہمیشہ اپنے لوگ لانچ کرتا رہتا ہے جس طرح پاکستان میں شوکت عزیز کو لایا گیا ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کون ہے ؟ جو ورلڈ بینک کا ایک ملازم تھا۔مقصد صرف اور صرف سرمایہ داری نظام کی چوکیداری تھی۔اس لیے بنگلہ دیش میں وزیر اعظم حسینہ ہو یا خالدہ ضیاء سب کیپٹلزم کے چوکیدار ہیں۔

جو بھی حکمران بنے ہمارے لیے سب ایک جیسے ہیں،سب کیپٹلزم کے وفادار ہیں۔تاریخ شاہدہےکہ بنگلہ دیش میں کوئی روشن فکر ہو یا جمہوری سب کو ہمیشہ کرش کردیا جاتا ہے۔اس وقت سب سے کمزور کمیونسٹ پارٹی بنگلہ دیش میں ہے جسے ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

 

ایک سنگت نے گفتگو کے درمیان میں کہا کہ زندگی پھر بھی چلتی رہتی ہے۔ جس پر کہا گیا کہ ہاں یہ تو ایک آفاقی سچ ہے ۔زندگی کبھی نہیں رکتی ۔ حالات جس قدر نامساعد ہوں زندگی پھر بھی رواں رہتی ہے۔زندگی نہیں رکتی،جس دن زندگی کو رکاوٹ ہو پھر تو دنیا تباہ ہوجائے گی۔زندگی کو دوام حاصل ہے ۔لائف ابدی ہے۔

دنیا تو قائم ہی اس لیئے کہ یہ چلتی رہتی ہے۔

پھر شکیل بدیوانی کے اشعار گنگناتے ہوئے سنگت رفیق طالب نے پڑھے کہ۔

یہ زندگی کے میلے

دنیا میں کم نہ ہوں گے

افسوس ہم نہ ہوں گے

افسوس ہم نہ ہوں گے

ہوں گی یہیں بہاریں

اُلفت کی یادگاریں

بگڑے گی اور بنے گی

دنیا یہیں رہے گی

ہوں گے یہی جھمیلے

افسوس ہم نہ ہوں گے

 

اسکے بعد دوبارہ موضوع کو جاری رکھتے ہوئے کہا گیا کہ فی الحال پاکستان میں مزدوروں کی کوئی پارٹی نہیں ہے اور نا ہی حکمران بننے دیتے ہیں۔پنجاب کی تیرہ کروڑ آبادی میں سے بمشکل دس ہزار لوگ انقلابی ہوں گے۔شاید یہ تعداد بھی مبالغہ آرائی ہو ۔اس لیے کٹھن حالات میں سنگت کے دوستوں کو آگے بڑھنا ہے، تعداد بڑھانی ہے، سنگتوں کا شعور بڑھانا ہے،آرگنائیزڈ ہونا ہے۔

اسکے بعد سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ایک ساتھی نے گفتگو کی اور کہا کہ سنڈے پارٹی کا پروگرام بہت اچھا لگا شعوری حوالے سے بھی اور ادبی حوالے سے بھی۔اس لیے سنگت اکیڈمی امید کی ایک کرن ہے۔ اور جہاں تک بنگلہ دیش کا سوال ہے تو وہاں کوئی انقلاب نہیں آیا بلکہ ایک چینج تھا۔ہمارے ہاں مسلہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی اپنے حقوق کے لیئے متحد نہیں ہوتے ۔ایس بی کے نوکرویوں کے مسلے کے حوالے سے ہم نے ایک احتجاج کی کال دی تو تین ہزار ملازمین میں سے صرف پندرہ ملازمین آئے جو کہ انتہائی مایوس کن ہے۔

 

سنگت ظہور زیبی نے کہا کہ اگر انقلابیوں کی تعداد نہیں بڑھ رہی ہے تو جو لوگ خود کو انقلابی اور دانشور سمجھتے ہیں وہ بھی تو دور دراز علاقوں میں سفر کریں ۔لوگوں کو موبلائیز کریں۔

 

 

کوہلو میں پبلک لائبریری پر قبضہ کے خلاف متفقہ قرارداد پیش کیا گیا کہ۔

کوہلو میں پبلک لائبریری کو قبضہ مافیا سے واگزار کیا جائے۔ لائبریری پر قبضہ قومی شعور پر قبضہ ہے۔

اس دورانیہ میں لائبریری کے لیئے مختص ہونے والے فنڈ کو یاٹلائیز کرکے کتابیں خریدی جائیں۔اور اسے پبلک کے مطالعہ کے لیے کھلا جائے۔

ہم تمام اسٹوڈنٹس تنظیموں، سیاسی پارٹیوں ،سماجی شخصیات اور باقی دوستوں سے گزارش کرتے ہیں کہ قبضہ کے خلاف آواز اٹھائیں اور لائبریری فعالیت میں اپنا کردار ادا کریں۔

اسکے بعد شاعری کا سیشن شروع ہوا۔

سب سے پہلے سنگت رفیق طالب نے ہمیشہ کی طرح ایک خوبصورت غزل سنائی اور سامعین سے خوب داد وصول کی۔

اسکے بعد سنگت جوھر بنگلزئی نے براوھی زبان میں بہترین شاعری سنائی۔جوھر بنگلزئی صاحب کے بعد

نوجوان شاعر زبیر واھگ نے ایک نظم سنائی اور اپنی شاعری میں نیچر کی ایسی منظر نگاری کی کہ سننے والے جھوم اٹھے اور عش عش کرنے لگے۔

نوجوان شاعر کے بعد ظہور زیبی صاحب نے ایک ایسی انقلابی نظم پڑھی کہ سننے والوں کا لہو گرما دیا ۔انکی شاعری کے بعد پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا ۔سنگت جاوید نے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور پرگرام برخاست کرنے کا اعلان کیا ۔

آخر میں گروپ فوٹو لیا گیا۔اور دوست رخصت ہوئے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے