محکوموں کی طرفدار انجمن یا پارٹی محض اُن کی طرفدار ہی نہیں بلکہ اُن کا ہراول دستہ بھی ہوتی ہے ۔ یہ محکوموں مظلوموں کو اکٹھا کرتی ہے ، انہیں قیادت مہیا کرتی ہے اور انہیں استحصالی نظام کے خاتمے اور منصفانہ نظام کے قیام کے لیے تیار کرتی ہے ۔
اور یہ سارا کام انہیں سیاسی تعلیم دےے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ انجمن محکوموں مظلوموں کی استاد بھی ہے ، آرگنائزر بھی ہے اور راہنما بھی ہے ۔ اسی لیے اس کے ارکان کے لیے لازمی ہے کہ وہ سائنسی علم اور شعور حاصل کریں ، سماج کی ترقی و تبدیلی کے قوانین جانےں اور اس علم کا سماج کے ٹھوس حالات پہ اطلاق کریں ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی تعلیم کسی بھی انقلابی سیاسی گروپ یا پارٹی کے سیاسی کام کا لازمی حصہ ہوتا ہے ۔یہ پارٹی یا گروپ سیاسی سائنٹفک تعلیم کا اعلیٰ ترین ادارہ ہوتا ہے۔اسی لیے لازم ہے کہ سیاسی تعلیم پارٹی لائف کی ہر سطح پر ایک لازمی جزوِ ہو۔ ایک ایک پارٹی ممبر کے دل میں بٹھایا جائے کہ وہ خواہ کتنا ہی عالم فاضل کیوں نہ ہو،کبھی بھی ایجوکیشن کی ضرورت سے بڑا نہیں ہوتا۔
مارکسزم ایک زندہ سائنس ہے ۔ اس کا مقصد سماج کو تبدیل کرنا ہے ، محض اس پہ غور کرنا نہیں۔ لہذا انقلابی تعلیم لوگوں کو نہ صرف انقلابی اصولوں اور تھیوری کی طرف راغب کرتا ہے بلکہ وہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ایک بدلتی ہوئی دنیا پہ سائنسی تجزیہ کا کس طرح اطلاق کرنا ہے۔پارٹی ممبر پارٹی لٹریچر کو محض رٹا لگانے اور جگہ جگہ سناتے پھرنے کے لیے نہیں پڑھتے۔ نہ ہی وہ اسے مطالعے کی عادت کی وجہ سے پڑھتے ہیں۔ وہ تو مارکسزم کا جوہر، ا±س کا مغز، اُس کا موقف ،اس کا نقطہِ نظر اور طریقِ کار پڑھتے ہیں۔ مارکسزم پڑھنے کا ایک بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری کی حکمران طبقات کے خلاف نفرت بڑھے ، کم نہ ہو۔ چنانچہ مارکسسٹ ایجوکیشن نہ صرف نئے ممبروں کے لیے ضروری ہے بلکہ پرانے اور سینئر ممبروں کے لیے بھی ہمہ وقت اہم ہوتا ہے۔
پارٹی ممبروں کا ایک فرض یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کے طبقاتی کردار سے آگاہ کریں۔ انہیں طبقاتی شعور دیں ،انہیں منظم کریں، اور اپنے علم سے انہیں لیس کریں ۔ تاکہ وہ عمل کے میدان میں اتریں ۔ اور وہاں بہت کم نقصان پہ پرانے سماج کو ڈھادیں اور اُس کی جگہ پہ اپنی تعلیمات کے مطابق نظام تعمیر کریں۔
یہ جو ہم آج کل کسی لان یا ہال میں30،40 افراد بیٹھ کر سیاسی معاملات پہ بات کرتے ہیں، اس کا مارشل لائی پاکستان میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔اس طرح کے اجتماعات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس کے بغیر آج کا سماج چلتا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے 30 سالوں سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز ہر ماہ دو بڑی نشستیں منعقد کر رہی ہے ۔ ان میں مقالے پڑھے جاتے ہیں ، لیکچر ہوتے ہیں، سوال جواب اور ڈسکشن ہوتے ہیں ۔وہاں موقف اپنا یا جاتا ہے ، سیاسی ورکر اپنے حلقوں میں پھر اسی بات کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔سب کا موقف وہی ہوتا ہے جو انہوںنے اس نشست میں بنایا تھا۔۔۔۔۔ یہ بہت زبردست کام ہے ۔
مگر، بہر حال یہ سٹڈی سرکل میں شمار نہیں ہوتا تھا۔
سٹڈی سرکل میں زیادہ سے زیادہ 7 یا 9 افراد ہی ہوتے ہیں ۔ ایسے چھوٹے گروپوں میں سیکھنے سکھانے کا کام کامیاب رہتا ہے۔عقلی بنیادیں بڑے مجمعے میں نہیں، انہی چھوٹے سٹڈی سرکل گروپس سے ہی مضبوط ہوتی ہیں۔وہاں سیر حاصل ڈسکشن تو کیا، ڈھنگ کا سوال جواب بھی نہیں ہوسکتا ۔ اتنے بڑے مجمعے میں سوال پوچھنا ویسے ہی جھجک کی بات ہوتی ہے ۔ اور اگر جرات کر بھی لی تو وقت اس قدر کم ہوتا ہے کہ ایک آدھ شخص ہی سوال کر پائے گا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مجمع میں سب لوگ شعوری اور سینیارٹی کے لحاظ سے یکساں سطح کے نہیں ہوتے ۔ کوئی بہت پڑھا لکھا ہوگا جب کہ کچھ لوگ بس ابھی سٹارٹ کر رہے ہوں گے۔
سٹڈی سرکل میں کسی سینئر سے مشورہ کر کے یا پھر شرکا باہمی مشورے سے ایک موضوع طے کرتے ہیں ، اس کے لیے متعلقہ مطالعہ مواد سلیکٹ کرتے ہیں۔ پھر وہ اس کتاب کے چار پانچ صفحے پڑھتے ہیں۔ ا±س پر اجتماعی بحث کرتے ہیں ، تجزیہ کرتے ہیں اور نتائج نکالتے ہیں۔ اگلے ہفتے پھر بیٹھتے ہیں اور کتاب کے اگلے چار پانچ صفحے پڑھتے ہیں۔کتابوں کے علاوہ سٹڈی سرکل میں پارٹی کے ترجمان اخبار کے مضامین (بالخصوص اس کا اداریہ ) پڑھا جاتا ہے۔ اور یا پھر پارٹی کی سیاسی رپورٹیں گروپ میں پڑھی جاتی ہیں۔ اور ان پہ بحث ہوتی ہے۔ سوال جواب ہوتے ہیں۔
سٹڈی سرکل کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے منعقد ہوتا رہے۔ اور وہ بھی ہفتہ وار ۔تاکہ ایک جمہوری شرکت کاری کے طریقے سے فلسفہ ، معیشت ، سماج ، ورکنگ کلاس ، قومی آزادی ، نیچر ،اور کلچر کے بارے میں باہمی علم میں اضافہ ہو سکے۔گہرائی اور جمہوری انداز میں ہر ممبر کی شرکت والے ڈسکشن کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ چیزیں بہت دیر تک یاد رہتی ہیں۔
مہینے کے آخری میں سٹڈی سرکل انچارج اپنے سٹڈی سرکل گروپ کی کارگزاری کی رپورٹ تیار کرتا ہے ۔ یہ ایک طرح سے ایک سیاسی رپورٹ بن جائے گی جو کہ کونسپٹس بنانے ، اہم سیاسی جدوجہدوں اور پارٹی حکومت عملی کے مطابق گروپ کی نشوونما کے بارے میں بتائے گا۔
سٹڈی سرکل میں نظریاتی تعلیم ، سیاسی ڈویلپمنٹ اور لیڈر شپ ٹریننگ کا کام تو ہوتا ہی ہے مگر یہ تنظیم اور ڈسپلن کا بھی زبردست ذریعہ ہوتا ہے۔
سٹڈی سرکلز کامریڈ شپ اور مشترک مقصد کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔
یہ گروپ انقلابی نظریات ،تاریخ ، اور اصولوں کے بارے میں پڑھتے اور بحث کرتے ہیں۔سٹڈی سرکل میں سامراج کے بارے میں پڑھاجاتا ہے۔عالمی کپٹلزم پہ بات ہوتی ہے ۔ملک کے کچھ حصوں میں موجود فیوڈلزم پہ بحث ہوتی ہے۔ طبقاتی تقسیم ، طبقاتی جدوجہد، اس کا ارتقا اور سماج پہ اس کے اثرات پہ سیکھا سکھایا جاتا ہے۔ہمارے جیسے معاشروں میں قومی مسئلہ اور عورتوں کا مسئلہ احتیاط سے اور گہرائی سے مطالعہ کے لائق ہیں۔ان میں بالادست قوم کی طرف سے محکوم کردہ قوم پہ جبر اور استحصال کی تفصیلات پڑھی جاتی ہیں اور ان سے نجات کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ سٹڈی سرکلوں میں قومی حق خود اختیاری بشمول حق علیحدگی کے لیننی اصول کے بارے میں تفصیلی مباحث ہوتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے سیاسی معاشی اور بالخصوص سماجی معاملات کو باریکی سے دیکھا جاتا ہے ۔ گھریلو مارپیٹ سے لے کر اُن کی خرید و فروخت تک ساری تفصیل پڑھ کر اُن کے حل کی باتیں سوچنی ہوتی ہیں۔ اُس کو مین سٹریم میں لانے کی تدابیر پر بات کرنی ہوگی۔ اسی طرح پیٹر یا کی جو کہ فیوڈل نظام کا اٹوٹ حصہ ہے ، اس کے خاتمے کی صورتوں کے بارے میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں لینن ازم کے سائنسی اصولوں اور پولیٹکل اکانومی کو پڑھتے ہوئے شعوری طور پر قومی سوال اور عورت سوال پہ ان اصولوں کے اپلیکیشن کی تدابیر سوچنی ہوگی ۔ سٹڈی سرکل میں جدید سائنس کی latest دریافتوں اور ہم عصر سماج ، اور انقلابی تحریکوں کے بارے میں پڑھا جاتا ہے۔ عورتوں کی تحریک : ٹریڈ یونین کی تحریک ، اور پراگریسو ادبی عملی تحریک کے بارے میں جانکاری حاصل کی جاتی ہے ۔ سٹڈی سرکل میں خود پارٹی کے بارے میں بحث ہوتی ہے ۔ پارٹی کا نظریہ کیا ہے ، اس کی پالیسی کیا ہے ، اس کے ادارے کون کون سے ہیں ، اس کی کانگریسیں کیسے منعقد ہوتی ہیں، اس کے الیکشن کیسے ہوتے ہیں اور اُس کی تاریخ کیا رہی ہے ۔
لہذا انقلابی پارٹیوں کی سرگرمی میں سٹڈی سرکل لازمی ہوتے ہیں۔
سٹڈی سرکل مستقبل کے لیے لیڈر شپ تیار کرتی ہے ، ان میں موثر لیڈر شپ کے لیے ضروری علم اور مہارت بھر دیتی ہے۔ اکٹھے مطالعہ کرنے سے ممبرز کے درمیان کا مریڈ شپ پیدا ہوتی ہے۔ ان میں مشترکہ مقصد کے لیے اتحاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایکٹوازم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تاکہ گراس روٹس تنظیم، پروپیگنڈہ اور ایجی ٹیشن کے لیے ممبرز موبلائز ہوں۔
یوں مل جل کر پڑھنے سے شرکا ایک محبت بھرے ماحول میں آگے بڑھتے ہیں اور مشترکہ کامیابی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس مشترک مطالعے سے ، اس تربیت سے فیصلے لینے کے لیے ممبرز کی اہلیت بڑھ جاتی ہے۔ وقت پہ بہترین ممکنہ فیصلے لینا اور موثر اقدامات اٹھانا ان کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔
سٹڈی سرکلوں کو ترجیح دے کر انقلابی پارٹیاں ایک مضبوط ، باخبر ، اور متحد ممبر شپ بنا سکتی ہیں،وہ پارٹی کے مقاصد اور نظریات کو آگے لے جانے کے لیے ایک لشکر بنا سکتی ہیں۔ نظریاتی یکجہتی جس کے لیے انقلابی پارٹیاں مشہور ہیں وہ انہی سٹڈی سرکلوں میں پروان چڑھتی ہے۔
سٹڈی سرکل اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس میں آرگومینٹ صاف اور واضح ہو جاتے ہیں۔ ایک سالڈ نتیجے پر پہنچا جاتا ہے۔دوستوں کی کیمسٹری میچ کرنے لگ جاتی ہے۔وہ آرگنائزڈ ہوتے جاتے ہیں۔۔۔۔
لیکن یہ تب ممکن ہے جب یہ کام تسلسل کے ساتھ ہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے