حضرت علی کا فرمان ہے کہ ”جس معاشرے میں سچ بولنا مشکل ہوجائے وہ معاشرہ تباہی سے نہیں بچ سکتا۔“ اسی مصدقہ نقطہ نظر کو لیکر اب سچ بولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آج پاکستان انتہائی سنجیدہ اور پر خطر معاشی بحران کا شکار ہے جس کے باعث ملک سیاسی، نظریاتی اور معاشرتی افراتفری کی آماجگاہ بن چکا ہے اور اس کی شدت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جس سے ہماری اجتماعی زوال کی عکاسی ہوتی ہے۔ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ جاری صورتحال اور اس کے منطقی اور بھیانک نتائج کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے پورے ملک اور خصوصاً KPK اور بلوچستان بم دھماکوں، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ سے عوام بد ترین خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ ملک پر غیر یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ نام نہاد دہشت گردوں کی خاتمے کے تمام دعوے نقش بر آب ثابت ہوئے ہیں۔ حکومت اور سیکورٹی ادارے قتل و غارت گری کو غیر ملکی ہاتھ کا شاخسانہ قرار دیکر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں۔ نتیجے میں حکومت اور افواج پاکستان اپنے شہریوں کو تحفظ کی ضمانت فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ یہ المیہ عالمی سطح پر ملک کو خطرناک نتائج سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس نازک حالات کا سب سے خطرناک پہلو ستم دیدہ عوام کی جاری خون ریزی کے لیے الزام خود ریاست اور اس کے عسکری اداروں پر عائد کرنا ہے۔
انسانی معاشرے مختلف نوعیت کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، جن کے حل کے لیے بہترین آپشن عقل و دانش اور تدبر کی حیثیت مسلمہ سمجھی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں پر امن ذرائع کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بجائے جنگی وژن اور عالمی استعمار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سازشی تھیوریوں سے مقاصد حاصل کرنے کی روش اختیار کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ملک بد ترین انتشار سے دوچار ہوا ہے۔ ملک کی زوال پذیری کو دیکھتے ہوئے بہت سے شہریوں کو خدشات لاحق ہیں کہ کیا ہم ملک کی سا لمیت اور بقا کو یقینی بنا سکتے ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان پر بین الاقوامی، معاشی اور سیاسی دباو ¿ میں بھی اضافہ ہورہا ہے، جو بجا طور پر باعث تشویش ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ستم ظریفی بھی یہ ہے کہ ہم خود اپنی نا عاقبت اندیشی کے باعث عالمی قوتوں کے لیے جواز فراہم کررہے ہیں۔اب جبکہ پلوں کے نیجے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے،لہٰذا عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ ہم مفروضوں کی بجائے اس نا قابل تردید حقائق کو تسلیم کر لیں کہ معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے لیے ملک میں امن کا قیام نا گزیر ہے۔ ملک کو کثیر الجہتی بحرانوں سے نجات دلانے کا واحد حل بھی یہی ہے کہ ملک کے تمام ادارے آئین و قانون کی پاسداری کی ضرورت کو دل و جان سے تسلیم کریں جس سے ملک میں اجتماعی ڈسپلن کے قیام میں مدد مل سکتی ہے۔ اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنی اجتماعی خامیوں، غلطیوں اور فریب کاریوں کا ادراک نہیں کریں گے ا ±ن کے ازالے کا احساس جنم ہی نہیں لے سکتا۔ اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں بہتری کی ا ±مید نہیں کی جاسکتی۔ اب جب کہ ہمارے حقیقی حکمرانوں کے برے اعمال و کردار روز روشن کی طرح عیاں ہوچکے ہیں جس سے ہر شخص بخوبی واقف ہو چکاہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ مسائل حل کرنے کی سوچ اور تدبیر کو دانستہ صرف نظر کرکے اپنے کوتاہ فکری سے ملک کو نئے نئے اور گھمبیر مسائل سے دوچار کرنے میں لگے ہیں۔
اس تمہید کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عالمی استعمار کی تقلید میں مذموم مقاصد کے لیے اپنائی گئی سازشی تھیوریوں کے بے جا استعمال سے ریاست اور عوام کے درمیان جو عدم اعتماد کی خلیج پیدا ہوئی ہے وہ درپیش ملکی صورتحال کا خطرناک ترین پہلو بن چکا ہے۔ اس حقیقت کو قبول کر لیا جائے کہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کا اتحاد و یکجہتی ہی ملک کی بقاء و سلامتی کی ٹھوس ضمانت بن سکتی ہے۔ جبکہ ہماری نا اہلی اور انتہائی غیر ذمہ داری کے باعث عوام تقسیم در تقسیم کی پالیسی کا شکار ہوئی ہے۔آئین،قانون، انسانی حقوق اور معروضی حقائق سے چشم پوشی کے نتیجے میں ملک کی معیشت، سیاست، حکومت، نظام انصاف، تعلیم و تدریس، صحت عامہ، صحافت سمیت کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا جو مصنوعی پن کا شکار نہ بنایا گیا ہو۔ اب ہم آئین، قانون اور اخلاقیات کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے منطقی انجام کی طرف تیزی سے گامزن نظر آتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ بد قسمتی یہ ہے کہ اس ساری نا عاقبت اندیشی کا ادراک بھی نہیں کیا جارہاہے۔ ملک کے حقیقی حکمران ہوش کے ناخن لیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ بین الاقوامی قوتیں پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کیلئے خود ہمارے پیدا کردہ شواہد ہی کو ہمارے خلاف بطور ٹھوس شہادت استعمال میں لائیں۔اور ایسی صورت میں جب ملک ایک ایٹمی قوت بھی ہے،اس سے عالمی استعمار کو اور زیادہ مدد مل سکتی ہے۔ جنگی وژن اور سازشی تھیوریوں کے ساتھ خدا ناخواستہ 1971 ء کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے مگر ملک کو امن و استحکام کا خواب شرمند ہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔قومی سوال ایک حقیقت ہے جو قومیتوں کے تمام جائز حقوق تسلیم کرکے ا ±نہیں آئینی تحفظ فراہم کیا جانا ناگزیر ہے۔ ملک کو بدترین معاشی بحران میں مبتلا کرنے والے اسبا ب و عوامل کا خاتمہ ملک کی بقاءو سلامتی کیلئے اہم ہے۔ کیونکہ معاشی آزادی کے بغیر آزادی کا تصور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے