آنکھوں سے پرے نیند کی رفتار میں رہنا
ہر پل کسی نا دید کے دیدار میں رہنا
کھو جانا اُسے دیکھ کے عریاں کے سفر میں
چُھوتے ہی اسے ، حُجلہِ اسرار میں رہنا
اک خوابِ دریدہ کو رگِ ِ حرف سے سینا!
پھر، لے کے اُسے کوچہ و بازار میں رہنا
خود اپنے کو ہی دیکھ کے حیران سا ہونا
نرگس کی طرح موسمِ بیمار میں رہنا
مرنا یونہی اب، ریشم و کمخواب ہوس میں
دم توڑ کے زندہ کبھی دیوار میں رہنا
بادل، کبھی پروا، کبھی پھولوں سے لپٹنا
ہر لمحہ، تر ے آنے کے آثار میں رہنا
حسرت سی لےے خلقتِ معصوم میں پھرنا
سازش کی طرح، گردشِ دربار میں رہنا
سرمد! تپش ِ نار، سخن میں ہوں کہ مجھ کو
گُل کرتا رہا، شعلہ و انگار میں رہنا