اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن ہے ۔مگر بلوچستان میں یہ پانی رحمت کے بجائے زحمت بن کر مسلسل 10 سالوں سے جعفر آباد، نصیر آباد کو تباہ و برباد کررہا ہے۔2007 کا طوفانی سیلاب جس نے بلوچستان کے دس اضلاع کو پانی پانی کردیا۔ ابھی لوگ2007 کے سیلاب سے سنبھلے ہی نہ تھے کہ دریائے سندھ میں ایک طوفانی سیلاب نمودار ہوا اس سیلاب کو زبردستی جعفر آباد کی طرف روانہ کیا گیا۔ اُس وقت کے حکمرانوں نے امریکی ایئر بیس جیکب آباد کو بچانے کے لےے پانی کا رخ جعفر آباد کی طرف کردیا جس کی وجہ سے جعفر آبادکے عوام کی تیار فصلیں مکمل ڈوب گئیں اور سینکڑوں لوگ اس جہاں سے رخصت ہوگئے تھے۔ اُس وقت سندھ کے اکثر اضلاع کو بچانے میں سیم کینال نے اہم رول ادا کیاحیر دین ڈرینج سسٹم کے آر بی اوڈی تین نے سندھ کے شہر شہداد کوٹ اور قمبر کو بچالیا تھا۔ اس سیلاب سے لوگ ابھی سنبھلے ہی نہ تھے کہ 2012 کی طوفانی بارشوں نے ایک بار پھر سیلابی صورت حال پیدا کردی۔ یہ سیلاب بھی سندھ سے زبردستی ڈیرہ اللہ یار بائی پاس سے روجھان جمالی کی طرف کردیا اُس وقت کے وزیر اعجاز جھکرانی نے پانی کا رخ جعفر آباد کی طرف کردیا۔ سینکڑوں دیہات اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں گرین بیلٹ کی ڈوب گئیں۔ اُس وقت بھی III RBOD کے تین دروازے کھل گئے جس سے تحصیل اوستہ محمد اور تحصیل گنداخہ کے سینکڑوں دیہات ڈو ب گئے ا ور کئی جانیں ضائع ہوگئیں جن کا ازالہ آج تک نہیں کیا گیا۔ RBOD III کو تحصیل گنداخہ، عوام نے خونی سیم نالہ قرار دے دیا اس خونی نالے کی بنیاد2002 میں بنائی گئی حیر دین ڈرینج جو آج تک مکمل تو نہیں کیا گیا مگر گنداخہ تحصیل کے عوام کے لےے وبال و جان بن گیا۔ ہر سال مون سون کی بارشوں میں یہ سیم نالہ تحصیل گنداخہ کے کئی دیہاتوں کو سیلاب کی نظر کردیتا ہے۔ اس کی اہم وجہ چو کی جمالی کے قریب سیم نالے کو اگر سند ھ کی طرف کھول دیا جائے تو یہ سیلاب کبھی تحصیل گنداخہ کے سینکڑوں دیہات نہ ڈوبے گا اور نہ اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ خونی سیم نالہ آخر کیوں بنایا گیا اگر یہ سیم نالہ سیم وتھور کو قابو پانے کے لےے بنایا گیا تو اس کو آج تک مکمل کیوں نہیں کیا گیا حتیٰ کہ اِس سیم نالے کو سندھ کے علاقوں میں مکمل کرکے آج چلایا جارہا ہے مگر بلوچستان کے حدود سے سندھ کی جانب پانی کو کیوں جانے نہیں دیا جارہا حتیٰ کہ خونی سیم نالہ بھی سندھ بلوچستان کی مشترکہ حکمت عملی سے تیار کیا گیا۔ 2013 کی طوفانی بارشوں سے دوبارہ ان سیم نالوں میںطغیانیآگئی اور تحصیل گنداخہ اور تحصیل اوستہ محمد کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ۔جعفر آباد اور نصیر آباد کے طول و عرض میں طوفانی بارشوں کے بعد حیر دین ڈرینج سسٹم کے آر بی او ڈی III نالے سمیت متعد سیم نالوں میں پانی کا اخراج کرکے سیم نالو ںمیں برداشت سے زیادہ پانی چھوڑ ا گیا جس کی وجہ سے تمام سیم نالوں میںطغیانی آگئی اور سینکڑوں دیہاتوں کو زیر آب کیا گیا حتیٰ کہ اوپر کے تمام زمینداراس سیم نالے کو اپنی زمینوں کو بچانے کے لےے استعمال کرتے ہیں اور اپنی فصلیں بچانے کے لےے سینکڑوں دیہاتوں کو ڈبو دیا جاتا ہے۔اِس خو نی سیم نالہ میں سینکڑوں چھوٹے

چھوٹے سیم ڈالے جاتے ہیں جو بااثر لوگوں کے لےے نکاس آب کے لےے استعمال ہوتا ہے۔ بااثر لوگ اپنی زمینیں بچانے اور سیم نالوں کو نکاس آب استعمال کرنے پر مسلسل 6 سالوں سے حکومت بلوچستان کیوں خاموش ہے ۔کیا یہ منصوبہ بلوچستان غریب عوام کو ڈبونے کے لےے بنایا گیا ۔کیا یہ بااثر لوگ حکومت وقت سے زیادہ طاقت و ر ہےں کیا حیر دین ڈرینج کے تمام سسٹم کو ختم کیا جائے گا یا اسی طرح ہر سال تحصیل گنداخہ اور تحصیل اوستہ محمد کے سینکڑوں دیہاتوں کو یوں ڈبویا جائے گا۔ آخر اِس خونی سیم نالے کو مکمل کیوں نہیں کیا جارہا ہے یا اس سسٹم کو مکمل ختم کیوں نہیں کیا جارہا ہے ۔یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب تحصیل گنداخہ کے عوام مسلسل 5 سالوں سے پوچھ رہے جس کا جواب دینے والا کیوں کوئی نہیں۔2007،2010 اور2012 کے طوفانی سیلابوں سے اربوں روپے کے انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوگئے جن کا ازالہ آج تک نہیں کیا گیا۔ 2013 کے شروع سے لے کر آج تک گرین بیلٹ میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے تحصیل گنداخہ میں مصنوعی سیلاب جو انسانی ہاتھوں کی لائی ہوئی آفت سے آج لاکھوں لوگ دربدر کی زندگی گزار رہے ہےں لوگوں نے مختلف نہروں کے کناروں پر بغیر کسی ٹینٹ کے زندگی کی سانسیں گزار رہے ہےں ان لوگوں کے پاس نہ توکھانے پینے کی اشیا ہیں نہ سونے کے لےے بستراور نہ مچھروں سے بچانے کے لےے مچھر دانیاں ۔میں آج حیران ہوکر مسلسل دس سیلابوں سے آخرہمیں کیا سبق ملا اور ہم نے ان سے کیا کیا تجربات حاصل کےے اور اُن کے بچا کے لےے آج ہم کیا اقدامات اٹھارہے ہےں روز کے سیلابوں کی وجہ سے اکثر خاندانوں نے مکمل طور پر اپنے گھربار اور زمین چھوڑ کر سندھ کی طرف نقل مکانی شروع کردی لاکھوں خاندان آج بھی دربدر کی زندگی گزار رہے ہیں بلوچستان کے گرین بیلٹ کی تباہی پر کئی مضامین لکھے گئے مگر حکمرانوں کے سر پر جُوں تک کیوں نہیں رینگتی ۔کیا یہ لوگ انسان نہیں یا یہ لوگ بلوچستان کے رہائشی نہیں حتیٰ کہ گذشتہ سال سیلاب کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان نے کیا خواب بات کی تھی کہ ” میں جعفر آباد اورنصیر آباد کے سیلاب سے روز روز تنگ آچکا ہوں یہ لوگ پہاڑوں پر آکر بیٹھ جائیں تو ان کو سیلاب کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اگر ڈاکٹر مالک اس حیر دین ڈرینج سسٹم کو چلانے یا مکمل ختم کرنے کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ کریں تاکہ مستقبل قریب میں انسانی جانوں کو بچا یاجائے گا اگر ڈاکٹر مالک بھی خاموش بیٹھے رہے تو یہ خونی سیم نالہ پورے علاقے کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کردے گا ۔ 2012 کے سیلاب کا پانی آج تک کھڑا ہی تھا کہ 2013 میں سیم نالوں میں مزید پانی آگیا ۔2012 کے سیلاب کا پانی آج بھی جعفر آباد کے سینکڑوں دیہاتوں میں موجود ہے جن میں غلام محمد جمال ،چوکی جمالی ، محبوب خان جمالی، فضیل الفقیر، دودا خان ، عبداللہ بروہی ، رکھیا لاشاری سمیت تحصیل گنداخہ کے سینکڑوں دیہات بلوچستان کے موجود ہےں جو2012 کے سیلابی پانی سے ابھی تک خشک ہی نہیں ہوئے تھے کہ 2013 کا سیلابی پانی جو وڈیروں اور جاگیرداروں کی مہربانی سے سینکڑوں دیہاتوں میں داخل ہوگیا۔ لوگ اس شش پنج میں مبتلا ہےں کہ آخر ان مصنوعی سیلابوں اور سیم ڈرینج سسٹم سے کیسے بچا جائے حتیٰ کہ سندھ حکومت نے ایک کورٹ آف کنڈیم داخل کرایا گیا جو پانی کا راستہ روکے اس کو سزا دی جائے اور قدرتی راستوںکی بحالی کے لےے ہر حد تک ممکن کو شش کی جائے اور قدرتی راستوں کو بند کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرکے جیل بھیج دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی قدرتی راستوں کو بند نہ کرے۔

سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی ان سیلاب متاثرین کے لےے آنے والا ریلیف غریبوں کے بجائے ایسے لوگوں کے گھروںمیں جاتا ہے جن کا پیٹ سمندر سے گہرا ہے جس میں جتنا ریلیف ڈالو خودبخود ختم ہوجاتا ہے یہ دنیا بھی عجب ہے جس کو جتنا دو اُس سے دوگنا ہڑپ کرجاتا ہے حتیٰ کہ 2010 اور 2012 میں سندھ سے پانی بلوچستان میں زبردستی داخل کرالیا لیکن حقیقت میں بلوچستان دریائے سندھ کے سیلاب کی گزرگاہ نہیں پھر جعفر آباد اور نصیر آباد سیلابی پانی کیوں چھوڑا جاتا ہے کیا بلوچستان حکومت اتنی کمزور ہے کہ سندھ حکومت کا مقابلہ کرسکے آخر سندھ بلوچستان سے اتنی زبردستی کیوںکرتا ہے حتیٰ کہ کیر تھر کینال پر سندھ حکومت نے زبردستی ایک کینال اور کئی واٹر کورس1976 میں بنا کر بلوچستان کے حصے کا پانی روک لیا یہ سندھ حکومت اور سندھ کے جاگیرداروں اور وڈیروں کی ایک چال تھی جس کی وجہ سے بلوچستان کے حصے کا پانی روکنا اور بلوچستان کی گزرگاہوں جہاں سے پانی نکل کر منچھر جھیل میں جاتا تھا اُس کو بند کردیا گیا یہ ایسے اقدامات ہےں جن کا کبھی کسی حکمران نے نوٹس تک نہیں لیا۔ آخر اس حیردین ڈرینج کا کیوں کچھ نہیں کیا جاتا عوام حکومت وقت سے سوال کرتی ہے یا تو اس خونی منصوبے کو مکمل ختم کیا جائے یا ا ِس منصوبے کو مکمل کیا جائے تاکہ لوگ سکھ کا سانس لے کر زندگی گزارسکیں……..!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے