لفظ” سانولا“ٹھیک ہے، ”گچھے دار بالوں“ کا متضاداس طرح لکھا جائے کہ سر پہ آسانی اور جلدی سے ہاتھ پھر جانے کی کیفیت پیدا ہو ، کوتا ہ قدی میں تین چار انچ کا اضافہ کردیں ، بہت موٹا پے کو ذرا سا کم کردیں، مزا ح اور لفظ ہنس مُکھ برقرار رہنے دیں، تین الفاظ یعنی ، گپّی ، مجلسی، اور قصہ طراز کو اکٹھا کرلیں، کمیونسٹی میں غریب کے سالن کی طرح اچھا خاصا پانی ڈال کر پتلا کرکے ، ” محتاط روشن خیالی “کا لفظ رہنے دیں، کاہلی کے لفظ کو اُس کے برعکس سے بدل ڈالیں، لفظ طلسماتی لکھ دیں ،تیر و تلوار سے میلوں دور بھاگا مگر نوک ِ قلم کی جگر بُری کا استاد کہہ دیں اور یہ فیصلہ نہ کرنے دیںکہ آج وہ نقاد، افسانہ نگار،اور خاکہ نگار میں سے کس شعبے میں زیادہ نامور ہے تو جو شخص بنے گا، اُس کا نام اُس کے باپ مختار احمد نے اُس وقت انوار احمد رکھا تھاجب وہ ملتان میں گیارہ جون1947 کوپیدا ہوا تھا۔ ……..

یوں انواراحمد پاکستان سے دو ماہ تین دن بڑا ہے۔ اور یہ دونوں ، ہم عمر کرب و عذاب میں جیتے رہنے کا اشتراک رکھتے ہیں۔ اول الذکر کامختار احمد اُس وقت انتقال کر گیا جب سب سے بڑی اولاد یعنی بیٹاانوار احمد ابھی چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ثانی الذکر کا تو دو سال بعدکوئی” اصلی“ رہا ہی نہیں!!۔دکنی، میسوری، جلندھری آکر اُس کا مالک بن بیٹھے۔اوریہ جو آج کے اُس کے نقلی مختار کار ہیں انہوںنے ایسی بے چاری ملت بنانی چاہی جو ” ملوکیت اور ملائیت“ کے بیچ فٹ بال بنی ہوئی ہے“۔

پاکستان کا تو پتہ نہیں مگر انوار کے دوست اپنے والدین کے سامنے ”انوار پر سدا رشک کرتے رہے، کہ وہ بچپن میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہوگیا تھا“۔(1)۔

انوار احمد کی بیوہ والدہ کے نام کا تو پتہ نہ چلا ۔مگر،مختار احمد کے انتقال پر وہ بیٹے کو ساتھ لے کر اپنے ماں باپ کے گھر گئی۔اِس خاتون کے بارے میں انوار یہ دلچسپ بات کرتا ہے: ” بعض اساتذہ کے ہاتھوں اپنی غلط تربیت کے باعث مجھے کسی خاتون کا سگریٹ پینا اچھا نہیں لگتا، حالانکہ میری اپنی ماں پہلے حقہ، پھر بیڑی اور آخر میں سگریٹ پیتی تھی ( 2) ۔ انوار نے اپنی نانی نانا اور دادا دادی کے بارے میں بے باکی سے بھی زیادہ بے باک مضمون لکھا جو اُس کی کتاب ” یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ” کا پہلا مضمون ہے، وہیں سے پڑھ لیں۔انوار کی دادی سکھ باپ کی مسلمان شدہ بیٹی تھی۔ دادا تقسیم ہند سے بہت پہلے مشرقی پنجاب سے رحیم یار خان آیا تھا۔ چار پانچ برس کی عمر میں اس کا دادااور دادی انتقال کرگئے ، چند ماہ آگے پیچھے۔

میں دوستوں اور خصوصاًزندہ دوستوںکے بارے میں خوشی خوشی، اور بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں ۔وجہ یہ ہے کہ میں بے شمار ”مرحوم“ لوگوں پر لکھ چکا ہوں۔ وہ ایسے کہ اُن کے عزت و احترام کے پرومیتھی اَسی زنجیروں نے میری انگلیاں باندھے رکھیں۔ لیکن اپنی افتادِ طبع کی مطابقت میں جب اپنے زندہ دوستوں کے بارے قلم اٹھاتا ہوں تو جیسے عید ہوجاتی ہے ۔ جیسے جوار کھاتے رہنے والے بلوچ کو گندم کی چپاتی مل جائے ۔ پرزے اڑ جاتے ہیں اپنے بھی ،ممدوح کے بھی۔ اس لےے کہ یہاںلبرٹیاں لینے کی بھرپور آزادی ہوتی ہے۔

میں انوار احمد کے بارے میں بھی ایسا کرنا چاہتا تھا ۔ میں اِس حقیقت کا احترام کرتا ہوں کہ ہر انسان کی زندگی کی کچھ تہیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں وہ بہر حال پر ائیویٹ رکھنا چاہتاہے ۔ ۔اور میں انہیںنہ چھیڑ تے ہوئے کم ازکم ایسی باتیں ضرور کرناچا ہتا تھا جس سے اُس چو غے میں دوچارچھیدہی پڑ سکیں جوکہ ہمارا” دو چہرے والا سماج “ایک ستر سالہ شخص کو اوڑھا دیتاہے ۔میں اِس بات کا بھرپور طور پر قائل ہوں کہ یار دوست تو عام انسان کی طرح ہوتے ہیں۔ اُن کی عام انسانی باتوں کی چونڈی کاٹی جانی چاہےے ۔میں اپنے ہم عصروں کو سپاس نامے پیش کرنے کو پر لے درجے کی منافقت کہتا ہوں۔

مگر یہاں،میں عملاًایسا نہیں کر سکتا۔مجھے ہراُس شخص سے ڈرلگتا ہے جس کارہبر، پیشوا، یااستا د کی شکل میں معتقدےن یا فالو ئر ز کا کوئی ٹولہ موجودہو ۔گو کہ انوارنے اندھے تقلید کاروں کا کوئی جتھا تر تیب نہ دیا ۔اور یہ شخص پاکستان میں روشن فکری پھیلانے کا سب سے بڑا کھمبا ہے۔ مگر(مجھ سمیت) ” شاگردوں “ کے نام سے اُس کے عزت کنند گان کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے ۔ اور حلقہ جتنا بھی شعوردار کیوں نہ ہوکسی بھی وقت پاگل ہوسکتاہے۔ میںنے جدید ترین سائنس سے لیس، مثالی تنظیم میں منظم،اور لائن بنا کر چلنے والے بے شمار انقلابی حلقوں جتھوں کو پاگل بنتے صرف دیکھاہی نہیںبھگتا بھی ہے ۔ اس لےے ، میں اپنی جان و جسم کے صدقے انوار کو معاف کرتا ہوں ۔ اورکانٹے دار لگام پہن کر جتنا آزادلکھ سکتا ہوں اتنا ہی لکھ رہا ہوں۔

انوراحمد نے دَہ جماعتیں (مسلم ہائی سکول)ملتا ن سے پڑھےں۔ اور 1963 میں وہیں ایف اے میں داخل ہوا۔ اور فرسٹ ڈویژن میں یہ کے ٹوسر کرلیا۔ اس پڑھا کُو نے ایف اے میں ہی پریم چند کے سارے ناول اور افسانے پڑھ ڈالے۔ بی اے بھی (اردو اور سیاسیات کے اختیاری مضامین کے ساتھ )فرسٹ ڈویژن میں کرلی۔ اردو میں شانزدھی (ماسٹرز )ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے1969 میںلی ،ایک بار پھر اُسی فرسٹ ڈویژن میں۔اس کے تھیسس کا عنوان تھا: پریم چند کے ناول ” گﺅدان کا تجزیاتی مطالعہ“۔ پنجاب یونیورسٹی سے ہی پی ایچ ڈی 1984 میں کی۔( بلوچی میں پی ایچ ڈی کا متبادل ہندسوں میں موجود نہیں کہ اس درجے تک پہنچتے پہنچتے تعلیم گنتی اور ناپ تول سے بڑھ جاتی ہے )۔ اُس کے ڈاکٹریٹ کے تھیسز کاٹائٹل تھا: ” اردو مختصرافسانہ اپنے سیاسی اور سماجی پس منظر میں “۔

لیکچراری البتہ اِس کو بلوچستان نے دی ۔اشرف انسانوں کی طویل ، ذلت آمیز اور دکھ بھری جدوجہد کے بعد ون یونٹ، بالآخرلاہور کے گورنر ہاﺅس میں دم توڑ چکا تو صوبہ بلوچستان قائم ہوا۔ حکومت بلوچستان نے لیکچراری کی تین پوسٹیں مشتہر کردیں۔ کسی مقامی شخص نے درخواست نہ دی۔ انوار احمد سلیکٹ ہوگیا۔ وہ سریاب روڈ کے ڈگری کالج میں مئی1971 میں اردو کا لیکچرار ہوا ۔خلیل صدیقی یہاں پرنسپل تھا ۔ استاد شاگرد تعلقات خلیل صاحب سے بہتر کون اُسے سکھا سکتا تھا۔ طلبا کو سچ کی تلاش کی راہوں پہ ہانکنا اُس نے اسی صدیقی صاحب سے سیکھا ۔ طلباءسے میٹھا بولنا تو نانا نے سکھایا تھا: وہ اُسے ہاں کہنے نہ دیتا تھا بلکہ کہتا ” جی“ بولو۔ اور انوار جب ” جی“ بولتا تو وہ جواباً بولتا ” کھیر کھنڈ پی“ ۔بزرگوں کی دعاﺅں کی صورت اتنے کھیر کھنڈ پیئے کہ زندگی بھر لہجہ شیرین و نرم رہا۔

……..اور جوایک باربلوچستان آیا تو سمجھو نجات پاگیا ( سوائے نسیم حجا زی کے ، کہ ایسوں کی آنکھوں ، کانوں اور دلوں پہ بِگ نیشن شاونزم کی مہریںیہاں آنے سے پہلے لگ چکی ہوتی ہے ) ۔ عبد اللہ جان جمالدینی کا کوئٹہ نظر یاتی طور پر انفیکٹ کردیتا ہے ۔ خلیل صدیقی، کر ار حسین اور بہادر خان رودینی جیسوں کی موجودگی میںانوار جیسو ں کا کلٹی ہوجانا مشکل تھاکیا؟۔ بے دلیل سرزمین کا یہ نوجوان ،دلیل و منطق کی برسات میں کِھل کِھل اٹھا۔

غوث بخش بزنجو کی گورنری اور عطا ءاللہ مینگل کی وزارتِ اعلیٰ خواہ جس قدر بھی بلوچ نا شُکری میں بے قدر رہیں ، امیر محمد گورنر کے علاقے کے فرد کے لےے تو نعمتیں ہی تھیں۔ ویسے آپ خود سوچیں مینگلوں کا سردار، بلوچستان کا وزیراعلیٰ سٹاف روم میں بیٹھ کر اساتذہ سے کھلی ڈلی باتیں کرے تو یہ نعمت نہیں؟ ۔چنانچہ یہ شخص اپنی روح یہیں چھوڑ گیا ۔ اُس نے اپنی بچی کا رشتہ یہاں کردیا۔لہٰذا، آج انوار ایک نہیںدوہیں ۔ ایک وہ جودنیا بھر میںاِدھر اُدھر گھومتا پھرتا ہے ، دوسرا یہیں شال وادی میں موجود، اپنے محور کے گرد گردش کرتا ہوا انوار۔

انوار بلوچستان سے محبت کرتا ہے ۔یہ تھینک فل انسان یوں کہا ہے: ” ملتان سے میری محبت تو فطری ہے مگر میرے دل کے تمام راستے بلوچستان کو جاتے ہیں۔ اس سر زمین اور اس کے لوگوں یا اداروں کا ذکر آئے تو یادیں کہرام برپا کردیتی ہیں……..“۔(3)۔

مگر، اُس کا بلوچستان میں قیام اس قدر طویل نہ تھا ۔ وہ دسمبر 1972 میں پنجاب سروس کمیشن میں کامیاب ہوا اور اپنے دیس سدھارگیا۔( گورنمنٹ کالج رحیم یار خان)۔

مجھے اُس کی شادی کی اصل تاریخ کا پتہ نہیںمگر اتنا جانتا ہوں کہ شادی کا اعلان اُس نے شادی کرنے کے بہت سال بعد کیا تھا ۔ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اُس کی بیگم اُسے رنڈوا ہونے کا اعزاز بخشنے کے بجائے بیوہ ہونا زیادہ پسند کرے گی “۔(4)۔ اُس کی ایک بیٹی کا نام ڈاکٹر نویرہ ہے ۔ دوسرے بچوں بچیوںسے ملا نہیں ہوں اور معلومات بھی نہیں ہیں۔

ڈاکٹر انوار دس جون2007 تک وہاں ملتان رہا ۔ وہاں بہت طویل نام والی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کا چیئرمین بنا ،مگر سچی بات ہے روزی حلال اُسی وقت ہوئی جب سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین بنا۔ اورپھر وہ بہت سے ڈیپارٹمنٹس کے مجموعے کے ” متحدہ مجلسِ عمل“ کا ڈین بھی بنا۔

ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی زندگی کی تین تخلیقی دہائیاںاِس یونیورسٹی کی نذر کردیں۔”وہ بہت اچھے استاد ہیں۔ وہ تنقید کا مضمون اس قدر م¶ثر انداز میں پڑھایا کرتے تھے کہ ان کا پیریڈ ختم ہونے پر افسوس ہوتا تھا ۔ پڑھاتے وقت وہ اپنے ہر شاگرد پر اس طرح نظر رکھتے تھے کہ ان میں سے کسی کے لےے بھی کسی اور طرف توجہ دینا ممکن نہ ہوتاتھا۔ ان کا اور ان کے شاگردوں کا تعلق صرف پڑھنے پڑھانے تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ ان میں سے اکثر کے نجی حالات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ وقت پڑنے پر ان کی مدد بھی کرتے تھے ۔ وہ اپنے ہر شاگر د کو اتنا عزیز رکھتے ہیں کہ ان کے سب شاگردان کی محبت کو اپنے لےے مخصوص سمجھنے لگتے ہیں۔ زکریا یونیورسٹی کے شعبہ¿ اُردو کے ابتدائی دور کے طالبِ علم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں ان طالب علموں کو ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے اور ان کی پُر لطف گفتگو کا لطف اٹھانے کا شرف حاصل ہوجاتا تھا……..

”شائستگی ، ہمدردی اور دوسروں کے کام آنا ان کی ایسی خوبیاں ہیں جن کے باعث ہر شخص ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے “۔(5)۔

اُس نے وہاں اردوڈیپارٹمنٹ کو پاکستانی یونیورسٹیوں میں سے اعلیٰ ترین ڈیپارٹمنٹ بنانے کے لےے دن رات محنت کی۔ خلیل صدیقی ریسرچ لائبریری قائم کی جس میں سال2008 تک بارہ ہزار دو سو تیس کتب اور دو ہزار نوسو چونسٹھ جرائد موجود تھے(6 )۔ اس نے اس ڈیپارٹمنٹ کو خطے کا سب سے جاندار، اورروشن فکر سماجی علمی تحقیقی مرکز میں ڈھال دیا۔ ڈاکٹر انوار احمدوہیں ریٹائر ہوگیا۔ مگر،اردو ڈیپارٹمنٹ کو روبینہ ترین ، نجیب جمال اور قاضی عابد جیسے محنتی اور جینوئن ہاتھوں میں دے گیا۔

ایک زمانے میں ملتا ن میں ” پاکستان ٹیچرزفورم ”نامی ایک تنظیم ہواکرتی تھی جس میں پر ائمر ی ٹیچر سے لے کریو نیورسٹی وائس چانسلر تک اساتذ ہ منظم تھے ۔ یہ تنظیم عمومی طور پر تعلیم، نصاب، اساتذہ اور طلبا کے عام مسائل اور خواندگی سے لے کر اعلیٰ ترین ڈگریوں تک کے معاملات پر کام کرتی تھی۔ہم بھی یہاں کوئٹہ میں ہر وقت اُسی طرح کی حرکتیں کیا کرتے تھے۔یہاں امیر الدین ہمارا امام ہواکرتا تھا ۔ ایک بار اِ س تنظیم کا پورا وفد ہمارے پاس کوئٹہ آیا ۔ اسی وفد میں ہم انوار، کرامت اور اُن کے جگری یار اور راہنمامہر گل محمد سے واقف ہوئے ۔مہر صاحب کی بہت ہی خوشگوار شخصیت تھی۔ اور اس دورے کے بعد ملتا ن کے روشن فکر عالموں سے ہماری دعا سلام مسلسل جاری رہی ۔ڈاکٹر انو ار اور ڈاکٹر کر امت پُل تھے ۔( پروفیسر برکت تو بلوچ ہے ، اُسے تو ہم ملتانیوں کو دیکھنے کو بھی نہ دیں!)۔

ریٹائرمنٹ کے بعد انوار گویا دوبارہ نوجوان ہوا ۔ لوگ اس عمر میں بیٹھ کر ” اللہ اللہ“کرنے کے ساتھ ساتھ جی بھر کے غیبتیں کرتے ہیں، مگر انوار کبھی سورج کے ملک کے دورے کرتا رہا اور کبھی شبِ دیجور میں تنکوں کے نیچے چھپے کنوئیں پھلانگتا رہا۔ (اِسی بے آرام فطرت کے سبب دادا، ننھے انوار کو” رُلدو“ کہاکرتا تھا)۔خود تو کہتا ہے کہ ” میں نے دنیا کے جہنم کو اتنا عرصہ دیکھا اور اس کا لطف لیا ہے کہ جنت میں جانے کی آرزو بھی نہیں“……..(7)

وہ ڈیپوٹیشن پہ1995 سے 1999 تک ( یعنی چار برس)انقرہ یونیورسٹی ترکی میں ” اردو ڈیپارٹمنٹ “ سنبھالتا رہا اور وہاں یونیورسٹی سطح کی ( ایم فل، پی ایچ ڈی) تعلیم دیتا رہا۔پتہ نہیں سفید فاموں کے اُس ملک میں وہ ”نیلی مسجد “دیکھنے کتنی بار گیا ہوگا!۔ قونیہ تو نہ صرف اس نے خود دیکھا بلکہ فی سبیل للہ اور سیاحوں کو بھی دکھاتا رہا۔(مولنا روم بھی دلچسپ ولی ہے۔ پاکستان سے جتنے لوگ بھی اُس کی زیارت کو گئے اُن میں ایک فیصد کے علاوہ باقی سب رشوت میں پلے عوام الناس کے دشمن بیوروکریٹ تھے، یا حلال روزی سے قطعی نا واقف سرمایہ دار!!)۔

2007 کو وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے بھاگ جگانے چلا گیا اور 2009 تک وہاںعلم کے موتی بکھیرتا رہا۔ اردو کے پروفیسر ، چیئرمین اور زبانوں کے ڈین کے بطور۔ہم نے وہاں اُس کی تربیت شدہ فصل اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔

پھروہ 2009 سے لے کر 2011 تک دو سال اوساکا یونیورسٹی جاپان میں اردو پڑھاتا رہا۔

ہر کمال کوزوال ہے ناں!۔ سو اُسے زوال آگیا اور وہ واپس آکر ” جوڑ توڑ“ جیسی کاروائی میں مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین بنا۔یہ الگ بات ہے کہ جسے خدا زنگ نہ لگوانا چاہتا ہو اُسے کسی کا چاچا بھی خراب نہیں کرسکتا۔ ساری زندگی ماسٹری کرتے رہنے والے انوار کی گردن میں یہ حقیر ریوالونگ چیئر ،کیا سیخ ڈال سکتی تھی ۔ کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ انوار جس خوبصورت کام پہ دفاعی رویہ اختیار کرتا ہے وہی تو وہاں پہ اُس کا اصل کارنامہ تھا: اُس نے شہنشاہی نام بدل کر اُس ادارے کو انسانی نام دے دیا۔ (اُس کے اِس کار ِ خیر میں اُس کے پیش روﺅں اور اُس کے ہم کار افتادگان ِ خاک کا بھی حصہ ہے)۔مقتدرہ گیا ہوا میں، اور ادارے کا نام اُس زبان کی ” ترقی“ کا ادارہ بنا۔

وہ جون2011 سے دسمبر2012 تک مقتدرہ اردو کا چیئرمین رہا ۔گولی مارےے چیئر کو ، چیرمینی کو، یہ آدمی خمیر سے ہی چیئرمین نہیں، ٹیچر لگتا ہے ۔ اول تا آخر۔ چیرمینی میں بھی اس نے وہی کام کےے جو ایک استاد کو کرنے چاہےے تھے۔ پی ایچ ڈی کے تھیسزوں کو چھاپنے کا کام ، وہاں کے ماہوار رسالے کو رسالہ نما بنانے کا کام، سنجیدہ فکری موضوعات پہ سیمینار و اجتماعات کرتے رہنے کا کام……..

ڈاکٹر انوار احمد خالی خولی باتیں نہیں کرتا بلکہ بغیر بتلائے جتلائے انسانی شعور و تربیت کے لئے عملی کام کرتا رہتا ہے ۔ اس نے بے شمار لوگوں کو خواندہ ہی نہیں بنایا، محض تعلیم یافتہ ہی نہیں بنایا،بلکہ باشعوربنا لیا۔ آپ بلوچستان سے نکلیں، اور سکھ پنجابیوں اورمسلمان پنجابیوں کے باہمی بارڈر واہگہ تک جائیں، راستے میں جہاں بھی درس و تدریس کاکوئی معتبر سٹیشن ہوگا وہاں کا سٹیشن ماسٹر انوار احمد کا شاگرد ہوگا۔ اور ایسا ویسانکما سٹیشن ماسٹر نہیں کہ ٹرین جہنم لائن میں چلی جائے ،بلکہ محنتی اور حلال کھانے والا سٹیشن ماسٹر۔

اسلام آباد میں سنگت اکیڈ می آف سائنسز نامی تنظیم موجود ہے۔ میں وہاں اُس کے ایک اجلاس میںگیا۔ وہاںمجھے روالپنڈی علاقے کے ایک دور دراز کالج کا ایک لیکچر ار ملا ۔ذرا سا کریدا تو پتہ چلا کہ وہ بھی انوار کا مرید تھا ۔میں نے اُس مرید سے حیرت کا اظہار کیا کہ تمہارے اِس”آکٹو پس “انوار نے کہاں کہاں تک اپنے سوڈوپوڈز پھیلائے ہوئے ہیں۔ رشک و رفیقانہ مقابلہ قبائلی انسانوں کا ایسا وصف ہوتے ہیں جو انہیں دشمنی تک لے جاتے ہیں۔ انوار اپنی قسمت کو دعائیں دے کہ وہ مجھ سے( دنیاوی و عاقبتی دونوں لحاظ سے) ہزار گنا بلند مرتبت ہے ۔ پہنچ سے باہر ہے اس لےے ہر بار گلے میں پہاڑی کریلے کی تلخی جھیلتے ہوئے اُس کی عظمت نگل جاتاہوں۔ اپنے رشک کو حسد میں نہ بدلنے دیتے ہوئے میں نے اُس لیکچرار سے ایک نیا فر قہ کھڑا کرنے پر بہت بحث مبا حثہ کیا۔ میں نے اس فرقے کا نام بھی تجویز کیا:”فر قہ ِ انوار یہ “ ۔ہم دونوں اس پر رضا مند ہوئے۔ مگربہت ساری شیخ چلیاں چھوڑنے کے بعد معلوم ہوایہ فرقہ توپہلے ہی سے وجود رکھتا ہے ۔

انوار نے آخری خبریں آنے تک اٹھارہ پی ایچ ڈی اور17 ایم فلپیدا کےے تھے۔ اور مجھے یقین ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں بے حرمت و بے کرامت ڈگری پاشی کے برعکس انوار کی پیداکردہ یہ کوانٹٹی ،کوالٹی سے مبرا بالکل نہ ہوگی۔ ایک رجعتی بلکہ بنیاد پرست تعلیمی نظام میں وہ پی ایچ ڈیاں اس قابل تو نہیں کہ میں احباب کو انہیں پڑھنے کی سفارش کروں مگر اُن کے اندر عمومی اور بازاری بہاﺅ سے کچھ مختلف مواد ضرور ملے گا ۔یہ میری چھٹی حس کا ایمان ہے۔( کچھ کو میں نے دیکھا اور پڑھا بھی ہے!)۔

ڈاکٹر انوار احمد نے استاد کے پیشے کو 40 برس دےے ہیں۔ پارٹ ٹائم نہیں ہمہ وقت تربیت کنندگی کے چالیس سال ۔ اس کے شاگردوں میں سے درجنوں ایسے ملیں گے جن کی ذاتی زندگی اور ذاتی معاملات تک کو سلجھانے کا کام اِس استاد نے کیا ہے۔ بغیر کسی اکتاہٹ کے ، بغیر کسی بے زاری کے ،اوربغیر کسی قسم کا احسان جتلانے کے۔(فطری بات ہے کہ وہ اگلے جنم میں بھی استاد بننا چاہتا ہوگا!!)۔

انوار ہم سب کی طرح چھوٹی موٹی دنیا داری کرتے رہنے کے باوجود دل میں پکا آدرش وادی ہے۔ادب اُس کا میدان بنا تو اُس نے ادب کے ساتھ محبت جاری رکھی۔ میں اُس کی دوسری والی کسی محبت کے بارے میں نہیںجانتا، مگر میرے ساٹھ سالہ نیم سفید بالوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ انوار اِس کرامت والی نعمت کے بغیر اتنا تخلیقی و پیداواری شخص بن ہی نہیں سکتاتھا۔ ( ایک مسئلہ یہ بنتا جارہا ہے کہ اب ہم پرانے زمانے کے لوگ محبت، عشق، اورعورت بازی میں کنفیو ز ہوکر رہ گئے ہیں۔ محبت بے چاری ایک ایسا لفظ ہے جس کے ساتھ بہت کھلوا ڑ ہوتا رہا ہے۔پہلے تو مسیحیت نے محبت کے غبارے میں ہوا بھر بھر کر اُسے آفاقی ٹائپ کی چیز بنا ڈالا۔ پھر مولنا روم نے حدیں سرحدیں ربڑ پنسل کردیں۔ کچھ ہمارے اپنے تجربوں کا معاملہ بھی ہے۔کوئی کنفیوژن ، کوئی مسئلہ نہ ہوتا اگر ہمیں قبائلی نظام میں رہنے دیا جاتا۔ اس لےے کہ جنسی معاملات میں قبائلی نظام اور سرمایہ داری نظام میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ غضب تو فیوڈل ازم نے کردیا ۔ پردہ،پھر محبت، پھرعشق، عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی……..جاگیرداری نے اس سارے باب کا منہ کالا کرکے رکھ دیا۔اصطلاحات کی سبکی کے اِس خطے میں رہنے والا ہر شخص دو دو چہرے لےے پھرتا ہے…….. انوار اور اس کا قبیلہ اس بات کا مجسم گواہ ہے )۔

محقق انوار احمد کے اپنے مقالوں کی سنچری پوری ہونے کو ہے ۔ میں اُن چالُو عنوانات کا ذکر نہیں کرتا جن کی کسی نہ کسی طرح ریاستی آشیر باد کے تحت عملی دنیا میں فورسپس ڈلیوری کرائی جاتی ہے، اورجن میںہر نامور قلمکار کسی نہ کسی صورت پھسلتا رہا ہے۔ مثلاً سرسید احمد خان کی روشن خیالی، علامہ اقبال کی خرد افروزی ، اردو محبت اور یکجہتی کی زبان، یا، یوسف عزیز مگسی تحریکِ پاکستان کے راہنما، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے موضوعات ہیںجس میں انوار جیسے بہت سے شرفا اپنی فکری خواہشات کو مصنوعی او ربے جوڑ انداز میں جُڑا دیتے دیتے بے لذتی کے بے شمار غسل کرتے رہتے ہیں۔ میں تواُس کے ”دل دماغ کی آواز“ مقالوں کی بات کررہا ہوں کہ آخرت میں اُس کا توشہ یہی ہوں گے۔اور یہ مقالے تقریباً سو ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹر انوار احمد درجن بھر کتابوں کالکھاری ہے ۔ جن میں افسانے ہیں، خاکے ہیں، ناول ، خود نوشتیں ،تحقیقیں اور تنقیدیںہیں۔ اُس کی ایک کتاب اردو ادب کے معمار ” شوکت صدیقی“ اکیڈمی ادبیات سے شائع ہوئی۔ علاوہ ازیں اس کی تصانیف یہ ہیں:اردو افسانہ تحقیق و تنقید، تحریک ِ آزادی میں علامہ اقبال کا کردار، یکجا۔

” یا د گارِ زمانہ ہیں جو لوگ “ نامی اُس کی کتاب میں عام ماوشما کا تذکرہ نہیںہے بلکہ اس میںشان دار لوگ شامل ہیں: خلیل صدیقی، عرش صدیقی، فرمان فتح پوری، مرزا ابنِ حنیف ، مہر گل محمد،اصغر ندیم سید، ڈاکٹر سلیم اختر، ……..۔ 228 صفحات ضخیم اس کتاب کےعنوانات ہی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی تحقیق کا میدان کتنا وسیع اور متنوع ہے ۔
اِس میں ایک فقرہ دیکھےے: پہلے لکڑی ٹوٹی اور پھر میرا حوصلہ، جب میرے باپ نے زہریلے لہجے میں پوچھا ان سب بچھوﺅں کو تم مار سکے ہو؟ میں روتا ہوں کہ کیا بیٹے سے باپ کو یہی کہنا چاہےے ، وہ مجھے یہی کہہ دیتا کہ رات کے ختم ہونے کا انتطار کرو“۔

”…….. میرے بہت سے شاگرد ہیں جو اعتکاف میں بیٹھنے سے بھی پہلے مجھ سے پوچھتے ہیں، کہ آپ کے لےے کیا دعا مانگی جائے اور میں اُن سے کہتا ہوں کہ اپنے اللہ سے کہو میرے شاگردوں کی زندگیوں میں دکھ کم نہیں کرسکتا تو اُن کی ہمت ہی بڑھادے“۔

ضیاءالحق کی موت پر جب اُس کے حامیوں نے اُسے شہید قرار دیا تو انوار نے اُسی روز ایک محفل میں کہا ” علامہ اقبال کے مصرعے ، شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ، کا مطلب اب سمجھ میں آیا ہے“(8)۔

ایک اور فقرہ……..” اس نے مجھے …….. کمپوزنگ کی دس بارہ غلطیوں کی ایک فہرست بھی بنا کے بھیجی، جس میں ” دورِ ضیاع“ کے بارے میں لکھا کہ عین فالتو ہے“۔

”…….. کف بہ لب، سنگ درد ست مہربان نہیں جانتے کہ حسن کو سنگسار نہیں کیا جاسکتا اور صداقت کو سولی پر نہیں لٹکایا جاسکتا ، کسی عہد میں بھی شپرہ چشم، آفتاب کو بجھا نہیں سکتے“۔ (9)۔

ایک اور فقرہ :” …….. دو چار مرتبہ تو کسی خطاب کے دوران اور اپنے کالموں میں بھی مجھے ” سقراط “سے مماثل قرار دیا ، جس پر میں نے دست بستہ التجا کی کہ لوگوں کی نظروں میں سقراط کی عزت تو رہنے دیں، مجھے تو اپنی بیوی کے سامنے بھی سچ بولنے کی توفیق نہیں ہوتی“۔ (10)

ایک اور فقرہ : اجمل نیازی کے سفر نامے ” مندر میں محراب“ کی تقریب رونمائی …….. میں میں نے نیازی سے کہا بھی کہ تم میرے اظہار رائے کی تاب نہیں لا سکو گے ، جب کہ میں تم سے اپنے دوستانہ مراسم برقرار رکھنا چاہتا ہوں ۔ اُس نے کہا، نہیں تم کُھل کے بولو“۔ میں آدھا کُھل کے بولا، اس نے مجھے ملک دشمن قرار دے کر پہلے پمفلٹ لکھا، اور پھر میرے پسندیدہ سکھ کی طرح ” مور اوور“ کہہ کر دو کالم ……..“۔ (11)۔

محسن نقوی کے بارے میں انوار نے لکھا : وہ خاص طور پر شوکت حسین رضوی کی وضعداری کا ذکر کیا کرتا تھا اور بتایا کرتا تھا کہ میں اُن کی مجلس پڑھنے سے پہلے اُن کے قالین یا ایئر کنڈیشنر کی تعریف کردوں تو واپسی پر اِن اشیا کو میں اپنے گھر میںپاتا ہوں۔ میں نے کہا ” ایسے لوگ اس لےے بھی جلدی کرتے ہوں گے کہ کہیں تم اُن کی گھریلو اشیا کی بجائے افرادِ خانہ کی تعریف پر نہ اتر آﺅ“۔(12)۔

کہانی کا قصہ پن تو اس کے افسانوں کی اولین خاصیت ہے ۔ ڈاکٹر انوار احمد کی کہانیاں 1947کے بعد اُبھرنے والی نسلوں کی بے اطمینانی ، عصری انتشار، سیاسی و معاشی مذہبی صورتحال کا خوبصورت بیانیہ ہیں۔ یہ کہانیاں ترقی یافتہ ممالک کی تہذیب و معاشرت کوبھی اُجاگر کرتی ہیں۔

اُس کی کہانیاں نہ صرف صنف افسانہ کومتنوع موضوعات و نئی تکنیک اور اُسلوب سے آشنا کرتی ہیں بلکہ یہ انوار احمدکا روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جدت اور منفرد فنکار کے طور پر شناخت کراتی ہےں ۔

مزاح تو اُس کی ہر کتاب کے ہر صفحے کے ہر پیراگراف میں ملے گا،مگرفکشن اور تنقید اُس کے اصل میدان ہیں جہاں اُس نے اپنی تحقیق کا خوردبین فِٹ کےے رکھا۔ ایک موٹی سی کتاب، ” اردو افسانہ …….. ایک صدی کا قصہ“ تحقیقی و تنقیدی ہے۔ انوار کی تنقید میں کوئی یکسانیت کوئی بوریت نہیں ہے بلکہ اس میںبڑی ہمہ جہتی ہے، آفاقیت وعالمگیریت ہے، ایک وسیع النظری ،گہرائی اور گیرائی ہے ۔ سٹائل تو اُس کا معلوم ہے کہ اُس میں بڑا تیکھا پن، مزاح کے ٹوٹے ، طنز کے پھول اور بلا کی بلاغت موجودہوتی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ میں اس کی تحریروںکی براعظمی طوالت میں کوئی ایک کلومیٹر بھی ایسا نہیں ڈھونڈ پایا جہاں سبزہ جیسی شگفتگی موجود نہ ہو۔اگر اُس کی کتاب کا سرورق پھٹا ہوا بھی ہو تو اچھے، گہرے اور دلکش فقرے مائل سٹون کی طرح جا بجا آپ کی رہنمائی کریں گے کہ آپ انوار احمد کی تحریر پڑھ رہے ہےں۔اس کی تنقید کی پہلی کتاب ” خواجہ فرید کے تین رنگ “ کے عنوان سے بزمِ ثقافت ملتان سے 1985 میں شائع ہوئی تھی۔

انوار رجعتی تحریروں اور لکھاریوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے، مسلسل ، مستقل اور نپے تلے انداز میںدلیل کو بڑھانا، اوہام پرستی سے نجات دلانا اور انسان سے محبت کرنا …….. بس یہی بات ہے اُس ہرجائی کی۔ وہ اپنا معیار برقرار رکھتے ہوئے ماضی پرستی کو ٹھونکے مارتا جاتا ہے۔ اس رحجان نے اُسے ایک اچھا محقق اور ایک اچھا تخلیق کا ر بنا ڈالا۔

اُس کے منطقے میں دھرم کو سیاسی بنے سینکڑوں سالوںکی طویل عمری نصیب ہوئی ہے۔ حاکم ذہنیت کی زہر میں بجھی ادبی تلوار، جب بھی کار گر نہ رہے تو وہ جھٹ پنجسورہ نکال لائے گی۔ اور بلوچستان پہ پانچویں بار کی فوج کشی جیسے بڑے جرم تک کو بھی کامیابی کے ساتھ اُس میں چھپا دے گی۔ انوار اُس منطقے کے بھی عین مرکز میں رہتا ہے ۔ کمال ہے کہ پھر بھی اس نے حق پرستی کی اپنی زبان پہ میل نہ جمنے دی۔ وہ مزاحمت بھی خندہ پیشانی سے بیان کرتا ہے، گرفت سے بچتے ہوئے بات کہنی سکھاتا ہے…….. معاشی طبقاتی تضادات، اورظلم و جبر کے خلاف بات ۔ وہ چلتے چلتے میں ، بس گپ شپ مےں سماجی طنز کا ایک آدھ ٹھوکا دے مارتاہے ۔ ایسے ہی ،معصومیت کی شیطانی!! (بلوچی میں شیطانی شرارت کو کہتے ہیں) ۔ اسی طرح وہ بدعتوں کی مذمتی لاﺅڈ سپیکر کا متولی رہتے رہتے خود ایسی ادبی بدعتیں کر جاتا ہے کہ ” لا ابالا“ کہہ کر ہر کوئی بغیر گوشمالی کےے آگے پڑھتا جاتا ہے۔فقرہ ایسا مارتا ہے جیسے شہ مرید کی مضبوط کمان سے نکلا تیر ہو، کاٹ دار۔ بھئی اُس کے سماج سے متعلق اس کا یہ پیراگراف پڑھے بغیر تو میں آپ کو بالکل جانے نہ دوں گا:

”…….. ہمارے ہاں فرید جیسے ثقافتی اور تخلیقیIcon کو مجاوروں نے کچھ اس طرح بھی گھیرا کہ بسا اوقات مطالعہِ فرید کے لئے بہت سے دروازے بند محسوس ہوئے کیونکہ ہمارے ہاں شعر و ادب کے قارئین کی اکثریت کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے ، جن میں سے بیشتر کا تاریخ سے رشتہ جنابِ نسیم حجازی کے ناولوں کے ذریعے قائم ہوا، اپنے وطن کی شادمانی اور اسلام کے حوالے سے نشاة الثانیہ کے خوابوں کی آبیاری کبھی نعمت اللہ شاہ ولی کی پیش گوئیاں کرتی ہیں ، کبھی نمازِ عید کے موقع پر مناجات سے مماثِل دعائیں کہ اللہ تعالیٰ کفار کی توپوں اور طیاروں میں کیڑے ڈال یا باری تعالیٰ ہمیں فتح دے بغیر لڑے۔ اس طبقے کے اخلاص اور درد مندی سے کون انکار کرسکتا ہے مگر جذباتیت اور رقت پر مبنی ہمارا اخلاص اپنی سرزمین سے دور ہیرو، غازی اور مجاہد تلاش کرتا ہے جو ساری دنیا کو تبدیل کےے بغیر اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں یا گم ہوجاتے ہیں اور ہم ان کی بازیابی کے خوابوں میں پھر کچھ صدیوں کے لےے سو جاتے ہیں۔ یہ بھی ہماری جذباتیت ہے کہ ہم عالمِ اسلام کے متحد ہونے کی آرزو تو رکھتے ہیں ان کے موجودہ غاصبانہ سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کی تبدیلی کے لئے ذرا بھی غور نہیں کرتے، ہم نفاذ اسلام کو نفاذ تعزیرات خیال کرتے ہیں، فراہمی ِ مراعات یار عایات نہیں، ہم اس دنیا کو جنت بنائے بغیر آدم کے ہاتھ سے نکلی ہوئی جنت کے بارے میں من چاہا خواب دیکھتے ہیں، شرح خواندگی اور معیارِ زندگی جنوبی ایشیاءکے ملکوں تک میں سب سے پست رکھنے کے باوجود خود کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت خیال کرتے ہیں ، زراعت میں فرسودہ طریقے استعمال کرکے بھی خوشحالی اور خود کفالتی کے خواب دیکھتے ہیں، دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کے حاشیہ بردار بن کر خود کو ان کا اتحادی اور دوست خیال کرتے ہیں، آمریت کے سایوں میں تشکیل پانے والے اداروں اور افراد سے جمہوری روےے کی توقع رکھتے ہیں، کئی عشروں سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے کشکول کے باوجود خود کو غیور سمجھتے ہیں، 14 اگست کو سرکاری جوش کے ساتھ یوم آزادی منا کر اپنے بچوں اور بھائیوں کو ٹرالروں اور کنٹینروں میں بند کرکے اجنبی زمینوں اور ساحلوں کے حوالے کرتے ہیں، ہم بھی کیا دلچسپ لوگ ہیں، اپنی تعمیر سے قاصر مگر ہم میں سے بہت سے بزعمِ خویش معمار قوم کے منصب پر فائز اپنی ذات کی معرفت سے بے گانہ مگر اجتماعی عرفان کے لےے چلہ کشی……..“ (13) ۔

ہماری نسل کا بھلا وہ کونسا شخص ہوگا جس کے گلے کی طرف ضیاءالحق کا طبعی یا فکری خونی پنجہ نہ بڑھا ہو ۔ انوار اور اُس کے سارے احباب پر بھی سختیوں کا موسم آیا۔ نوکریوں سے برطرفیاں، دور افتادہ مقامات پہ تبادلے، الزامات ، مقدمات، گرفتاریاں……..اِس ٹیچر پر : پی آئی اے کاطیارہ اغواءکرنے کا الزام لگا۔ مجھے یقین ہے کہ انوار نے زندگی میں صنف مخالف میں سے کئی اوں کو اغوا کرنے کی خواہش کی ہوگی اور اِس ارادہِ گناہ پر عمل نہ کرنے کی سزا بھی اس نے خوب پائی ہوگی۔ مگر جہاز کا اغوا؟ بھئی اُس شخص کی بُنت ہی ایسی ہے کہ وہ جہاز پر بیٹھنے سے قبل سلامتی کی آیتوں کو سو بار پڑھتا ہوگا، اغواءتو بہت بڑی بات ہے ۔

چنانچہ،مارچ 1981 میں اُس کے وارنٹ گرفتاری نکلے۔ رو پوشی کی مشاورت پہ عمل کیا اور جان بچائی۔ضیا دشمنی میں انوار کا شمارا گلی صفوں میں ہوتا ہے، مگراُس کی یہ ضیا دشمنی شخصی نہیں ہے۔ بلکہ اُس کا نشانہ وہ رحجان ہے جس سے سماج میں ضیا الحق بنتے ہیں۔

” ضیاءالحق دور میں ہم دو چار دوست ہر ایسا کام کرنے کے لےے تیار رہتے تھے جس سے کہ عوام یا جج یا فوج اُس کا تختہ الٹ دے ( کیا رومانوی سوچ تھی)۔ شیعہ حضرات نے جب زکات کے حوالے سے تحریک شروع کی، اور اسلام آباد کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی اور اس حوالے سے خبریں شائع ہوئیں ، تو میں نے یہ جذباتی تجویز پیش کی کہ اے بی اشرف ، ارشد ملتانی، شفیع اختر اور میری طرف سے ایک پریس ریلیز جاری کیا جائے کہ ڈکٹیٹر کے خلاف شیعان ِ حیدر کرار کی تحریک سے متاثر ہوکران سب نے بھی شیعت قبول کرلی ہے ……..( 14)۔

ڈاکٹر انوارکی ہمیشہ کوشش رہی کہ لوگوں کو ذمہ دار شہری بنایا جائے۔ چنانچہ وہ کوئی رسالہ کوئی کتاب مفت نہیں پڑھتا ، پیسے دیتا ہے ۔ اور اُس کی تشہیر کرتا ہے تاکہ دوسرے لوگ بھی تقلید کریں اور ” مفت خوانی“ والا رواج ختم ہو۔

ڈاکٹر انوار اس لحاظ سے بھی اچھا آدمی ہے کہ وہ لوگوں کو لکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ لکھے کو چھاپنے کے وسائل کرتا رہتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ شائستہ جمال کی سرگزشت لکھنے کے لےے وہ شائستہ سے الگ اصرار کرتا رہتا تھا اور پھر اُسے سنگت کے اندر شائع کرنے کے لےے مجھے الگ قائل کرتا رہتا تھا۔ آج وہ صاحبِ کتاب ہے ( صاحبہِ کتاب بولنے والوں کو میری نفرت پہنچے)۔

انوار احمدجب ذکریا یونیورسٹی میں تھا تو خلیل صدیقی صاحب کو ہر سال دو تین ماہ کے لےے لسانیات کے کورس کی تدریس کے لےے بلاتا تھا۔ تو ” ایک کلاس کو میں نے اُن کے پیچھے ڈالا کہ ہمیں آپ کے لیکچر امتحان کے وقت بھول جاتے ہیں، ہمیںکچھ لکھ کر دیجےے ۔ یوں دو کتابیں وجود میں آگئیں:” زبان کیا ہے “ اور ” آواز شناسی“۔( 15)۔

ڈاکٹر انوار نے روشن فکر ادیبوں دانشوروں کی فکری ہم آہنگی کے لئے سیمیناروں ، کانفرنسوں اور کانگریسوںکی شکل میں بے شمار مواقع فراہم کےے۔

ڈاکٹر انوار کی ایک بہت بے ثمر خد مت اورمہارت، روشن فکر ادیبوں کی تنظیم کاری کی کوشش رہی ہے ۔ اس نے 2007میںملتا ن میں ایک بڑی کا نفر نس بلا کر زبر دست انداز میں اس پیدائشی طور پر ودیعت شدہ ٹوٹتے رہنے کی ” صلاحیت“ والی تنظیم کو دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑ اکر نے کی کو شش کی تھی ۔ اسی طرح وہ ہرا دبی اکٹھ میں اس متبا دل سو چ کو پر وان چڑ ھانے کی سعی ضرور کرتاہے ۔کبھی کبھی کا میاب بھی ہوتاہے ،اکثر نیم کامیاب اور ناکامی کا تناسب تو ثریا ستارے جتنا بلند ہے ۔ کوئی تخلیقی فارمولا ابھی تک ایسا سامنے نہ آیا کہ اس ملک میں کوئی دیرپا ادبی فیڈ ریشن ، یا کنفیڈ ریشن قائم ہو ۔ مرکز یت والی تنظیم تو خیر ممکن ہی نہیں کہ غیر اعلانیہ ون یونٹ نے سماج کے کپڑے کا ایک ایک دھاگہ ادھیڑ ڈالاہے۔

انوار ” رائٹ“ سیمیناروں میں ” لیفٹ“ کا واحدا وراکلوتا نمائندہ ہوتا ہے ۔ نہ جائے تو بے چین ہوتا ہے کہ چھٹی نہیں ہے کافر ہے منہ کو لگی ہوئی۔ جاتا ہے توآخر میں خود کو پشیمان پاتا ہے ۔اور ہمیں نہ جانے کی نصیحتیں کرتا ہے۔ایسی دل نہ خواستہ جگہوںمیں ” چَس “ تو بہت ہوتی ہے مگر بندہ روحانی طور پر رُل جاتا ہے۔

انوار احمد نے ” وعدہ خلافی“ کے عنوان سے اخبار میں کالم لکھنے کا تجربہ بھی کیا۔وہ کچھ عرصہ تک اچھے دلچسپ کالم لکھتا رہا۔ بعد میں آخر” گھوڑا بھی تو انسان ہے تھک ہی جاتا ہے “ کے مصداق اُسے یہ شعبہ ترک کرنا پڑا۔ ”راضی خدا خود ہوا بہانہ سمو بنی“کے مصداق پالیسی پہ اختلاف نے اُسے اِس بے مراد کام سے نجات دلوایا۔

وہ ایک ویب سائٹ پہ بھی سماجی سیاسی مضامین لکھتا رہا۔

وہ جتنا خوبصورت لکھتا ہے اتنا ہی خوبصورت بولتا ہے ۔ڈاکٹر انوار احمد باغ و بہار شخصیت کا مالک ہے۔ اس کی حسِ مزاح نے اس کی شخصیت میں ایک خاص طرح کی انفرادیت پیدا کردی ہے۔ خود ہنسنا اور دوسروں کو ہنسانا اسے خوب آتا ہے ۔اتنا بولتا ہے اتنا بولتا ہے کہ محفل میں وہ کسی کو کھانسنے چھینکنے یا جمائی لینے تک کے لےے منہ کھولنے بھی نہیں دیتا۔ ذرا کم بولو نا یار!۔

ابھی حال میں وہ ملتان سے ایک کثیر اللسانی سہ ماہی رسالہ ” پیہلوں “ نکالنے لگاہے ۔پنجابی ، سرائیکی اور اردو میں ۔ قاری ، لکھا ری ، خرید ار، اورچند ہ بردار سب کے سب اُس کے اپنے شاگر د ہیں ۔ کتنا بڑا حلقہ ہے اس کا!! ۔

کوئی مجھے بڑے سے بڑا واسطہ دے کر بھی کہے کہ میں انوار کی بڑائی اُس کے حاصل کردہ پرائیڈ آف پرفارمنس، علامہ نیاز فتح پوری ایوارڈ، بیسٹ پلے رائٹ ایوارڈ، اوربیسٹ ٹیچر ایوارڈ جیسی حقیری دنیاوی فُٹّوںسے ناپ لوں، تو میں تین دفعہ انکار کروں گا۔ انوار بہت بڑا آدمی ہے بھائی!۔

انوار کا شمار تو خیر کاروان کے سالاروں میں ہوتا ہے، اگر وہ اُس کے قبیلے کا عام فرد بھی ہوتا تو بھی ہم اُس پہ واری ہوجاتے۔ بھئی کوئٹہ سے روانہ ہوجائیں تو سبی، ڈیرہ مراد جمالی اور اوستہ محمد تک درمیان کوئی سٹاپ نہیں ملے گا جہاں انسان دو چار گھڑی کسی باوقارانسان دوست اورفہمیدہ کارکن کے ہاں سستا لے۔ ملتان سے پہلے علم و دانش و کٹمنٹ کی کوئی سرائے کوئی مہمان خانہ نہیں۔ ملتان،جہاں انوار ہے، روبینہ ترین ہے، قاضی عابد ہے، ملک محمد علی بھارا ہے، میاں اقبال ہے، مہر اللہ مری ہے ، لالین ہے ۔ الغرض اس کی سوچ کا پوراقبیلہ آباد ہے ۔ اس قحط الرجالی میں انوار تو آنکھوں کا تارا ہوگا ہی۔ وہ اس لےے بھی ہمیں پیارا ہے کہ کبھی کبھار اِدھر اُدھر دنیاوی پینلٹیاں مارتے رہنے کے باوجود، اُس نے بیلچہ ابھی تک نہیںپھینکا ۔ نئے پودوں کی کاشت اور کونپلوں کی آبیاری کا بیلچہ !۔

حوالہ جات

-1انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ52

-2انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ118

-3 بلوچستان کی دل آمیز شخصیتیں ۔ روزنامہ ” دنیا“ 17 ستمبر2012۔

-4انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ46

-5 شائستہ جمال ۔ زندگی اک تماشا۔ 2013۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔ صفحہ88

-6انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ98

-7انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ98

-8 شائستہ جمال ۔ زندگی اک تماشا۔ 2013۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔ صفحہ90

-9انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ41

-10انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ42

-11انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ42

-12انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ71

-13انوار احمد ، ڈاکٹر ۔ مقالہ در کتاب ” خواجہ غلام فرید سیمینار“ ۔2007 ۔ بہاﺅ
الدین ذکریا یونیورسٹی ‘ملتان۔صفحہ35

-14انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ103

-15انوار احمد۔یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ۔2008۔ مثال پبلشرز۔ فیصل آباد۔صفحہ97

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے