غیر حاضر ہے ، بلا نام ، بلا صورت ہے

اور کسی شکل میں ڈھلنا نہیں سیکھا اس نے

وقت اک بُعدِ چہارم ہے ، اسے پہچانو

ایک لمحے میں کبھی ایک صدی بنتا ہے

اور کبھی پوری صدی ہے فقط لمحے کی اسیر

گوش سے ہوش تلک، آنکھ سے بینائی تک

ہاتھ سے لمس تلک، بات سے شنوائی تک

سطحِ احساس کو چھولیتا ہے دم بھر کےلئے

اور پھر یاد کی پرچھائیں سی رہ جاتا ہے

اک جگہ رک بھی اگر جائے تو چلتا ہی رہے

اور چلتا ہے بلا حرکت و افزائش سا

موجہِ بحر کی مانند رواں ہے ہر دم

اور کسی سمت رواں ہو، یہ ضروری بھی نہیں

برگساں ہو تو چلے ایک ہی جانب لیکن

وائٹ ہیڈ تو اسے بُعدِ مسلسل کہیے

اس کی سرگرم ِسفر حرکت وحدت سے مجھے

اس کا احساس ہے میں آج نہیں جو کل تھا

آج کا ستیہ پال آنند ؟وہی نام، مگر

اک نیا شخص ، نئی شخصیت ، کردارنیا

مختلف ماضی ِمطلق سے ، یا اُس ”کل“ سے جسے

ایک مستقبلِ امکاں میں اسے ملنا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے