بدن کو آگ، نظر کو غلاف ہونا تھا

یہیں تو تیرا میرا اختلاف ہونا تھا

دیارِ جاں میں کہیں پھول کھلنے والے ہیں

نئی رتوں میں کوئی انکشاف ہونا تھا

ہوا کے پیچ میں رقصاں گلاب کی خوشبو

محبتوں میں یونہی انحراف ہونا تھا

میں چپ رہا تو تیری آنکھ کے سخن پہنچے

دلوں کا میل بہر طور صاف ہونا تھا

گروہِ سنگ زناں اور ان کے ساتھ میں تو!

قرارِ جان تجھے بھی خلاف ہونا تھا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے