میں شاعر نام کا وحشی

میں شہرِ خواب کا باسی

بوجہِ زور فرمائی……..

اب اپنے نا خلف جذبوں کو

دل کی سب کہی اور ان کہی حالت کے

خون ِرائیگاں سے عاق کرتا ہوں

تعلق توڑ دیتا ہوں

سواب کے گرمرے جذبے

طلب کی بدخوئی لے کر

کسی کے ریشمی سینے سے جھگڑیں

یا

کسی کے مر مریں ہونٹوں سے چاہت میں

شراکت کی زبان رکھیں

تو واضح ہو

کسی انجام کی صورت

کسی نقصان کی مد میں

مجھے الزم مت دینا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے