محبت ہے شہرِ اساطیر کا وہ پرندہ

کہ جس کے پروں کی سماوی رسائی

زماں سے زماں تک

نشاں سے نشاں تک رہے گی!

بھی اِس سمندر کی پہنائی میں ہیں

کئی لاکھ برسوں کی آئندہ و رفتہ لہریں

یہ لہروں کی مہتاب گاہیں

کہ جن کی رگوں میں رواں ہے کہیں صبح ِ پیغمبراں

اور کہیں عصرِ مقتل

کسی لہر پر نقش ، فرہادو شیریں کے قصے

کہیں پر تصوف کی حیرت سرا

جہاں گونجتی ہے ابھی تک” انا الحق“ کی زخمی صدا

کراں تا کراں!

یہ وہ بے خودی ہے

کہ جس کی روایت میں زندہ ہیں اب تک

خلا و ملا کے مساکن،

یہ دریا،

یہ بے نم بیاباں،

یہ مٹی،

یہ مٹی کا اظہار،

انساں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے