کارل ساگان بیسوی صدی کے امریکہ کی ایک ایسی نامی گرامی ہستی کا نام ہے جس نے ایسٹرونومی، ایسٹر و فزکس اور ایسٹرو بائیولوجی کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دےے۔ وہ ایک بہت اچھا لکھاری اور یکتائے روزگار قسم کا سائنسی شومین بھی تھا جس نے سائنس کو آسان بنا کے عوام کے سامنے پیش کیا اور اس کی ترویج اور پاپولر بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ اس نے نظام شمسی کے دوسرے سیاروں مثلاً مریخ، وینس اور جوپیٹر اور سیرن کے کچھ چاندوں پر زندگی کے انتظامات کا جائزہ لیا اور خلائی ایجنسی ناسا کے ساتھ جم کر سالہا سال مختلف پراجیکٹس پر کا م کیا۔ اس نے امریکی خلائی مشن (پائی نیر) اور وائے جر(Voyger) پر انسانی تصاویر اور آوازوں سے مزین ایسی تختیاں بھجوائیں جو اب کئی دہائیوں سے خلائے بسیط میں رواں دواں ہیں۔ یہ پیغامات شاید کبھی کسی خلائی مخلوق کے ہاتھ آئیں تو وہ زمین کا پتہ بھی معلوم کرسکیںگے۔کارل کو ایگزوبائیولوجی (Exo Biology) سے بھی بہت دلچسپی تھی۔ اس لےے اس نے زمین سے دور زندگی کے امکانات پر بھی بہت کام کیا۔ اس نے تجربات سے دکھایا کہ زندگی کی پیدائش کے لےے جو کیمیائی مرکبات ، جیسے امائینو ایسڈ(Amino acid) وغیرہ، ضروری ہوتے ہیں وہ عمومی مادے سے ریڈیائی طریقوں سے بنائے جاسکتے ہےں۔ لہٰذا دوسری دُنیاﺅں میں زندگی ہونے کے امکانات روشن ہیں۔
کارل کا پورا نام کارل ایڈورڈ ساگان تھا ۔ و ہ 9نومبر1934 کو نیویارک میں پیدا ہواتھا۔ اُس کا والد یوکرائن سے آیا ہوا ایک یہودی مہاجر تھا اور وہ گارمنٹ انڈسٹری میںکام کرتا تھا ۔ اُس کی والدہ بھی نیویارک کی تھی ۔ یہ ایک غریب گھرانہ تھا مگر انہوں نے اپنے بیٹے کارل اوربیسٹی کیرل کو تعلیم کی دولت سے خوب آراستہ کیا۔ کارل نے 1951 میں نیوجرسی سے ہائی سکول اور 1960میں شکاگو یو نیورسٹی سے فلکیات اور ایسٹروبائیولوجی میں ڈاکٹریٹ کا امتحان پاس کیا۔
بعد ازاں وہ ہارورڈ یونیورسٹی اور کارنل یونیورسٹی میں فلکیات کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔
اس نے چھ سو سے زیادہ سائنسی مقالے اور مضامین لکھے ، بیس سے زیادہ کتابوں کا مصنف یا ایڈیٹر رہا ، اور1980 میں ٹی وی کی ایک شاہکار اور پاپولر خلائی سیریز” کوسموس “کا لکھاری اور پیش کار بھی تھا۔ اُس کی کتابContact پر 1997 میں اسی نام سے ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنائی گئی۔ یہ سائنس فِکشن فلم زمین پر کسی خلائی مخلوق کے ریڈیائی پیغام کی وصولی کے موضوع پر تھی اور کامیاب رہی۔
کارل ساگان ایک بہترین تخلیقی ذہن کا مالک تھا ۔ اس نے کھل کر کہا کہ ہمیں تنقیدی سوچ اور تشکیلی انکوائری کو تعلیم میں فروغ دینا چاہےے۔ اس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ کارنل یونیورسٹی میں فلکیات کے پروفیسر کی حیثیت سے بسر کیا ، جہاں وہ تنقیدی سوچ پر ایک کورس بھی پڑھاتا تھا۔ وہ کارل یونیورسٹی میں سیاروں کے مطالعے کی لیبارٹری کا ڈائریکٹر بھی تھا۔ وہ ناسا سے ایک عرصے تک بطور ایک ایڈوائزر کے منسلک رہا اور ناسا اور دوسروں سے بہت سارے انعامات بھی لےے۔ جیسے کہ پبلک سروس ایمی اور پی باڈی ایوارڈز اور پلٹزر انعام۔
کارل کے اہم کاموں میں وینس(Venus)سیارے پر اُس کی پیشگوئی بھی شامل ہے کہ اُس کی سطح بے حد خشک اور جہنم کی طرح گرم ہے جہاں درجہ حرارت(500 )ڈگری سینٹی گریڈہوسکتا ہے۔ یہ بات 1962 میں ناسا کے خلائی جہاز میری نر۔2((Mariner-2) نے کنفرم کردی۔ وینس کا جہنم گرین ہاﺅس گیس (جیسے کاربن ڈائی اکسائیڈ) کی ایک دبیز چادر چھا جانے کی وجہ سے ہے جو حرارت کو خلا میں جانے نہیں دیتی اور ایک کمبل کی طرح سیارے کی سطح کو گرماتی ہے۔ وینس اتنا گرم ہے کہ وہ سطح پر سیسہ پگھل سکتا ہے۔ لہٰذا وہاں زندگی کا گزارہ نہیں ہوسکتا۔
کارل نے سیٹرن سیارے (Saturn) کے سب سے بڑے چاند ٹائی ٹن کے بارے میں بھی ٹھیک پیش گوئی کی تھی کہ وہاں کی سطح پر مائع مرکبات کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ٹائی ٹن کی سطح پر ہائیڈرو کاربن مرکبات جیسے میتھین کی جھیلیں اور سمندر ہیں اور یہ آبادیوں سے برستے ہیں ۔وہاں کا سطحی درجہ حرارت 179 سینٹی گریڈ منفی ہے۔اِسی طرح کارل نے جو پیٹر(Jupiter)کے ایک چاند یوروپا(Europa) کے بارے میں کہا تھا کہ وہاں کی برفانی سطح کے نیچے پانی کے سمندر ہوسکتے ہیں۔ یہ بات بھی اب صحیح لگتی ہے ، اس طرح وہاں زندگی بسائے جانے کے امکانات بھی ہوسکتے ہیں۔
کارل نے زمین پر بھی گلوبل وارمنگ کے ابھرتے ہوئے خطرات کو پہچانا تھا اور اِسے وینس(Venus)پر آ¶ٹ آف کنٹرول گرین ہاﺅس اثرات سے مماثلت دی تھی۔ آج کی دنیا میں یہ مسئلہ سیاسی فٹبال بن گیا ہے گو کہ اس زمین کے اکثرگلیشیئر برف سے پانی ہورہے ہےں اور کارل کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ قطبین کی برف بھی پانی ہوکر سمندروں میں آرہی ہے جن کی سطح بلند ہورہی ہے اور بحرِ ہند میں مالدیو جیسے جزائر کے ڈوبنے کا خطرہ بہت بڑھ چکا ہے ۔ ہمارا اپنا جنوبی کراچی کا ساحل بھی بہ آسانی ڈوب سکتا ہے۔
مریخ کے بدلتے رنگوں پر بھی کارل نے کہا تھا کہ یہ موسمی اثرات ہوسکتے ہیں اور صحرائی ریت کے آندھی طوفان اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ آج مریخ (MARS) پر امریکہ کے دو ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے ٹھیلے سائنسی تحقیقات میں مصروف ہیں اور کارل کی باتوں کی تائید ہوچکی ہے۔
اکثر سائنس دان یہ نہیں جانتے کہ اپنی سائنس کو عام فہم کس طرح بنائیں اس لےے اُن کی باتیں عام لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں ۔جیسے اکثر لوگوں کو آج بھی یہ معلوم نہیں کہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت آخر ہے کیا ۔ گو کہ اب اس بات کو سو برس سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ یا پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ پروفیسر عبدالسلام نے آخر کس بات پر یہ انعام حاصل کیاتھا۔ کارل ساگان میں یہ صلاحیت خوب موجود تھی کہ وہ اپنی تحریروں اور میڈیا کے ذریعے اپنی باتوں کو عام لوگوں اور خواص تک پہنچانے پر قادر تھے ۔ اُن کی باتوں کو اکثر لوگ پسند کرتے تھے مگر کچھ لوگ انہیں پسند نہیں بھی کرتے تھے ۔ حتیٰ کہ اُن کو نیشنل اکیڈمی آف سائنس کا ممبر نہیں بننے دیا گیا اور اُن کو اپنی تنقیدی باتوں پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ مگر کارل اپنے راستے سے ہٹنے والے نہیں تھے اور ڈٹے رہے۔
کارل ساگان جیسے جری اور کارآمد لوگ اس جہاں میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ بقول میر تقی میر ، پھرتا تھا فلک برسوں ، تب کہیں جاکے خاک کے پردے سے کوئی ایسا ہیرا برآمد ہوتا ہے ۔ سو، مت سہل انہیں جانو ۔کارل گو کہ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور امریکی عیسائی معاشرے میں پروان چڑھا مگر وہ مذہبی اثرات سے باہر ہی نظر آتا ہے۔وہ اپنے آپ کو ایک اِگناسٹک انسا ن سمجھتا تھا۔ وہ روحانی جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ سائنس بجائے خود ایک روحانیت کا سرچشمہ ہے۔ اس کائنات میں جتنے تارے ہیں ان کی تعداد اُن تمام ریت کے زروں سے زیادہ ہوگی جو اس زمین پر سمندروں کے ساحلوں پر بکھرے ہوئے ہیں ۔ جب ہم اتنی وسیع و عریض کائنات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اپنے گرد پھیلے ہوئے زندگی کے انتہائی پر اسرار اور خوبصورت حصار کو دیکھتے ہیں تو عجیب سے جذبات اُبھرتے ہیں۔ جیسے ہماری سر گوشی اور کم مائیگی بہ یک وقت ہم سے ہم کلام ہو۔ سائنس ہمیں یہ سب کچھ سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ اور اس پروہ اسرار کے پیچھے کار فرما قوانین قدرت کی نشان دہی کرتی ہے۔ یہ سب کچھ روحانیت نہیں تو اور کیا ہے؟ اصل شہودُوشاہدو مشہود ایک ہے (غالب)۔
کارل ساگان یہ چاہتا تھا کہ مذہب اور سائنس دونوں اپنا اپنا مثبت رول ادا کریں تاکہ ہم ایک بہتر سے بہتر سماج کی تشکیل ہوسکے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے سارے بے کار ، فرسودہ اور گلے سڑے اوہام و توہمات سے نجات حاصل کریں۔ کارل کہتا تھا کہ اگر کوئی ایک غیر معمولی دعویٰ یا کلیم کرتا ہے تو اُس کو چاہےے کہ کوئی غیر معمولی ثبوت بھی فراہم کرے تاکہ اُس کی بات کی تصدیق ہوسکے اور تائید کی جاسکے۔ ورنہ
عقل تو زہر ہے وہ بات جو معمول نہیں
( مصطفی زیدی)
ذرا سوچےے کہ عقل کی کسوٹی پر ہمارے کتنے دعوے پورے اُتر ےں گے ۔ ہمارے ہاں تو تنقیدی سوچ کا تقریباً مکمل فقدان ہے۔ اندھیرا ہے گُھپ۔ مگر کارل ساگان اس کے اتنے قائل تھے کہ کارل یونیورسٹی میں وہ تنقیدی سوچ پر ایک کورس عرصے تک پڑھاتے رہے۔ اُن کی کتاب ”دی ڈیمن ہانٹڈ ورلڈ“(The Demon-Haunted World) میں تنقیدی سوچ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے کہ انسان کیسے کیسے توہمات کا شکار ہے اور کس طرح ان بلاﺅں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ وہ سمجھاتا ہے کہ ہم کس طرح فراڈی اور غلط دعوﺅں کو پہچان کر ان کی قلعی کھول سکتے ہیں۔
کارل اس زمین پر رہتے ہوئے بھری کائنات میں ذہین زندگی(Intelligent Life) کے روشن امکانات پر یقین رکھتا تھا اور اس نے اس کی تلاش کے لےے ریڈیو ٹیلی سکوپس کے ذریعے ایک پراجیٹ شروع کرنے میں مدد دی جس کو ” سیٹی“ کا نام دیا گیا ۔ یعنی (Search for Intelligent Life) ۔یہ پراجیکٹ اب ایک انسٹی ٹیوٹ کے تحت ہے۔(Seti Institute) ۔ پھر اس نے Planetary society کو وجود میں لانے پر بھی خوب کام کیا جو ایک سائنس اور فلکیات کو عوام میں پاپولر بنانے کا کام کرتی ہے۔ آج اس سوسائٹی کے ایک لاکھ سے زیادہ ممبرز ہیں جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اور بھی بہت سی سوسائٹیوں کے ساتھ منسلک ہے۔
کارل ساگان نے زندگی میں تین عورتوں سے شادیاں کیںجن کی بدولت اُس کے ہاں تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اُن کی آخری بیوی این ڈروین (Ann druyan) خود بھی ایک اچھی لکھاری اور سائنس کی دلدادہ ہے جس نے ٹی وی سیریز ” کاسموس(Cosmos) کو بنانے اور دسرے کئی پراجیکٹس پر کارل کا خوب ساتھ دیا۔
کارل1990 کی دہائی میں خون کے کینسر کا شکار ہوگیا۔ اور 1996 میں بیس دسمبر کو اُس کا واشنگٹن ریاست میں انتقال ہوگیا۔وہ باسٹھ سال کی عمر میں کینسر کی حالت میں نمونیا ہوجانے سے چل بسا اور اسے نیو یارک لے جاکر سپرد خاک کیا گیا۔ کارل ساگان جیسی روحیں اپنے بدن سے جب آزاد ہوتی ہیں تو بھی اُن کا کائنات کے حیرت کدہ کی دریافت(Exploration) کا سفر جاری رہتا ہے۔ اس لےے مجھے یقین ہے کہ کارل خلائی جہازوں کی طرح اس نظام شمسی کی حدود سے نکل کر کروڑوں ستاروں اور کہکشاﺅں کی دریافت کے سفر پر رواں دواں ہے۔ اپنا کاسموس والا ” بلین اپ آن بلین) کا راگ الاپتے ہوئے نوری سالوں کے نا ختم ہونے والے حصار کی تمام حدود سے آگے :کیونکہ کاسموس لامحدود ہے۔
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم ۔
حوالہ جات
۔ کارل ساگان ۔ وکی پیڈیا۔(Widipedia)
۔ کارل ساگان پورٹلwww.carlsagan.com

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے