معدنی و سمندری وسائل سے مالا مال بے آب و گیا خطہ بلوچستان کے ماتھے کا جھومر، آماچ و چلتن کے وسیع و کشادہ دامن میں آباد، قبائلی و جغرافیائی تنوع کا حامل، علمی، ادبی، سیاسی، دینی اور سماجی شعور کے ساخت کا یہ شہر مستونگ (Mastung) تاریخ اور تاریخی تسلسل کا عظیم ورثہ ایک شہر بے مثال اور خطہ لازوال کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرے اس خوبصورت شہر مستونگ کی جغرافیائی، علمی، ادبی، دینی، سیاسی، سماجی اور تاریخی اہمیت سے انکار ناممکنات میں شمار ہوتا ہے۔
مشرق میں بولان کی سرحدوں کو چھوتے ہوئے ، شمال میں اس کی جغرافیائی حدود شالکوٹ (کوئٹہ) سے جا کر مل جاتی ہیں۔ آج سے چند سال قبل تک مارواڑ، مارگھٹ، سنجدی اور ڈیگاری کے علاقے ضلع مستونگ کا حصہ تھے تو شمال مشرق میں ضلع سبی کے حدود بھی ضلع مستونگ کے جغرافیائی حدود سے منسلک ہوتے تھے۔ ضلع مستونگ مغرب میں نوشکی کے حدود سے متصل ہے تو جنوبی سمت میں یہ عظیم شہر ”نوری نصیر خان“ کے پایہ تخت ریاست قلات (بلوچستان) کے دارالحکومت قلات جسے ”قہقان“ بھی کہا جاتا رہا، کی حدود سے منسلک و متصل ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ گویا یہ شہر قلات، شالکوٹ، نوشکی اور بولان کے جغرافیائی حصار میں بند ایک مضبوط قلعہ ہے اور اس حصار میں آباد یہ شہر بلوچوں کا مسکن تو ہے ہی ایک مشہور تاریخی راہگزر بھی ہے۔ تاریخ دانوں کے رائے میں اس قدیم شہر کا نام ”اورنگ آباد“ تھا۔ اس کے کھنڈر اب تک مشرق یا شمال مشرق میں پائے جاتے ہیں۔ مستونگ کا دوسرا نام ”خدا آباد“ ان سندات سے ظاہر ہوتا ہے جو قلات کے احمد زئی خوانین نے وقتاً فوقتاً جاری کی تھیں لیکن اب مستونگ کے یہ دونوں نام متروک ہو چکے ہیں۔ اکبر کے زمانے میں مستونگ قندھار کا مشرقی صوبہ تھا جیسا کہ آئینِ اکبری میں درج ہے یہ علاقہ اکبر کی سلطنت میں شامل تھا۔ یہ شہر کوئٹہ سے 32میل کے فاصلے پر واقع ہے اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 5590فٹ ہے۔مستونگ شہر سے چھ میل کے فاصلے پر ایک قصبہ مستونگ روڈ واقع ہے جہاں پر انگریزوں کے دور میں ایک ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا تھا جو کوئٹہ ، زاہدان سیکشن پر واقع ہے۔
کوئٹہ اور مستونگ کے عین درمیانی فاصلے پر کوہِ آماچ اور کوہِ چلتن کے سنگم پر ایک پہاڑی ٹیلہ واقع ہے جسے لک پاس کہا جاتا ہے۔ آر -سی-ڈی شاہراہ اسی پہاڑی ٹیلے سے ہو کر گزرتا ہے۔ اب اس جگہ پر ایک سرنگ بنایا گیا ہے جس سے ٹرانسپورٹ کے شعبے کو کافی سہولت اور آسانی میسر آ چکا ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ قبل ازیں مستونگ کا نام ”اورنگ آباد“ اور ”خدا آباد“ تھا لیکن یہ مذکورہ دونوں نام متروک ہونے کے بعد اس کا نام ”مستنگ“ اور بعد میں ”مستونگ“ کیسے پڑ گیا؟ ایک تحقیق کے بعد اس شہر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ شہر تین راہ گزر یا راستوں کے سنگم پر واقع ہے ۔ ایک راستہ درہ بولان سے ہوتا ہوا ہندوستان سے جا ملتا ہے اور مغربی سمت میں دوسرا راستہ نوشکی اورتفتان سے گزرتے ہوئے ایرانی حدود سے متصل ہو جاتا ہے جبکہ تیسرا راستہ قلات، خضدار اور لسبیلہ سے ہوتا ہوا کراچی کے ساحل سمندر تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ چونکہ اس خطے میں براہوئی بلوچوں کی اکثریت ہے اور براہوئی زبان میں تین (3) کو ”مُسہ“ (Mus,e) اور دو پہاڑوں یا دو بلندیوں کے درمیان سے گزرنے والے راستے کو ”تنک“ (Tank) کہا جاتاہے اس لیے ابتدائی طور پر یہ لفظ ”مُسہ تنک“ کے ہی تلفظ میں بولا جاتا ہوگا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ”مستونگ“ (Mastung) کی شکل اختیار کر گیا۔ شاید یہ سب سے مستند تحقیق ہے کہ تاریخ بلوچستان کے عظیم مو¿رخ ”میر گل خان نصیر“ نے مستونگ کے لفظ کو ”مستنگ“ تحریر کیا ہے۔
بستیاں بستے بستے بستی ہیں، انسانی فطرت ہے بلکہ انسانی فطری تقاضا ہے کہ انسان نے ہمیشہ پانی کو زندگی کا نعم البدل قرار دیتے ہوئے روئے زمین پر موجود پانی کے وسیع ذخائر کے آس پاس دریاو¿ں کے کنارے اور قدرتی چشموں کے قریب ہی پڑاو¿ ڈالا۔ اپنی آرام گاہیں تعمیر کیں اور زندگی کے جھمیلوں میں مصروف ہو گیالیکن قدرتی معدنی وسائل سے مالا مال ”بلوچستان“ کو پانی کے ان قدرتی وسیلوں کے حوالے ذرا بدقسمت خطہ ہی کہا جا سکتا ہے اور خاص طور پر سینٹرل بلوچستان کی وہ خشک پٹی جو شالکوٹ (کوئٹہ) سے ضلع لسبیلہ کے آخری حدود تک ایک وسیع و عریض علاقے پر مشتمل ہے ۔ کبھی کبھی سالوں تک پانی کی ایک بوند کو ترستی ہے۔ مستونگ بھی سینڑل بلوچستان کے اسی علاقے میں واقع ہے۔ کئی دہائیاں قبل زیر زمین پانی کی سطح کافی بلند تھی۔ اگرچہ پانی کے قدرتی چشمے کم تھے لیکن زیر زمین پانی کا حصول نسبتاً آسان تھا کیونکہ چند فٹ کی کھدائی پر ہی صاف و شفاف اور قابل استعمال پانی میسر ہوتا تھا۔ شاید اسی لیے مستونگ کی مقامی آبادی نے تقریباً 360کاریزات کھود کر اپنے لیے آبنوشی و آبپاشی کا بندوبست کرکے پانی کے حصول کا ایک خود کار نظام بنایا تھا۔ اس وقت اس پورے علاقے میں پانی کے صرف تین بڑے چشمے موجود تھے جو ندی کی صورت میں بہتے تھے۔ جنہیں براہوئی زبان میں رود (Rod)کہا جاتاتھا اور یہ رود سریاب، رود پشکرم اور رود موبی کے نام سے مشہور تھے۔
360کاریزات اور تین رود اس پورے علاقے کو آباد کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ شہر ”مستونگ“ ہر وقت سر سبز و شاداب رہتا تھا جب انگریز یہاں آئے تو انہوں نے اپنے دور میں اس شہر کو سٹی آف گارڈنز (City of Gardens)کا نام دے کر اس کی خوبصورتی اور شادابی کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔دنیا کی تقریباً تمام اقوام میں قبائل اور قبائلی نظام موجود رہا ہے اور یہ نظام اپنے جدید شکل میں آج بھی قائم ہے۔ قبیلہ کسی قوم میں شناخت کی ایک اکائی ہے ۔ لفظ قبیلہ کو براہوئی زبان میں قوم یا خوم کہا جاتا ہے اور اس کی ذیلی شاخیں طائفہ کہلاتی ہیں لیکن من حیث القوم سر زمین، زبان، رسم و رواج ، تہذیب و تمدن ، بود و باش اور دیگر بہت سے عوامل کسی قوم کی اصل شناخت ہوا کرتی ہیں۔ بلوچستان یا بلوچوں کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں پر شروع ایام ہی سے ہر قبیلہ اپنے لیے ایک سرکردہ چنتا تھا جسے سردار کہا جاتا تھا۔ خطے کے دوسرے علاقوں کی طرح ”ساراوان“ میں بھی بلوچوں کے مختلف قبائل صدیوں سے آباد ہیں اور مستونگ چونکہ ساراوان کا ایک اہم علاقہ اور سرگرمیوں کا گڑھ رہا ہے اس لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ریاستی دور میں یہاں کے نوابوں اور سرداروں کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور وہ ریاستی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ساراوان کے تقریباً تمام نوابوں، سرداروں، قبائلی معتبرین، میرآبان، ملکان، رئیسانی، اربا بان، سادات قبائل کے بزرگ و معتبرین اور دیگر چھوٹے قبائل کے سرکردہ شخصیات کا مسکن بھی مستونگ ہی رہا ہے اور یہ شخصیات ریاستی دور کے اکثر جنگوں، معائدات، صلح ناموں اور دیگر ریاستی امور میں ایک ہم رول ادا کرتے تھے اور آج کے سیاسی اور سماجی شعور کے دور میں بھی ان معزز شخصیات کا کردار لازمی اور مسلمہ سمجھا جاتا ہے۔ بلوچ قوم اس خطے پر صدیوں سے آباد ہے اور پانچ سو سالہ حکمرانی کی تاریخ بھی رکھتا ہے۔ میرومیرواڑی اور عمرمیر واڑی سے لے کر خان آف قلات میر احمد یار خان احمد زئی کے دور حکمرانی تک وادی مستونگ اپنے جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے ہمیشہ ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے اور اس موجودہ دور میں بھی یہ زرخیز سرزمین ایک الگ اور منفرد حیثیت سے اپنی پوری اہمیت کے ساتھ ایک جداگانہ شناخت رکھتا ہے۔ مستونگ ایک قدیم اور تہذیب یافتہ شہر کی حیثیت سے ا پنی ایک پہچان رکھتا ہے۔ یہاں پر قدیم دور کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔
جن میں سام (Sam)بن کریمان کا قلعہ ( جو اب بوسیدہ ہو کر دمب کی شکل اختیار کر چکا ہے)، شاہ خسرو کا مقبرہ اور دیگر بہت سے مقامات شامل ہیں۔ اس علاقے کو قدیم دور میں سام پور بھی کہا جاتا رہا ہے۔ یہاں پر ریاستی اور فرنگی عہد کی عمارات بھی موجود ہیں۔ ”قلعہ میری“ ( موجودہ نیشنل بینک کی عمارت) اور شاہی باغ میں ”ریسٹ ہاو¿س“ کی عمارت آج بھی صحیح و سالم حالت میں موجود ہیں اورعظمت ِرفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔
بزرگانِ دین نے بھی مختلف اوقات میں مستونگ کو اپنا مسکن بنایا ۔ ان میں خواجہ ابراہیم یکپاسی، شیخ تقی بابا، فقیر ہوتک، پیر بخاری، پیر لعل شاہ، پیر سید کریم اور مشہور بزرگ مولانا محمد صدیق کے نامِ نامی نمایاں ہیں۔ دینِ اسلام کی خدمت اور دینی علوم کی ترویج کے لیے دینی ادارہ مدرسہ جامعہ نصیریہ جسے ”ام المدارس“ بھی کہا جاتا ہے، 1935ءمیں قائم ہوا۔ علاوہ ازیں مفتی عبدالستار شاہوانی اور مولوی مولا بخش لانگو کے مدارس بھی دینی علوم کے شعبے میں گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ خطیبِ مستونگ مولانا عزت اللہ شاہوانی، مولانا عبد العزیز، مولانا عبدالسلام اور دیگر علمائِ دین بھی دینی شعور کو اجاگر کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حوالہ ہے کہ بلوچستان کا پہلا تبلیغی مرکز بھی مستونگ میں قائم کیا گیا اور اس خطے یعنی بلوچستان کی تاریخ کا پہلا تبلیغی اجتماع مرکزی جامع مسجد مستونگ میں منعقد کیا گیا۔ادب ہو اور سیاست کا پرخار میدان، علمی سرگرمیاں ہوں یا کاشتکاری کا قدیم شعبہ، دینی رہنمائی ہو یا فیضان رسانی، سیاسی، سماجی اور علمی شعور کا گڑھ سرزمین ”مستونگ“ کے باسی صدیوں سے زندگی کے ہر شعبے میں مرد باکمال ثابت ہوتے رہے ہیں اور آج بھی یہ تسلسل اپنی تمام تر عصری تقاضوں کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔
سیاست کو عبادت کی طرح اپنانے والے سیاسی شخصیات کی بات کی جائے تو ریاست قلات ہی کے دور ہی سے مستونگ کے سپوتوں نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ ”ورنا وانندہ گل“ جسے بعد میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا نام دیا گیا، جیسی سیاسی تنظیم کا قیام بھی مستونگ میں ہی عمل میں لایا گیا جس کے پہلے صدر عبدالحق محمد شہی اور پہلے جنرل سیکریٹری میر محمود عزیز کرد تھے۔ 5 فروری 1937ءکو قائم ہونے والے ”قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی“ کے اولین صدر میر عبدالعزیز کرد اور جنرل سیکریٹری ملک فیض محمد یوسفزئی کا تعلق بھی مستونگ سے تھا۔مستونگ کے اہم سیاسی شخصیات میں میر عبدالعزیز کرد، بابو عبدالرحمن کرد، ملک فیض محمد یوسفزئی، ارباب عبدالرحیم خواجہ خیل، ملک سعید احمد دہوار، ملک سیف الدین دہوار، عبدالرو¿ف تارن، مولوی عرض محمد، مولانا محمد عمر پڑنگ آبادی، حکیم محمد اکبر دادیزئی، دینی و سیاسی شخصیت سینیٹر مفتی عبدالستار شاہوانی، جہانگیر بلوچ، میر غلام حسن سرپرہ، آغا رضا شاہ ہاشمی، میر محمد اقبال زہری، منظور بلوچ اور دیگر سیاسی زعماءنے سیاسی شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بے لوث خدمات سرانجام دئیے۔ سماجی شعبے میں آغا اسماعیل شاہ ہاشمی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
اگر تعلیمی حوالے سے بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ریاست قلات کے دور میں تعلیمی شعور ناپید ہونے کے برابر تھا۔ صرف پرائمری یا شاید مڈل سطح کے چند تعلیمی ادارے انتہائی کم تعداد میں کام کر رہے تھے اور اسی ریاست قلات کے دور ہی میں مستونگ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہاں پر میر احمد یار خان ہائی سکول کا قیام عمل میں لایا گیا جو موجودہ دور میں گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول مستونگ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ اس سے قبل صرف قلات میں میر احمد یار خان ہائی سکول درس و تدریس کے شعبے میں ایک اہم ادارے کے طور پر قائم تھا۔ اس طرح مستونگ میں ہائی سکول کے قیام کے ساتھ ہی ایک بھرپور تعلیمی فضا قائم ہو گیا۔ گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول مستونگ کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ممتاز دانشور اور عملی سیاستدان میر غوث بخش بزنجو اور میر گل خان نصیر بھی یہاں پر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ تعلیمی میدان میں مستونگ کے باہمت نوجوان کسی سے پیچھے نہ رہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آگے ہی آگے بڑھتے رہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے اس عظیم تاریخی شہر کا نام بھی روشن کرتے رہے اور اسی تعلیمی شعور اور علمی فضا کا مسلسل ترقی کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہے۔ یہاں پر بہت سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام عمل میں آ چکا ہے جو علم و آگہی کے میدان میں مستونگ کے نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کا فریضہ انتہائی احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔
شہر اعزازی وادی مستونگ نے اعلیٰ پائے کے دانشور، محقق، ادیب، شعرائ، افسانہ و انشائیہ نگار پیدا کیے ہیں۔ مستونگ میں علم و ادب کی ترقی و ترویج میں یہاں کے تخلیق کاروں کی لازوال محنتِ شاقہ اور کمٹمنٹ ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ اس پورے علاقے میں تقریباً 98فیصد براہوئی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن یہاں کے ادیبوں اور شعرائے کرام نے براہوئی کے ساتھ ساتھ اردو، فارسی اور بلوچی زبان کو بھی وسیلہ اظہار بنایا۔ مستونگ سے تعلق رکھنے والے علمی و ادبی شخصیات نے براہوئی ادب کے لیے گراں مایہ خدمات سر انجام دی ہیں اور اپنے شاہکار تخلیقات کی بدولت بڑا نام کمایا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ براہوئی زبان میں ادبی تخلیقات کا تقریباً 80فیصد ادبی مواد مستونگ کے ادباءو شعراءکرام اور دانشور حضرات کی تخلیقی کاوشوں کے مرہون منت ہیں۔ اس زرخیز سرزمین سے تعلق رکھنے والے ادبی شخصیات میں ملا مزار بدوزئی، ملا محمد حسن بدوزئی، مولانا حکیم مشوانی، ملا نبو جان چوتوئی، مولانا عبدالمجید چوتوئی، مولانا عبدالعزیز قلندرانی، بابو عبدالرحمن کرد، صوفی عطا محمد، آغا علی محمد شاہ ہاشمی یکپاسی، پیر محمد پیرل زبیرانی، کریم بخش سائل، محمد اسحاق سوز، ماما علی مراد خاکی، ڈاکٹر عبدالرازق صابر، عبدالقیوم بیدار، عبدالقیوم سوسن، ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی، حاجی عبدالطیف بنگلزئی، عبدا لحمید عزیز آبادی، آخود مہران گل، علی مراد ہستی، مولانا محمد عمر محمد شہی، غلام نبی راہی، مولوی عبدالخالق ابابکی، ملک سعید دہوار، مولانا محمد عمر پڑنگ آبادی، مقبول احمد مقبول، عبدالرحمن فکر، محمد حسن غمخوار، حاجی شاہ بیگ شیدا، محمد رحیم ناز، فتح محمد شاد، سید غریب شاہ انجم، ڈاکٹر لیاقت سنی، حسن ناصر، عامر فیاض، منیر احمد حنفی، عبدالرحمن سنگت، عبدالحمید شاہوانی، ملک ظاہر شمیم، عبدالحیات منصور، عبداللہ جوہر، شبیر شاد، فیض بولانی، ملک فیاض علی بلوچ، عطا انجم، نذیر حسرت، ملک ریاض علی بلوچ، عبدالمالک پیر جی اور بہاول نسیم بنگلزئی کے علاوہ درجنوں نوجوان شعرائے کرام اور ادیب شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات اس ادبی کاروان کا حصہ ہیں جنہوں نے براہوئی ادب کے فروغ کے لیے روز و شب محنت کو اپنا شعار بنایا اور بہترین تخلیق کاروں کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا ان کی مخلصانہ کاوشیں آج بھی جاری و ساری ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ مستونگ سے تعلق رکھنے والے تخلیق کاروں نے اپنے شاہکار اور شاندار ادبی تخلیقات کی بدولت صدارتی اور صوبائی ادبی ایوارڈز بھی حاصل کیے ہیں، ان میں غلام نبی راہی، محمد اسحاق سوز، محمد رحیم ناز، ڈاکٹر عبدالرازق صابر، عبدالقیوم سوسن، نادر شاہوانی، محمد حسن غمخوار، مولوی عبدالخالق ابابکی، عبد الحیات منصور، حاجی شاہ بیگ شیدا، حاجی عبدالطیف بنگلزئی، پیرل زبیرانی اور اسلم زباد بنگلزئی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔صدارتی و صوبائی اعزازات کا حصول وادی مستونگ کی ان تخلیق کاروں کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ان کی تخلیقی ہنر سے انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔
ادبی شخصیات نے ادبی ماحول کی تشکیل اور نوجوان تخلیق کاروں کو ادب کی جانب راغب کرنے کے غرض سے شروع ہی سے ادبی انجمنیں قائم کیں۔ اس سلسلے میں تنظیم تعمیر ادب، چلتن ادبی دیوان، ایلم سوسائٹی، یکپاسی ٹرسٹ، ہمدم رائٹرز کلب، فرینڈز ریلیف آرگنائزیشن، ڈائمنڈ رائٹرز کلب، ساروان اکیڈمی، آماچ ادبی دیوان، آماچ ادبی کاروان، راہ شون ادبی دیوان، بلوچستان شعراءسوسائٹی، دشتل ادبی دیوان اور شاشان انجمن شعراء( مستونگ شاخ) کے علاوہ دیگر بہت سی علمی، سماجی اور ادبی تنظیمیں ادب کی ترقی و ترویج اور ادبی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں اور ان کی یہ مساعی قابلِ داد و تحسین ہے۔ مستونگ کے لیے بھی یہ ایک اعزاز ہے کہ بلوچی زبان و ادب کی ترویج کے لیے قائم کیے جانے ایک اہم ادبی ادارے ”بلوچی اکیڈمی“ کا قیام بھی مستونگ ہی کے مقام پر عمل میں لایا گیا۔ علاوہ ازیں براہوئی زبان و ادب کی کتب بڑی تعداد میں شائع کرنے والے ادارے ”براہوئی اکیڈمی“ کے بانی صدر بابو عبدالرحمن کرد بھی مستونگ ہی کے فرزندِ باکمال تھے۔
ابلاغی اداروں کے ذریعے علم و شعور اور آگہی کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی غرض سے صحافت کے شعبہ سے منسلک مستونگ کے جن گراں مایہ ہستیوں نے پرخلوص خدمات سر انجام دئیے ان میں مالائی شیدائی، لالا غلام محمد شاہوانی، بابو عبدالرحمن کرد، بابو کریم شورش، ملک محمد رمضان بلوچ، گل محمد ایروی، مولوی شریف بزدار، نور محمد پروانہ، حمید عزیز آبادی، یوسف حسن یوسفی، سید غریب شاہ انجم، خادم لہڑی، شیخ ولی محمد، عبدالغفار مینگل، ذاکر عظیم، ملک بالاچ بلوچ، ملک فیاض علی بلوچ، حاجی لیاقت بنگلزئی کے علاوہ دیگر کئی صحافیوں کے نام شامل ہیں اور آج کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے دور میں بحیثیت ورکنگ جرنلسٹ عطاءاللہ بلوچ، سجاد احمد دہوار، حبیب بنگلزئی، ملک عبدالسلام بنگلزئی، نصیر احمد لہڑی، منیر احمد شاہوانی اور حافظ قریشی جیسے باہمت صحافی میدان عمل میں مستونگ کے عوام کی بہترین خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کسی زمانے میں مستونگ سے سب سے زیادہ اخبارات و رسائل کے ڈیکلریشن جاری کیے گئے۔ یہ ایک فعال اور متحرک سماجی رویے کا واضح ثبوت ہے۔
موسیقی ( ساز و زیمل) کے شعبے میں بھی مستونگ کے فنکاروں کا ایک الگ معیار رہا ہے اور اس فن میں بھی یہاں کے سازندوں اور گلوکاروں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑا نام کمایا ہے۔ ان فنکاروں میں حاجی استاد، استاد رب نواز، استاد چارگل، استاد عبدالکبیر بلوچ، بابو اسماعیل ہوتی زئی، استاد باران خان ہوتی زئی، استاد عبدالقادر آزاد، استاد امام بخش شاہین، استاد عبدالغنی، استاد سلیم جان اور استاد محمد وفا کے نام قابل ذکر ہیں۔
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح مستونگ کو یہ اہم اعزاز بھی حاصل ہے کہ وادی مستونگ کے سپوتوں نے کھیلوں کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں حصہ لے کر اور پوزیشنیں حاصل کرکے اپنا اور اپنے علاقے کا نام روشن کیا ہے۔ ان انٹرنیشنل کھلاڑیوں اور آفیشلز میں لالا محمد ہاشم ترین، کیپٹن محمد شریف ترین، ناصر عزیز کرد، غلام نبی نے فٹ بال، جہانزیب سارنگزئی نے کرکٹ، میر مراد جان ملازئی نے نیزہ بازی، حسن ناصر محمد شہی، فاروق شہزاد اور ڈاکٹر عبدالمطلب محمدشہی نے کراٹے اور منظور احمد سرپرہ نے ہاکی کی کھلاڑی کی حیثیت سے مستونگ کی نمائندگی کرتے ہوئے اعزازات حاصل کیے اوریہ کھلاڑی وطن کے سفیر کی حیثیت سے مشہور و معروف ہوئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے