یہ قلم
جس نے صدیوں مقید ہواﺅں کی تحریر کا
چُھو لیا ہے بدن
روشنی ہے کوئی!
خواب جس سے زمانوں پہ لکھے گئے

تشنگی کی مسافت کو چُنتے ہوئے
جس نے قدموں کو تازہ بشارت کی منزل کا
سپنا دیا

جس نے شب کو بدل کر
محبت سے
صبحوں بھری انتہاﺅں سے روشن کیا

جس نے حرف و بیاں میں سمٹتی ہوئی آگہی
سے سنوارا ہنر
اور حرفِ ستائش سے لہجوں کا دم
آشکاراکیا
فکر کے آسمانوں پہ بکھری ہوئی
اک حقیقت کو سمجھا
ستارا کیا

سب پرندوں کے نغموں میں دیکھا
پروںمیں سمائی صداقت کو اک استعارا کیا

روشنائی سے جس نے مکر ر لکھا
اک سخن کی طرح
دم بہ دم
ہمہ دم
زندگی کو سدا

سب زمانے ہیں اِس کی روانی میں اُترے ہوئے
حرف کی لَو کی حدّت کو چنتے ہوئے!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے