قحط سالیوں کے بلوچستان میں سردیوں میں گھاس سبزہ بالکل ختم ہو جاتا ہے ۔ تین ماہ بلا کی سردی پڑتی ہے۔ اوپر سے بھوک ہوتو مویشی بہت تعدادمیں مر جاتے ہیں۔ لاغر نڈھال ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپریل تک زندہ رکھنے کے لےے اگلے تین ماہ تک چارے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ تب بلوچ عورتیں اپنی جان خطرے میں ڈال کر میلوں کا فاصلہ طے کرکے دشوار چٹانوں اور خطرناک پہاڑوں پر جا کر سوکھی ہوئی گھاس کاٹ کر لاتی ہیں ۔ ایسی دشوار گزار جگہیں جن کی گھاس سال بھر میں نہ توکسی کوہی جانوروں کی پہنچ میں رہی ہو اور نہ اُس پر پہلے کسی دوسرے انسان کی نظرپڑی ہو ۔
رہ گزاں سمو روث پہ ریما
دوست منی روثاں پنگھرے دیما
سمو گھاس کاٹنے جاتی ہے
میری دوست بلند اور اڑیل چٹان پہ گھاس کاٹتی ہے
”کاہ چر “(کاشر) اس علاقے کو کہتے ہیں جہاں ذرا سی گھاس کی اطلاع ملتے ہی علاقے کے سارے چرواہے اپنے مویشی لے کر 20-15 دن کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور جب وہ گھاس ختم ہو جاتی ہے تو وہ پھر کسی اور کاہ چر کی طرف رواں ہو جاتے ہیں ۔ مری علاقہ میں مست و سمو کے زمانے میں آج کی طرح مشہور کاہ چر مندرجہ ذیل تھے جن کے درمیان ہمارے بھیڑ پال لوگ اپنے اپنے ریوڑ لے کر صفا و مروہ کی دوڑیں لگاتے رہتے ہیں:
گنجیں مخماڑ ، کڑوسریں جاندارانڑ، موشریں چمالنگ ، تیمریں تدڑی، مزں مریں رسترانی ، ہمبوئیں کوٹ منڈاھی ، کڑوگڑدنیں ڈونگان اور کیچہیں ماوند ۔     بیگل جہاز اور ڈارون بھی اگر مست کے علاقے میں ہوتے تو وہ بھی گھاس وسبزہ کی تلا ش کے سفر کرتے رہتے ۔سمو کوئی استثنا نہ تھی۔
انسان مشقت ہر دورمیں کرتا ہے۔ یہی اُس کے انسان ہونے کی پہچان ہے۔ پرابلم صرف ایک جگہ آتی ہے۔جب آپ اُس کی مشقت کو تسلیم نہ کریں۔ اورجب اُس کی مشقت کو اپنے ذاتی منافع کے لےے استعمال نہ کریں۔ یعنی مشقت محنت کرنا بہت اچھی بات ہے، مشقت کا استحصال کرنا بری بات ہے۔مست محض ایک جگہ پہ نہیں ، بلکہ بار بار سمو کی توسط سے بلوچ عورت کی مشقت کو تسلیم کیا۔ اُس مشقت کی شدت کو ناپا ،تولا ،اس سے نجات کی خواہش کی۔ اُس نجات کے لےے متبادل بتائے۔ ایک بہت ہی ابتدائی طبقاتی سماج میں یہی بات کرنا بھی بہت باریک دانشوری ہے۔ مست عورت کے حالات ِ کار کی سختی کو بیان کرتا ہے۔ وہ اس کی مشقت اور محنت کو بیان کرتا ہے:
ٹلّی مئیں دوست ماں گزدریں بیٹاں
میری محبوبہ گز نامی درختوں والی ریت پر گھسٹتی چلتی ہے
سمو ، جو کہ مست کی زندگی کی محو رومرکزہے ۔وہ اس کی مشقت بھری زندگی پرکڑھتا ہے ۔ صرف و ہی کہہ سکتا ہے کہ :
دوست منی پالو شاں شتہ سندھا
دیم پہ دیریں الکہاں داثئی
پیاذغی دوست گوں امسراں ٹلی
بُول تفسی ماں شیفغیں پونز ا
ملّغی ڈیلا جنت لوارگرمیں
ترجمہ:۔
میری دوست جھلساتے سندھ گئی ہے
اس نے دور دراز کے علاقوں کارخ کیا
پیدل گھسٹتی ہے میری محبوبہ اپنی ہم عمروں کے ساتھ
بول نامی ناک کا زیور اس کی ستواں ناک میں شدید گرمی سے تپ جاتی ہے
اس کے نازک بدن کو گرم لوماردیتی ہے
CEDAW دو سو برس گزرنے کے بعد بھی وہ فقرہ نہ کہہ سکا جو کہ ہمارا دور اندیش مست کہہ گیا تھاکہ : ” میری ماہ جبیں نازک محبوبہ بکریاں چرانے کے لئے تو نہ تھی “۔ (اس سے تو معاشرے کو دوسرے بڑے کام لینے چاہیے تھے !!)۔
مست صرف سمو کی تکالیف پہ ہی نہیں کڑھتا ، بلکہ وہ تو ان قوتوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو سمو کا استحصال کرتی ہیں ، اسے مشقت کی بھٹی میں جھونکتی ہیں ۔ جو سماج مست کی سمو کو ننگے پیر پہاڑوں ، ندی نالوں ، چٹانوں ، چوٹیوں پہ بھیڑ بکریوں کے لےے چراگاہوں کی تلاش میں شب و روز بھٹکنے پرمجبور کرتا ہے وہ سماج و قوم اور وہ معاشرہ مست کی نظر میں بزدل ، کمزور، محتاج اور غلام ہے :
دوست منی بے واکاں کثہ وانڈھوگوں بزاں
پاذ شفاذیا کوہ بن وکوڑان و گراں
ترجمہ :
بے اختیار لوگوں نے میری دوست کوعارضی چراگاہ میں قیام کے لےے بکریوں کے ساتھ کر دیا ہے
ننگے پاﺅں پہاڑوں اور دامنوں اور چٹانوں میں
ہمیں اِس حقیقت سے واقف ہونا چاہےے کہ دوسوبرس قبل کابلوچستان اس کامتبادل دے بھی نہیں سکتا تھا۔ظاہر ہے جس علاقے میں بارش ہوگی، وہیں سبزہ اگے گا۔ لہٰذا اُسی علاقے میں سارے لوگ اپنے گھر بار عارضی طو رپر چھوڑ کر اپنے ریوڑ لے جاتے ہیں۔ پندرہ بیس دن عارضی آئی ڈی پیز ( وانڈھوی) بن جاتے ہیں۔ جب اُس جگہ بارش والا پانی اور گھاس مویشیوں کے ہاتھوں ختم ہوجاتی ہے تو وہ پھر واپس اپنے اصل گھر لوٹتے ہیں۔ اُس زمانے میں ( بلکہ اب بھی) فارمنگ کا نہ تصور موجود تھا نہ حکومتی اقدامات تھے اِس لےے کہ حکومت تو ہوتی نہیں تھی۔ صنعتی سماج تھا نہیں کہ وہاں مزدوری کی جاتی ۔ زراعت وہاں کیا ہوگی جب پینے کا پانی تک موجود نہ ہو۔ ٹیو ب ویل اور نہر بہت بعدمیں انسان نے وضع کرنے شروع کردےے ۔ اس لےے پیداواری رشتے تو یہی مویشی بانی کے ہی رہنے تھے۔ مگر یہاں سمو کی زندگی کی کٹھنائی ، اس کی مشقت کا وزن و ناپ بیان کرنا ، اور اُن پر کڑھنا ہی توافضل انسانیت تھی۔ بلاشبہ جب بھی بلوچستان میں عورتوں کی نجات کی تنظیم قائم ہو گی تو مستِ مقدس کا نام سرخ روشنائی میں اس کے ”بانی“ کے طور پر لکھا جائے گا ۔
آج البتہ پورا بلوچستان ، پوری بلوچ قوم مست کے اس فتوے کی زد میں ہے ۔ اے چارہ گراں، کچھ اس طرف بھی توجہ دیجئے ۔ اے آزادی آبادی کے متوالو ، بلوچستان کی سمو تواب بھی ، اکیسویں صدی میں بھی ننگے پیر بکریوں ، چراگاہوں کی غلام ہے ۔ اسے آزادی دلانے کی بات کرو ۔ مگر نہیں کروگے ، بس گمراہی پھیلاتے رہو گے ، آزادی آبادی ،اورایسی ہیومن رائٹس مانگتے رہتے ہو جن کا تمہارے اپنے گھر کے ہیومنز پر اطلاق نہ ہو۔
سمو کا ایک بیٹا تھا،چھوٹا ۔ ایک بار جب مست،سمو کے ہاں مہمان ٹھہرا تو سمو اُس سے ملنے آئی ۔ بیٹا بھی ساتھ ساتھ چلا آیا۔ سمو نے مست سے دُراھی کیا(ہاتھ ملایا)۔ کچھ دیر بیٹھی مست کے ساتھ۔ اس کے بعد کہا”گنوخ (مجنوں) گھر چلتی ہوں‘اجازت دو“۔ مست نے کہا”ہا‘موکلیں ترا۔ اب چلی جا¶“۔ ماں کے دو پٹے کا پلّو پکڑے ہوئے بیٹا بھی ماں کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ ماں بیٹے کی رفتار میں تفاوت کے سبب سرکی چادر کھچ گئی اور وہ سمومائی کے مقدس سر سے گرگئی۔ سر کے چادر اور دستار کا گرجانا بلوچستان میں انتہائی بد شگونی اور باعثِ تضحیک تصور ہوتا ہے۔ ریورنڈ سمو کے ویٹیکن سر کا ننگا ہونا مست کے لئے ناقابل تصور تھا‘جھٹ سے کہا:” ہے تئی دست بھرا‘تہ سمو سری پرینتہ“۔ (ارے تیرا ہاتھ ٹوٹ جائے‘تو نے سمو کی چادر گرادی)۔ بچے کا ہاتھ بھی سوکھ گیا اور وہ پاگل ہوکر مر بھی گیا ۔
جس شخص نے عورت کی بے حرمتی پر سمو جیسی محبوبہ کے سونے جیسے بیٹے کو معاف نہ کیا وہ بھلا عورتوں کی بے توقیری پہ دوسروں کو بخشے گا؟ ۔ تو لوگو! یا،سموراج کی تکریم کرو یا پھر مست کی بددعا کا سامناکرو!۔ بڑے انسانوں کے افعال اور اقوال کو وسیع تناظر میں دیکھنے والے لوگ ہی ثقافتی طور پر بلند لوگ ہونے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
فکرِ مست محض نظریاتی دانشورانہ نکتہ وری نہ تھی۔ یہ تو عوامی پذیرائی اور قبولیت کا ایک ایسا انقلاب تھا جسے جان ریڈ کے بقول”ہزاروں لاکھوں کان ایسے تھے جو لینن کی باتیں سننے کے لئے جیسے پہلے سے تیار ہوں“۔ ذراغور کیجئے کہ غربت و افلاس میں پڑا ہمارا قبائلی‘اپنا آنہ آنہ سنبھال کر رکھتا ہے۔ اپنی اولاد پہ بھی خرچ کرنے سے قبل وہ دس بار سوچتا ہے ۔مگر وہیCalculatedشخص جب مست توکلی کو گزرتا دیکھتا ہے تو جاکر اس کی منتیں ،سماجتیں کرتا ہے ،اسے مہمان ٹھہراتا ہے،سمو کے نام پہ پانچ سات دنبے خیرات کرتا ہے یا پھر سمو کی شادی رچانے آٹھ دس دنبے کاٹ ڈالتا ہے۔ آس پاس سے بھی ہر شخص اس فرضی شادی کے لئے اپنے اپنے خیمے سے ایک ایک دنبہ سرپہ اُٹھائے مین اجتماع کی طرف چلتا آتاہے۔ یوں بغیر دعوت کے ،بغیر کارڈ کے‘بغیر کسی واحد میزبان کے ‘دولہا توکلی اپنی شادی کا ایک ہی نشست میں ہزاروں روپے والا جشن مناتا ۔ اس جشن میں حال حوال ہوتا ،جھگڑے تصفےے میں ڈھل جاتے‘ سیاسی سماجی مسائل پہ بحثیں ہوتیں،موسیقی ہوتی،رقص و دریس ہوتا اور کلام مست گایا جاتا۔ ابھی اِدھر سے فارغ ہوئے نہیں کہ اگلی وادی میں ایک اور میرج ہال تیار ہے۔ براتیوں کی ایک اور امت کھڑی ہے،دولہا کے انتظار میں۔ سمو کی شادیوں کی محفلیں ہی تو اس ناصری کے مرید کے ہیکل تھیں۔ بلوچ لوگ اس انقلابی کی باتیں سننے،اوراس کی دعائیں لینے ایک دن میں دو دو چار چار بار سمو کی شادی کا جشن مناتے۔ مردوزن امڈ امڈ کر آتے اس چے گویرا کی محفل میں جو نہ سردار تھا نہ سرکار،جو نہ وار لارڈ تھانہ بھتہ وصول کرنے والا،نہ فتویٰ فروش تھا اور نہ ظاہر دار۔ ایک کنگال شخص پہ اپنی پونجی لٹاتے اور دنبہ بکری لاکر جنگل میں منگل کر جاتے میرے بلوچ۔ مالدار بھی خود،قصائی بھی خود،سجی کے باورچی بھی خود،کھانے والے بھی خود۔ (میرے عوام کی نفسیات اب بھی وہی ہے،کوئی مست جیسا پاک انقلابی اُن کے پاس جائے تو !!) ۔
اور یہ سارا جشن سمو کے نام کا تھا،سمو کی شادی کا فقرہ ہی مست کو اُس کے خیمے کی طرف لے جاسکتاتھا، سمو کی شادی کا ہی بجار(امداد باہمی کا دنبہ) ہوتا تھا۔ مگر سمو ایک عورت تو نہ تھی،سمو کی صورت تو کُل عورت ذات تھی۔ اسی لئے تو اس جشن میں گوشت خوری سے ذرا پہلے مست توکلی اپنے یک نقاطی انقلابی ایجنڈے کا مرغوب فقرہ ضرور کہتا:” یک بریں سمو راجا جھاڑ،ناتیں ما گوژ دہ نہ وروں“ ۔( پہلے سمو کی رعیت یعنی آس پاس خیموں میں موجود عورتوں کا حصہ انہیں کھلا دو‘ وگر نہ ہم نہ کھائیں گے)۔ ارے کیا یہ ون ملین ڈالر فقرہ ،زندگی سے گریز کا فقرہ تھا؟،یا پھریہی فقرہ عین زندگی تھا؟ ۔ ایک بھی شخص نہیں پورے بلوچ سماج میں بشمول میرے ،جو اس اکیسویں صدی میں بھی اتنا پروگریسو ہو جتنا کہ دو سوبرس قبل مانڑک بند میں توکلی نامی ایک چرواہا ہوا کرتا تھا۔
ٍ     سمو کی قوم کا حصہ منصفانہ طور پر بانٹنے کے بعد مست لوگوں میں گوشت برابر برابر بانٹ دیتا اورپھر اپنا اور اپنی دوست سمو کا حصہ وصول کرتا۔ مست دونوں حصے اٹھائے محفل سے ذرا دو ر جاکر بیٹھ جاتا اور ایک شخص کو کھانا پیش کرتے نظر آتا۔ وہ شخص نظر نہ آتا،بس کھانا ختم ہورہا ہوتا۔ کھاتے ہوئے مست اس شخص سے گفتگو بھی کئے جاتامگر زور زور سے نہیں بلکہ ایسے ،جیسے قریب بیٹھی ہوئی شخصیت سے کی جاتی ہے۔
یہ دونوں محترم شخصیتیں انیسویں صدی کے آخری نصف میں محبت کی پر نور وادی یعنی بلوچستان میں وہ تحریک لے کر اُٹھیں جو دنیا کے ہر کونے میں اپنے اپنے ڈھب اور اپنے اپنے طرز پہ جاری تھی۔ ” محبت کی تحریک“ نام تھا ان کی جدوجہد کا ۔ محبت….ایک ایسا مستقل مظہر جو اپنے سے منسوب لوگوں کو جریدہ¿ عالم پہ بقا بخشا ہے،دوام عطا کرتا ہے۔ ضابطہ ہے زندگانی کا ۔ دیگر سارے نظریات خواہ سائنسی ہوں یا غیر سائنسی سارے مذاہب خواہ مشرقی ہوں یا مغربی، اور سارے فلسفے خواہ یونانی ہوں یا ایشیائی ،اسی مطلق مرکز ے تک رسائی کے لئے ہی اپنی تکمیل کرتے رہتے ہیں۔ بنی نوع انسان کی ساری تکالیف ،قربانیاں اور محنت اسی محبت کی شاہراہ کی تزئین کے لئے ہی تو ہیں۔ سمو اور سمو بیلی اسی آفاقی اچھائی یعنی محبت کی حکمرانی کے رضا کار تھے۔ وہ اُس ویلیو سسٹم کے خلاف کمر بستہ ہوئے جو ترقی اور ارتقا کے پیروں کی زنجیر بن چکا تھا۔ نجاتِ آدم کی یہ تحریک دراصل اُس پلے کارڈ کو لے کر چلی جسے بہت چھان پھٹک اور احتیاط کے بعد”محبت کی آزادی“ کا نام دیا جاسکتا ہے۔”کوڑی بے بختاں کہ عاشقانی غیوہ کفاں“ (بدبخت ترین لوگ ہوتے ہیں وہ جو ‘عشاق کے امور میں ٹانگ اڑاتے ہیں)۔تحریک کے یہ دونوں نفیس قائدین پوری زندگی بلوچ معاشرے میںمحبت کی آزادی کی جنگ لڑتے رہے کہ وہ تو تھے ہی محبت کی آزادی والی پارٹی کے کل وقتی کارکن۔ محبت نے ان کا سب کچھ خرچ کرا ڈالا، محبت نے ان کی دنیا اُجاڑ دی مگر محبت نے ان کی بخشش بھی کرادی۔ محبت نے انہیں تونگر بناڈالا۔ انہیں،نظر انداز کئے جانے والے وجودوں سے اُٹھا کر سماجی تبدیلی کے اسباب ووسیلے میں ڈھال دیا۔ یہ اعزاز نہ پیسوں سے خریدا جاسکتا ہے، نہ اسے خیرات میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سماجی تنظیم کا یہ عطیہ کبھی کبھار ‘ اور ‘ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔ مست اور سمو اسی ”کبھی کبھار“ اور ”کسی کسی “ میں فٹ بیٹھے اور ”ابد ابد “ اور ”ہمہ اُو ہمہ اُو“ میں ٹرانسفارم ہو گئے۔ ہم، برگزیدہ ٹھہرے۔ مست کا تذکرہ کر کے گویا شفق سے اُفق تک رواں اس انسانی تحریک کی دو آنے کی ممبری ہم نے بھی حاصل کرلی ہے۔
اسی جدوجہد کے دوران اُن پہ یہ واضح ہوا کہ سماجی عمل میں ان کا ” یک نقاطی ایجنڈہ“ کئی دوسرے نقاط سے وابستہ ہوکر وسعت پذیر ہوا جاتا ہے۔ چنانچہ” محبت کی آزادی“ ان تمام عوامل سے بھڑ گئی جو اس آزادی کے سامنے رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اولین بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ محبت کے دو فریقین میں سے ایک یعنی عورت کو تو اس سماجی معاشرتی سطح تک آنے ہی نہ دیا گیاجہاں سے وہ برابری کی بنیاد پر، اور آزادی سے محبت کرسکتی ہو۔ چنانچہ یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ آپ محبت کی آزادی کی بات کریں مگر،محبت میں شامل فریقین کی آزادی کی بات نہ کریں۔ اس لئے کہ دنیا میں محبت ہی وہ واحد متبرک کھیل ہے جسے صرف آزاد اور مساوی انسان ہی کھیل سکتے ہیں۔ آقائیت کی زنجیروں میں جکڑے فرعونوں کے لئے تو اس کے مین گیٹ پہ ہی Not Allowedکا بڑاسا بورڈ لگا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ساری رکاوٹیں مستیں توکلی کیلئے طبقاتی دشمن بنیں جو عورت کی برابری اور آزادی کو روکتی تھیں۔ اس طرح پورا سر قبیلی فیوڈل نظام ،اُس کی معاشی بنیادوں اور اُس کے اخلاقی اقدار سے نمٹنا مست کے لئے حکمت عملی میں مشاقی اوراستادی کا معاملہ بنا۔
عورت کی آزادی کی جنگ کے ساتھ ساتھ دوسری جنگ اس نے قبائلی اور بین القبائلی جنگوں اور خانہ جنگیوں کے خلاف شروع کی۔ اس لےے کہ محبت امن کے ماحول کی گل پری ہوتی ہے۔ کشت و خون ،ہا¶ ہو ،آتش و آہن اُسے مرجھا ڈالتے ہیں۔ امن ہی میںمحبت پروان چڑھتی ہے ،امن ہی میں مصوری اُگتی ہے ،امن میں ادب ،شعری،موسیقی اور رقص کو ترقی نصیب ہوتی ہے ۔ چنانچہ اس جانب تاریخی اور بہت بڑی پہل کاری کی ضرورت تھی اور مست المست ،چھلا وے کی مانند اس پہل کاری میں کود پڑا۔ اس نے اپنی تلوار اور ڈھال عین جنگ کے دوران محبت کے حوالے کردی اور امن خرید لیا۔
ہوا یوں کہ 1858ءمیں شم کے مقام پر دو بلوچ قبائل باہم بھڑگئے۔ چمبھڑی نامی اس جنگ میں دونوں قبائل اپنی پوری قوت کے ساتھ ٹکرا گئے۔ گھمسان کے اس یُدھ میں مست توکلی بھی اپنی ساری مہارت اور جوانی کے ساتھ سرگرم تھا۔ تلواروں کی چمک ایک نیزے کے فاصلے تک آئے سورج کو اپنی حاضریاںدے رہی تھی۔ کٹتے لڑھکتے سرسفا کی کی گواہیاں دے رہے تھے،بجتی ڈھالیں خیر کی فاختہ کی دوریاں بڑھارہی تھیں۔ ہنہناتے گھوڑے الحفیظ والا مان کی قوالیاں گارہے تھے،تلواروں کی کاٹ اولادِ آدم کی بقاءکی لوحِ محفوظ میں چھید ڈالتی جاتی تھی،برادر کشی کا منشور واضح طور پر لکھا جارہا تھا اور شیطان تالیاں بجا رہا تھا…. اچانک مست توکلی کو کچھ ہوگیا ۔ وہ اس سب کی نفی کرنے لگ گیا۔ اسے خیر کے دبلے فرشتوں کی دوبارہ سرفرازی کرنی تھی۔ کسی بھی سمو کو ”بے مست “ نہ کرنے کا گنیز بک میں ریکارڈ قائم کرنا تھا۔ چنانچہ مست نے وہ حرکت کر ڈالی جس کی بدولت اگر وہ کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو اس کے نام سے یونیورسٹیاں قائم ہوتیں،اس کے مصرعے ،سڑکوں،نصابوں،پروجیکٹوں کے سرورق بن جاتے اور ایک بین الاقوامی انعام مقرر ہوتا اچھے انسانوں کے لئے جس کا نام”توکلی پیس پرائز“ رکھا جاتا۔ مست نے اس جنگ کو یادگار بنالیا کہ بلوچ تہذیب و تاریخ میں فکرِ مست کا ایک اور باب کھل گیا۔ دل تھام کے سنیے کہ تیغ زن،جوان سن،سرخ چشم و سیاہ جگر ،مست ،جنگ کے عین شباب میں اپنے بھائی بندوں اور اپنے قبیلے کی گری ہوئی لاشوں اور نعروں کی للکار میں کشت و قتل سے اچانک دستبردار ہوجاتا ہے۔ وہ چمبھڑی کی جنگ کے میدان سے باہر نکل آتا ہے۔ قتل کا اوزار دائمی طور پر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیااور درندوں جیسی دا¶ بازیاں رخصت ہوگئیں،دھاڑ چنگھاڑ کی یا وہ گوئی گنگ ہوجاتی ہے اور زمزم میں دھلا منہ مردار الفاظ کی لڑیاں پھوٹنے سے منکر ہونے لگتا ہے۔
چاہیں تو بے درد دانشور کی طرح آپ بھی کہہ دیں کہ مست بزدل ہوگیا ،چاہیں تو اپنی شعوری سطح کو عمودی سمت میں پست بنا کر وہی طعنے دہرائیں مست کے لےے جو عام آدمی عام آدمی کو ایسے موقعوں پر دیا کرتا ہے…. اوراگر چاہیں تو قبائلی جنگوں پر لعنت بھیجنے والے اس اولین بلوچ سورما کے ہاتھ پہ بیعت کر ڈالیں جس نے بھگوڑے پن اور محبت کو ترجیح دی مگر شیرِ بلوچ نہ بنا ،پین اسلام ازم کا نصیر خان نوری نہ ہوا۔ جس کا ہر اعصابی ریشہ موسیقی کی تار بن چکا ہواُسے تقدس آلود دھاگے کی کیا ضرورت ہوگی۔ مگر مجھے یقین ہے ،اے میرے اچھے قاری! کہ آپ بھی میری طرح اتنے بہادر نہیں۔ دنیا کی دائمی رزم گاہ بلوچستان میں جنگ کے خلاف بات کرنے کی جرا¿ت ہم آپ میں نہیں ہے ۔ گوادر کے باثیل نامی پہاڑ سے لے کر جھنگ کے اس پار تک آپ کے سارے بھائی بند ،تلواریں سونتے ایک دوسرے کے قتل و قتال میں مصروف ہیں‘ تو آپ بھلا دریا کی مخالفت میں کیا تیریں گے؟ اور کب تک تیریں گے؟ قبائلی جنگوں کی حقیر تلوار بازی کا منظر نامہ‘Thrill‘استغراق اور رومانٹس ازم سے اس قدر بھرا ہوتا ہے کہ زاوےے بدل بدل کر چچا زاد بھائی پروار کرنے کے علاوہ کچھ سوچا ہی نہیں جاسکتا۔ بلوچ اس لئے خلا نورد،سائنس دان اور سٹیٹس مین نہیں ہے کہ اس کے دماغ کی ہر ہر فیکلٹی بردار کشی کے نت نئے دا¶ پیچ ایجاد کرنے میں کھپ چکی ہوتی ہے۔ کیا خیال ہے برادر کشی پاگل پن نہیں ہے؟ اور اگر ہے‘ تو بلوچستان کو پاگلوں کا وارڈ قرار نہ دیا جائے؟ ۔ اور اگر برادر کشی پاگل پن ہے اور اگر پورا بلوچستان پاگل ہے تو ایک صحت مند مست کو یہ سارے پاگل مل کر ” مست ‘ مستالا‘گنوخ“ نہ بولیں گے کیا؟۔لہٰذا مست ہی پاگل ہے ،مست کے ماننے والے ہی پاگل ہےں۔ باقی بلوچستان تو اپنے وارڈ میں لیٹا اپنی ہوش مندی کے گیت گارہا ہے۔آج بھی، اب بھی ،اِسی وقت بھی۔
معلوم نہیں دانش کی گہرائی کی کیا سطح ہوگی جس نے دو سو برس قبل اس مجذوبی کھیل کی بے معنویت،لغوپن اور سطحیت کو ایک اَن پڑھ بلوچ پر آشکار کردیا تھا۔ اور پھر بہادری کی اس گہرائی کو کون ناپے جہاں آپ دو بڑے قبائل کی مکمل یکسوئی والے قصاب پن سے علیحدہ ہوجاتے ہیں…. تن تنہا،اکیلا۔ اخلاقی جرا¿ت کا سمندر چاہےے ہوتا ہے ایسے اقدام کے لئے۔ ”مشرق کا ستارہ“ تو ایک بار پھر جنم لے چکا تھا بلوچستان میں۔ یہاں مست بچہ نہ تھا بلکہ بیس بائیس برس کا جوان قبائلی تھا۔ وہ اس قبائلی نظام کا پرورش یافتہ تھا جہاں قبائلی جنگیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتیں،جہاں درندوں سے ہر وقت اپنا ریوڑ بچانا پڑتا ہے ،جہاں چوروں،ڈاکو¶ں سے ہر وقت نبرد آزما رہنا پڑتا ہے ۔ جہاں فطرت کی ننگی آفتوں سے لڑنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا پڑتا ہے ۔ اور مست اِن ساری ٹریننگوں اور ساری مشقوں میں سے گزر کر جوانی تک پہنچا تھا ۔ وہ زبردست شکاری تھا،سیلانی تھا…. لہٰذا ہر طرح سے با ہوش اور فہمیدہ شخص تھا۔ اور اس سارے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر دیکھیں تو پتہ چل جائے گا کہ جنگ جدال اور کشت و خون کو اس نے بہت سوچ سمجھ کر ہی مسترد کردیاتھا۔(1) ایک سورما،شکاری،پھرتیلا،نوجوان اور جنگوں میں پیش پیش رہنے والے بلوچ نے قتلِ معصوماں میں شامل رہنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کا یہ شعوری فیصلہ بعد میں اس کے ایک مصرعے کے تناظر میں بہت مشہور ہوا۔ اس ایک مصرعے نے بلوچوں کو جتنا باشعور کیا،ایک پوری لائبریری اتنا نہ کرسکے گی۔ مصر عہ ملاحظہ ہو۔
جواں نہ ینت جنگانی بذیں بولی
ترجمہ:
اچھی نہیں ہے جنگ کی بری گفتار
پھر یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ مست کے اسلاف میں ایک بلوچ خاتون اپنے محبوب خاوند کو اُس وقت بھائی قرار دیتی ہے جب اُس تک یہ جھوٹی خبر پہنچتی ہے کہ اس کے خاوند کو دشمن کا تیر پشت پہ لگا۔ یعنی اس جنگ میں پیٹھ دکھائی ہوگی ۔ مگر یہاں تو مست، علی الاعلان،بہ نفسِ نفیس،بہ قلم خود،مکمل ہوش و حواس میں بلوچ مذبحہ خانے سے نکل بھاگتا ہے۔ مگر مہان سمّو ،مست کے اس عمل کو یوں آمنا صد قنا سمجھ کر پی جاتی ہے کہ گو یا وہ خود بھی ہوتی تو ایسا ہی کرتی۔ حق پہ کھڑے ہوکر،مروج باطل سے اعلانیہ کفر کی جرا¿ت کی قوت تو دیکھئے کہ برادر کش بلوچ کی برادر کش زبان میں برادر کشی سے انکار کرنے والے مست کے خلاف ایک بھی ضرب المثل نہ بنی۔ ایک ایسے قبیلے میں مست نے جنگ سے پیٹھ دکھائی جہاں”راہزن “ نام کا باقاعدہ ایک عہدہ ہوتا ہے جس کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ننگی تلوار لیے میدانِ جنگ میں کھڑا ہوتا ہے تاکہ اگر کوئی شخص جنگ سے بھاگ نکلے تو وہ اسے قتل کر ڈالے۔ مگر دیکھئے کہ چمبھڑی کی جنگ میں راہزن بھی باادب باملاحظہ رہتے ہیں اور مست اس بلوچ قتل گاہ سے ایسے خراماں نکل آتا ہے جیسے چمنستان میں سیر کرنے جارہا ہو۔
نہ صرف مری قبیلے کو مست کی اس حرکت پہ کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ اپنی زندگی کے اگلے چالیس برس تک بگٹیوں،مزاریوں،لیغاریوں،کھیترانڑں،بزداروں،قیصرانڑیوں ،دریشکوں ،کھوسوں اور گشکوریوں کا روحانی پیشوا‘ا ن کا پیرانِ پیر‘ا ن کا اپنا ‘ان کا شاعر‘ان کا دعا گورہ کر ان کے دلوںدماغوں پر مکمل بادشاہی کرکے طبعی موت مر جاتا ہے۔ اور موت کے سوا سو برس بعد آج بھی مست کی محبوبیت اور ہر دلعزیز ی میں کوئی کمی نہ آئی۔ اور بلاشبہ عالمگیر سچائیوں کو بیان کرنے والے اس ولی کا نام بہت بعید والے مستقبل تک لوگوں کے دلوں میں کندہ رہے گا۔
جنگ گریزی کے اس عظیم واقعہ کو معتبر بنانے کے لئے ہم مست علیہ الرحمہ کے اشعار بھی ڈالتے ہیں
چمبھڑی جنگا مں سری مڑداں گون اثاں
یہ برے جنگئے جکثاں ناوھشیں پڑاں
مار دو دیمی آ بیڑ ثہ زرکاں پوترواں
ساکثہ آخر سرمنی زر مُشتیں لُڑاں
یہ برے کار کنڈغا گی ایشت ذرہ بُراں
ولنڑے اِشتو مں پذی رنداں گڑتغاں
مں دلا وھشاں کہ پذاباری اے کناں
چونزانتوں کہ زیادہیں شوہازے کفاں
مہراں قطارے بستہ مں دیر پاندیں دِھاں
شنز ثہ نوذاں سوز اثنت سول پہ سجّلاں
ترجمہ:
میں جنگ چھمبڑی میں صف اول میں شامل تھا
اور جنگ کے تلخ میدان میں موجود رہا
ہمیں دونوں جانب سے زرکانڑیں قبیلے نے گھیر لیا
نقرئی دستے والی تلواروں نے ہمارے سروں پہ سایہ کردیا
زرہ بکتر چھیدڈالنے والی تلواریں کام تمام کئے دیتی تھیں
ولنڑ کو چھوڑ کر میں واپس ہوگیا
اس امید میں کہ چین کی زندگی گزاروں گا
یہ معلوم نہ تھا کہ زیادہ بڑی مصیبت میں گرفتا ر ہوجا¶ں گا
مہربانیاں دور دیس سے صف بستہ ہوئیں
بادل برسا،تازہ کونپلیں سبزہ زار کئے دیتی تھیں
زامرولیڑی لڑزاں چو حضرتی براں
درکفی سمو گوں وثی جیڈی امسراں
چمّاں چرینی گندی ماں چوٹیں چیلکان
سَکھ کن ایں کُلاّں آڑتہ بے ھُوشیں واچڑاں

زامر اور لیڑی نامی بیلیں مقدس پھلوں کی طرح ہوا سے ہلتی ہیں
باہر نکلتی ہے سمو اپنی سہیلی سنگیوں کے ساتھ
نظر دوڑاتی ہے بجلی کی ٹیڑھی لکیروں کا معائنہ کرتی ہے
اری سکھیو! خیموں کی طنابیں سختی سے باندھو کہ بے قابو بارش کے آثار ہیں

ان کا بھائی علنڑ اس معرکے میں کام آیا،ظاہر ہے جس کا مست کو بے حد دکھ ہوا ۔(2)

حوالہ جات
1 ۔    گچکی،یوسف ” مست توکلی“ ماہنامہ آساپ کوئٹہ ،جنوری1993ئ
2۔مری،مٹھا خان”سمو بیلی مست“ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ۔1991ءصفحہ 111۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے