بلوچی ضرب المثل ہے کہ ” انسان کی پہچان یا سفرمیں ہوسکتی ہے یا جیل میں“ ۔ جیل میں تومیں، صرف جیندخان کے ساتھ رہا ہوں مگر وہ بھی مختصر وقت کے لےے۔ ہم دونوں کے بیرک بھی جدا تھے۔یہ ضیاءالحقی مارشل لا کا زمانہ تھا۔ ہم افغان انقلاب کے دفاع میں ،حمید بلوچ کی شہادت کے خلاف جدوجہد میں کی پاداش میں کوئٹہ جیل میں تھے۔مگر،ضیا شفیع اور عابد میر کے ساتھ میرا جیل میں ساتھ رہنے کا اتفاق نہ ہوا ۔
البتہ سفر میں آج ہم اکٹھے تھے، گذشتہ دو دنوں سے ۔ اور وہ بھی ایک ہی کار موٹر میں۔ تو اتنے طویل سفر میں آپ گھل مل جاتے ہیں، آپ کا ظاہر باطن ایک دوسرے سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔ انسان کی اصلیت سامنے آجاتی ہے، بشرطیکہ آپ انسان ہوں۔ بادشاہوں، سیاست کاروں،سرداروں اور اداکاروں کی بات الگ ہے۔
لہٰذا اب ہم گھل مل چکے تھے۔راستہ بھرہم لطیفے بازیاں کرتے رہے، سفر کٹنے کو ہم نے لوک کہانیوں کا بھی ایک مقابلہ منعقد کیا، ہم نے ٹیپ پر انگلش اردو بلوچی گانے ترانے سنے، بلوچی ڈیہی اور دیگر اصناف ِ شعر کی گاگا کر بیت بازی کی۔ ہم نے تاریخ پر گفتگو کی، ہم سیاست اور ادب پہ بولے……..اور ہم نے پہلیاں بھی عین قواعد و ضوابط کے ساتھ بجھوائیں۔ پہیلی کو بلوچی ، میں” چاچ“ بھی کہتے ہیں اور ” بند“ بھی ۔ ” بند“ قدیم بلوچی میں استعمال ہوا ہے : بندے کہ بستہ چاکرارِندہ قویہیں واژہا بند بوژغئے جاہا نہ یا ……..    ہم مقابلہ کرتے رہے ۔ مگر آخری پہیلی جومیں نہ بُوجھ سکا تو ہمارا یہ پہیلی ٹورنامنٹ غیر اعلانیہ طور پر ختم ہوا اور ہم اِس پہیلی کے جواب کو موضوع بنا کر دیر تک گفتگو کرتے رہے۔جیند خان اور ضیا شفیع کی مشترکہ پہلی جو میں نہ بوجھ سکا ، یوں تھی۔ : منی پیر کئے پاغ چو گرّاننت و گراننت ……..“۔( میرے داداکی پگڑی اتنی لمبی کہ سر پہ پیچتے ہی جاﺅ پیچتے ہی جاﺅکبھی ختم نہیں ہوتی)۔
میں پہیلی نہ بُوجھ سکا۔ قواعد کے مطابق ناکامی کے اعتراف کے ساتھ جرمانہ کے بطور مجھے ایک شہرا ُنہیں دینا تھا۔ میں نے” مچ “کا شہر انہیں دے دیا۔ تب انہوں نے جواب بتانے سے پہلے شاعری جیسے یہ جملے بلند آواز میں بولے : ” اَل کناں بَل کناں…….. کوکراں جل کناں…….. ہنجگاں پُل کناں، میتگئے تہا مَل کناں“۔……..مشرقی بلوچستان میں البتہ اِن جملوں کے بجائے یوں کہتے ہیں:مچ باپل، مچ باجُھل، باث منی میشانی دفا ” ( مچ خدا کرے پُر بہار ہو، سبزہ و چراگاہ ہو، اورمیری بھیڑوں کے منہ میں ہو)۔انہوں نے پہیلی کا جواب بتایا : سڑک۔
ارے واہ بلوچستان کی سڑک جو موڑپہ موڑ مڑتی ہے، بلندیاں اترائیاں پھلانگتی جاتی ہے مگر چلتی ہی جاتی ہے، ختم ہونے میں نہیں آتی ۔سفر، بلوچستان کا سفر ۔ چلتے ہی رہو ، چلتے ہی جاﺅ۔مناظر بدلتے جائیں گے، گھنٹے گزرتے جائیں گے۔ مگر منزل ؟ ابھی ایک پہاڑ آگے ، ابھی ایک دشت اور ۔……..بلوچستان کی سڑک ،دادا کی پگڑی!!
ہم چلتے ہی رہے،آگے بڑھتے گئے، اور پھر ایک وسیع علاقہ آیا: ہنگول نیشنل پارک۔بہت ہی اہم ، مگر نظر انداز کردہ علاقہ ایک ایسا پراسرار خطہ جس کے بے شمار نام ہیں:
ہنگلاج مندر۔ہنگلاج ماتا، رانی مندر، نانی مندر ، ہنگلاج دیوی، ہنگولا دیوی۔ یہ سارے نام ہم سنتے رہتے ہیں۔مگر کیایہ سرکار کے دےے ہوئے غیر مقامی نام ہیںیا ہمارے اپنے مقامی بلوچ نام ہیں؟
کیا خوبصورت علاقہ ہے ۔1650 مربع کلومیٹر پر پھیلا یہ علاقہ ورائٹی،رنگارنگی ، تنوع اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے منظر کادوسرا نام ہے۔ اس کاایک علاقہ سطح سمندر جتنا نیچا ہے تو دوسرا آواران کے سربلند پہاڑ بناتا ہے ۔یہاں ایک طرف میلوں تک پھیلی ہموار وادیاں ہیں، تو یہیں ریت کے وسیع صحرا بھی ہیں۔ آتش اچھالنے والے پہاڑ بھی ہیں اور آگ بجھانے والا بحیرہ ِ بلوچ بھی۔ اس کاہر منظر آنکھوں کو فرحت عطا کرنے والا منظر ہے۔
بلوچستان کو ایک گو نا گوں لینڈ سکیپ سے نواز ا گیا ہے۔ زمینی سائنس کے عجائبات کا نام بلوچستان ہے۔ ہمیں اندازہ ہونا شروع ہوا کہ یہ محض ہنگلاج مندر نہیں ہے جو مقدس و استعجاب و استغراق کا باعث ہے بلکہ یہ اُس کے اردگرد کے پورے علاقے کی جادوئیت اور تقدس ہے جو مندر کو ساری اساطیریت عطا کرتی ہیں۔ہم یہاں دنیا کے وسیع ترین اور بلند ترین جیو تھرمل مظہر یعنی گارے کے آتش فشانوں (mud valcanoes) کے ہیڈ کواٹر میں تھے ۔
یہ مَڈ و الکینو کیا ہیں؟۔ اصل میں بے شمار اسباب سے زیرِ زمین، پر یشر کافی بڑھ جاتا ہے۔ وہاںپانی کا درجہ حرارت زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ مختلف زمینی مرکبات کو اپنے اندر شامل کرتا ہوا گارے کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ یہ ابلتا گارا پھر نکاس کے لےے اوپر زمین کی سطح کی طرف لپکتا ہے۔یوں سمندر کے آس پاس ریت میں سے گرم گارا، آتشیں گیسیں اور منرلز پر مشتمل مواد بہت تیزی اور تندی کے ساتھ پھوٹ کر باہر بہنے لگتا ہے۔ اس طرح کے لاوے میں نظر آنے والے بلبلے گیس کے خراج کی نشانی ہے جو کہ اکثریت میں میتھین ہوتی ہے۔ہم ڈاکٹری میں جاندار جسم سے بہنے والے پیپ والے مادے کوexudateکہتے ہیں۔ جسم کا exudate۔ اب ہم ” جیو ایگزوڈیٹ“ دیکھ رہے تھے۔
آتش فشاں جو ابلتا ہوا گرم گاڑھا گارا پھینکتی ہے ، اُس سے جیالوجی کے پراسیس معجزے بناتے جاتے ہیں ۔ آتش فشاں جو ریختر سکیل کے سات اور آٹھ سے زیادہ درجے کے ہوتے ہیں ۔ ابھرتی گیسوں ، خاص کر میتھین گیس سے ابھرتا آتش فشاں ،سینکڑوں فٹ بلند شعلے ہی شعلے اگلتا ہے۔( کیا طلسماتی کہانیاں وضع ہوتی ہوں گی!)۔ ہم انہی شعلوں ، گرم گاڑھے گارے اور پھر ان سے بنے بلند جزیروں کی باقیات سے صدیوں پرانی پیدااور وضع شدہ نظاروں کے بیچ سے سفر کررہے تھے۔ ازلی ابدی حتمی خاموشی تھی ۔ بس ہوا سنسناتی ہے، جھرنے بولتے ہیں، پرندے گاتے ہیں، پہاڑی جانور باتیں کرتے ہیں۔ شہروں ، بنکوں، چمنیوں ، سازشوں سے دور، ہم امریکہ کے ” کاﺅبوائے “ فلموں جیسے وسیع خطے میں سے گزررہے تھے۔جہاں کوئی انسانی آئین نہیں کوئی آئین ساز نہیں۔ بس ” سب سے زیادہ فِٹ ہی زندہ رہ سکے گا“ کا ازلی ابدی کھردرا عالمی قانون چلتا ہے۔ اس قانون کو صرف انسانی محنت اور بشری دماغ ہی سنوارتا نکھارتا اور ترمیم کرتا ہے۔ مگر انسان یہاں سے دور سول سیکریٹریٹ میں بیٹھا ہے …….. جہاں اچھا بھلا اشرف المخلوقات جاکر دو ہفتے میں واپس بوزنہ کی عادتیں اختیار کرتا ہے۔سول سیکریٹریٹ میں جانور کمپیوٹروں، موبائلوں ، آٹو موبیل اور بینکوں کے ذریعے خود کو بقا کے لےے فٹ سے فٹ تر بناتا ہے اور یہاں ہنگول میں جانور بے ساختہ، کم پیچیدہ ، کم تکلیف دِہ اور کم ایذا رساں نیچرل طریقوں سے اپنی بقا کا سامان کرتا ہے۔
سمندر ، آتش فشاں اور بلوچستان۔ فطرت زلزلوں کی صورت میں اٹھکیلیاں کرتی ہے یہاں۔ کبھی چاہے تو نئے جزیرے بنا دیتی ہے اور پھر ایک ڈیڑھ ماہ میں سمندر اُسے پھر نگل لیتی ہے۔ فطرت، جب چاہے ٹھوس وجوہات کی موجودگی میں خطے کوسونامی میں ڈھال دیتی ہے ۔ جانداروں کے بے شماراقسام کروڑوں کی تعداد میں خواہ غرق گِل ہوں، غرق ِخاک ہوں یا پھر غرقِ جبل ہوں، بے پرواہ کو کیا پرواہ۔اِس” میگا“ اتھل پتھل میں معدومیت اور بعثت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہم اپنے قاری کواس علاقے میں موجود جبل الغراب اور بابا چندر گُپ نام کی جگہوںکے چکر میں ڈالے بغیر یہ بتادیں کہ فطرت کی یہ بازی گری ہنگلاج ٹمپل کے گردونواح میں میلوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
بل کھاتا، ناز دکھاتا، اٹھکیلیاں کرتا کوسٹل ہائی وے خود اپنے حسن کے علاوہ اپنے آس پاس سے بھی مسافر کو دہنِ حیرت بند کرنے نہیں دے رہی تھی۔ حسن و جمال ایسا ،جو نادر و ناپید ہے ۔ ایسا حسن جو آپ کو دنیا بھر میں صرف اور صرف یہیں ملے گا۔ نادر و ممتاز خوبصورت اشکال کی چٹانیں اور چھوٹی پہاڑیاں آپ کے ذہن و دل کوحیران کردیتی ہیں۔ڈیزائینیں…….. کچھ ایسی بھی بد شکل جیسے چھوٹے بچوں کے کم ترقی یافتہ ذہنوں اور ” نا اُستاد “ ننھے ہاتھوں نے بنائے ہوں۔ کچھ ایسی جو تدڑی اور تربت کی محنت کشوں عورتوں کے مشاق ہاتھوں کی گِل کاری کی شاہکار ہوں، اور کچھ ایسی جنہیں دیو ہیکل اہرامِ مصر کے اساطیری معماروں نے ڈیزائن کیا ہو۔ سیما سردار زئی، عبدالباسط شیخی، اکرم دوست ، جمیل جَان اور حسن یادگار زادہ کی ارواح کن کن جسموں کو ملبوس کرتی رہی ہیں!!
بدبخت یونیسکو پتہ نہیں کہاں مر گیا ؟۔ ہمارا ٹورازم ڈیپارٹمنٹ پتہ نہیں کہاں ہے؟ ۔ آرکیالوجی اور کلچر محکمے کہاں ہیں؟ اور وہ وائلڈ لائف والے این جی اوز کہاں ہیں۔
یہ تین ضلعوں پر مشتمل علاقہ ہے ۔ اور ضلع بھی بلوچستان کا ،جو کہ خود ایک صوبے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ اضلاع ہیں: لسبیلہ ، آواران اور گوادر۔دریائے ہنگول کی طوالت اور حیات بخشی نے اس وسیع وغیر آباد علاقے کو نباتات اور جانداروں کی ایک عظیم ورائٹی عطا کررکھی ہے۔ رینگنے والے جانوروں سے لے کر چیتوں بھیڑیوں تک اور ہزاروں پرندوں کی اقسام سے لے کر میمل جانوروں کے درجنوں رجمنٹوں تک اس علاقہ کو آباد کےے ہوئے ہیں۔یہاں آپ کو بے شمار رینگنے والے زہریلے اور بے زہر جانوروں، دودھ پلانے والے جانوروں کی سینکڑوں قسمیں ملیں گی…….. جنگلی بلی بھی ملے گی اورOlive Ridley ، چیتے، لگڑ بھگڑ، پرشین جنگلی بکرے، صحرائی بلی ، spinyچوہا، بلوچستانCape hare gerbil ، بھیڑیا، پینگولن، سرخ لومڑی، چنکارا غزال،بنگال مانیٹر گرگٹ، گرے مانیٹر گرگٹ ، گیکو، Sunksنامی گوشت خور،کوبرا سانپ ، Saw-Scaled کوبرا وائپر،horned وائپر سانپ، سمندری سانپ ، جھینگا ، شرمپ ، پام فریٹ ، ڈولفن ، بُلووھیل ، کچھوے……..آپ نام لیں وہ جانور اس وسیع و عریض اورمتنوع جغرافیائی علاقے کے کسی پَلُو میں بندھاملے گا۔
پرندوں میں ماہی گیر عقاب، Bonnelli’s عقاب، سرخ سر والا باز، Patridge، سینڈ گاﺅز، تلور، sport billed Pelicans نامی ماہی خورپرندہ۔……..اس کے علاوہ ہنگول نیشنل پارک مہاجرت کرنے والے پرندوں کا زمستانی مسکن توہے ہی۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) نے ہمارے اِس پارک کے سولہ اقسام کے جانوروں کو اپنے اُس لسٹ میں ڈال دیا ہے جن کا وجود ختم ہونے کا خطرہ ہے۔
ہم حکومت کو ” خدارا ، خدارا“ والا غلامی بھرا لفظ نہیں کہیں گے، ہم اُسے اپنی فولادی کُوھلی (مٹکے نما بہت بڑا مٹی کا برتن جس میں اناج ذخیرہ کیا جاتا ہے) سے پیسہ نکالنے کو نہیں کہیں گے۔ ہم اُس کے ولڈ بینکی پولٹری فارمی نازک دماغوں پہ زور دینے کی بات بھی نہیں کریں گے۔ وہ بس کچھ نہ کرے ۔ بس ” اے سکندرِ اعظم، تم موسمِ سرما کی سردی میں فلاسفر، ڈایوجنیز اور دھوپ کے بیچ کھڑا مت ہو“۔ تم اے حکومت ! بس انسانوں اوراِن مناظر کے بیچ رکاوٹ نہ بنو۔
یہ ہم اس لےے کہہ رہے ہےں کہ ہنگلاج کو پیسوں، دماغوں، مددگاروں ، ماہروں کی ہم سے ضرورت نہیں۔ ہنگلاج اب محض مقامی عجوبہ نہیں رہا۔ ٹوراِزم کا یہ وسیع و عریض خطہ صوبائی نہیں مرکزی کنٹرول میں ہے۔ اس کی دیکھ بحال کے لےے ورلڈ بنک پیسہ دیتا ہے ،بے شمار این جی اوز اِس پر پل رہے ہیں۔ اس لےے یہ ایک بین الاقوامی درجے کی جگہ ہے۔
اس لےے حکومت کچھ نہ کرے۔ میں تو بس اتنا کہتا ہوں کہ کالج اور یونیورسٹی طلبا کے بہت کم خوبصورت اور کم دلچسپ علاقوںکے مطالعاتی دوروں پر حکومتِ بلوچستان ہر سال کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے ۔ کون طلبا تنظیموں اور اُن کے لیڈروں کوسمجھائے کہ ذرا یہ مناظر بھی تو دیکھو، ورطہِ حیرت میں رہتے ہوئے ساری زندگی، زندگی سے محبت کرتے رہو گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے