سائیں کمال خان شیرانی کی چوتھی برسی منائی جارہی ہے۔ سائیں بابا خان شہید کے دیرینہ رفیق کار تھے سائیں بابا جب طالب علم تھے اس وقت آپ نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور اس وقت سے برصغیر میں ہونے والے حالات وواقعات پر گہری نظر تھی ان حالات نے سائیں بابا کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اور خا ن شہید کے ساتھ عملی سیاست میں شامل ہوکر مرتے دم تک ناقابل بیان قربانیاں دیں۔
آپ1922ءمیں ضلع شیرانی کے شنہ پونگا میں حاجی عیسیٰ خان کے گھر پیدا ہوئے۔ والد کی دلچسپی کی وجہ سے پرائمری تعلیم کڑمہ میں حاصل کی۔ مڈل ژوب شہر میں، میٹرک سنڈیمن ہائی سکول اور بی۔ اے آنرز اسلامیہ کالج شاور سے پاس کیا۔ اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اور 1945ءمیں تحصیل گلستان میں تحصیلدار کے عہدے پر تعنیات رہے۔ سائیں باباکی سیاسی جدوجہد سے تقریباً تمام لوگ واقف ہیں۔ لیکن سائیں باباکی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کی سیاست کے ساتھ ساتھ صحافت میں ناقابل بیان خدمات ہیں۔ سائیں بابا نے لوگوں کے سیاسی شعور کو اجاگر کرنے کے لئے 1953ءمیں پشتورسالہ کا اجراءکیا۔
قیام پاکستان کے بعد 1950ءمیں ملک کے استعماری پالیسیوں سے تنگ آکر احتجاجاً مستعفی ہوئے اور کوئٹہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک مکان میں رہنے لگے۔ جو بعد میں لٹ خانے کے نام سے مشور ہوا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے مل کر پشتو زبان کا رسالہ”پشتو“ کے نام سے اجراءکیا۔ اور سائیں بابا کا یہ اعزاز رہتی دنیا تک رہے گا۔ کیونکہ یہ رسالہ پشتون بلوچ صوبے کا پہلا پشتو زبان کا ماہنامہ رسالہ رہا۔ ”پشتو“ رسالہ کا اجراءلٹ خانے سے 1953ءمیں ہوا ۔ لٹ خانہ پشتونوں اور بلوچ ادیبوں کا مرکز رہا۔ سائیں بابا اس رسالے کے ایڈیٹر رہے۔ رسالے کی عمومی پالیسی عوام دوست، انسان دوست اور وطن دوست فکر تھی۔ رسالے کالم نگار پشاور سے ہمیش خلیل صاحب، اسی طرح مفلس درانی، میر مہدی شاہ، ایوب صابر، جگر آفریدی، مراد شنواری، سید محمد رسول فریادی، علی محمد برگر، عبدالخالق ترین، میر ابو کے اشعار اور تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے پشتو زبان کے ممتاز ادیب عبدالحئی حبیبی صاحب ماہنامہ پشتو میں مضامین چھپے۔ پشتو رسالے کا پہلا اداریہ سائیں کمال خان شیرانی نے خود تحریر کیا۔ جس کا عنوان تھا”ہم پشتون “پشتو میں ایک دوسرے کے ساتھ بولتے ہیں مگر بد قسمتی سے پشتو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ اسی اداریہ پر انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ پشتو بولنے کے ساتھ ساتھ پشتو پڑھیں اور لکھیں تاکہ پشتو زبان کی بہتر انداز میں خدمت ہوسکے۔ آپ کے اس اداریے کو اس وقت بہت سے لوگوں نے پسند کیا ۔ اس کے علاوہ اسی پشتو رسالے میں ایک بلوچ ادیب عبداللہ جان جمالدینی نے پشتو زبان کے رسم الخط کے حوالے سے لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پشتو چونکہ میری زبان تو نہیں ہے مگر میں اپنے دوستو ں کے حوصلے اور ہمت سے پشتو زبان لکھ رہا ہوں ۔ رسالے کا خرچہ بقول عبداللہ جان جمالدینی جس نے اپنی کتاب
لٹ خانہ میں لکھا ہے کہ ہم لوگ خود برداشت کرتے تھے۔ ہم لوگ ٹیوشن پڑھاتے اور اپنے روپیوں کو رسالہ نکالنے پر لگادیتے۔ اس کے علاوہ افغان قونصلیٹ ہر مہینے 60عدد رسالے خریدتے اور اس سے بھی ہمیں کافی آمدنی ہوتی اور ہم لوگ رسالے کو چلالیتے تھے۔ رسالے کے ایڈیٹر خدائیداد تھے جو ”پشتو“ کے لئے مضامین اور دیگر مواد اکٹھا کرتے۔ ٹائٹل کو مختلف طریقوں سے سجاتے۔ خدائیداد آرٹسٹ بھی تھے اور ہر قسم کی اشاعتی تکنیک سے آگاہ تھے۔ پشتو رسالہ بقول عبداللہ جان جمالدینی اتنا مقبول ہوا کہ حکومت کو ہمارے رسالے سے ڈر لگنے لگا۔ عبداللہ جان لٹ خانے میں مزید لکھتے ہیں کہ ماہنامہ پشتو نے بڑا نام پیدا کیا اور بہت مقبول ہوا۔
رسالے میں شعری مواد کا تناسب تقریباً30تا35فیصد تھا۔ رسالے میں وہ اشعار چھپتے جو ترقی پسند اور عوام دوست فکر کے قریب ہوتے۔ رسالے کے ٹوٹل11شمارے نکلے جو کافی مقبول ہوئے۔ بالآخر یہ رسالہ حکومت وقت پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت1954ءکو ہمیشہ کے لئے بند کردیا۔ رسالے کی ماسٹر کاپی ژوب کے ایک اور ادیب مرحوم کمال الدین شیرانی کے پاس ہے۔ جواب اس کے بیٹے ڈاکٹر قطب الدین نے محفوظ کیے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ شاید کسی اور کے پاس نہ ہو۔
سائیں بابار اپنے آپ کو گمنام سپاہی کہتے تھے لیکن اصل میں وہ عظیم انقلابی تھے جنہوں نے اپنی دانش اور علم کی بنیاد سیاسی، نظریاتی اور سائنسی بنیادوں پر منظم کیا جس کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے آج اگر وہ ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن ان کے نظریات آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
سائیں کمال 88برس کی عمر میں 5نومبر 2010ءکو اس دار جہانی سے کوچ کرگیا۔ اور ہم ایک عظیم سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ ایک بڑے پائے کے صحافی وادیب سے بھی محروم ہوگئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے