بس ایک نقطہ ۔ کل کائنات اپنی ۔۔۔وہی نقطہ جو کاغذ پر لگائیں تو بعض اوقات آسانی سے نظر نہیں آتا. جسے ریاضی دان صفر جہت یعنی zero dimension کہتے ہیں ۔ لیکن اسی نقطہ سے ساری جہتیں جنم لیتی ہیں ۔جہتیں یعنی کسی بھی وجود کی موجودگی کا، اس زمان و مکاں میں ، الفاظ میں بیان کرنے کا پیمانہ ۔۔۔
اب سوال یہ بھی وبال لاتا ہے خیال میں میرے۔۔۔.
کہ جہتیں ہیں کتنی ؟ کیونکہ میری ظاہری نظر جو دیکھتی ہے اس لحاظ سے تو صرف تین جہتیں ہیں دنیا میں اور ہم اس میں ہی پھولے نہیں سماتے۔ہمیں باقی جہتوں کو سوچنے یا جاننے کی کیا ضرورت…لیکن پھر جب آنکھیں بند کر کے اس کائنات کا تصور کیا تو بس اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور کچھ دیر اندھیرے میں بھٹکنے کے بعد اس میں اک چھوٹا سا روشن نقطہ نمودار ہوا اور پھر دیکھتے دیکھتے کئی روشن نقطے دکھائی دیے اور پھر ۔۔۔ شاید ان روشن نقطوں کے درمیان اپنے اس وجودِ خاکی کے کھو جانے کے ڈر نے آنکھیں کھول دیں.
کاغذ قلم اٹھایا اور اک نقطہ لگایا ۔۔۔ اک نہ ختم ہونے والے سفر کا آغاز !
نقطے سے قلم نے سفر کا آغاز کیا وہ جب ایک دوسرے نقطے تک پہنچا تو یہ” پہلی جہت” کہلائی جسے نظر سے دیکھا جاسکتا تھا نظر سے ہی چھوا جاسکتا تھا۔ اسے لائن کا نام دیا گیا یعنی نقاط کی قطار ۔ نقطے سے آگے کا سفر شروع.. ..
پھر جب فاصلہ پر موجود دو لائنوں کو ملایا گیا تو دوسری جہت وجود میں آئی. جس میں نظر کا ہی دخل تھا کہ جس جہت سے صرف کسی بھی شکل کی لمبائی اور چوڑائی ناپی جاسکتی ہے ۔دو جہتی وجود کی مثال جیومیٹری کی مثلث یا چوکور اشکال جیسی ۔۔۔
اب جب سفر شروع کر ہی دیا تو آگے جا کر بھی دیکھا جائے اس نقاطی لیکن بیثباتی دنیا کا اصل ۔جس کا خاطر دو دو جہتی وجودوں کے کونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کونوں سے اگر لائنز کی مدد سے ملایا جائے تو سہ جہت وجود حاصل ہوگا۔ ان سہ جہتی مخلوقات میں ہم انسان شامل ہیں . تین جہتیں ۔ لمبائی چوڑائی اور گہرائی یا موٹائی۔۔۔ یہ تیسری جہت کے باعث ہم کسی شے کو ہاتھ سے چھو کر محسوس کر سکتے ہیں ۔ لیکن محسوس کرنے کے لیے احساس کا ہونا لازمی ہے ورنہ بے حس کیلیے سہ جہتی شے یعنی دوسرا انسان بھی صفر جہتی بن جاتا ہے .
اب جب کہ منزل پانے کیلئے سفر ہی شرط ٹھہرے تو پھر اگلی جہت کی طرف روانگی شروع…
وہ جہت ہے وقت …ہاں وہ گھڑی جس میں ہم جی رہے ہیں۔ جس کے اگلے پل ہمارے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اختیار ہمارے بس میں نہیں . لیکن ہم ہوں یا نہ ہوں وقت پھر بھی رہے گا اور یونہی چلتا رہے گا۔۔۔ اس جہت نے بہت جہتوں کے دروازے کھول دیئے اور روز بروز در پہ در کھلتے جارہے ہیں.. .
ریاضی دان اسے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جیسے دو دوجہتی اشیاء کو انکے مماثل کونوں سے ملانے سے سہ جہتی شے وجود میں آئی۔ اسی طرح دو سہ جہتی اشیاء کے مماثل کونوں کو ملانے سے چہار جہتی شے وجود پذیر ہوتی ہے جس میں ظاہری آنکھ سے تو وہی سہ جہتیں نظر آتی ہیں لیکن اس وجود نے اپنے اندر لائنز کی ایک دنیا بسائے رکھی ہے اور ان لائنز کے خلا کو بھر رکھا ہے وقت نے…
چہار جہتی نظریے نے مزید جہتوں کو جنم دیا کہ وقت ایک relative جہت ہے ۔جہاں ہم کل تھے وہاں آج جائیں تو کتنے لمحے بدل چکے ہوں گے اور اگر ہم آنے والے پل میں وہاں گر موجود ہوں تو یہ لمحہ بھی ہاتھ سے گر کر مٹی مٹی…
اسی جہت کو ایک اور نظر سے دیکھا گیا کہ اگر نقطے کو صفر مان ہی لیا ہے تو اس صفر کے دائیں جانب سفر بھی اسی طرح ممکن ہے جس طرح دائیں جانب اس کے اوپر نیچے آگے پیچھے جب سفر ممکن ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ہم صرف موجودہ وقت سے مستقبل کی طرف ہی سفر کر سکتے ہیں کیوں نہیں ماضی کی طرف جاسکتے.. اس ہی ماضی کی جانب جس میں ہمارا بچپن گزرا جوانی بیتی جو ہمیشہ سے خیالوں میں آباد رہا۔ اور یہ بھی ایک بات ہے کہ جو ہمارا بچپن تھا وہ کسی کی جوانی اور کسی کا بڑھاپا تھا، اور آج کسی کا بچپن اور کسی کی جوانی ہمارا بڑھاپا ۔ وقت کا چکر .. وقت ظالم وہی رہا پر ہم آگے نکل رہے ہیں شاید۔۔۔
بہرحال ان مستقبل کی طرف اٹھتے قدموں نے مساوی مگر مخالف کائنات کا تصور بھی دیا جس کے تحت بالکل مساوی خط پر رواں ایک اور کائنات بالکل ہماری کائنات جیسی لیکن مخالف سمت میں ماضی کی جانب رواں ۔۔۔ نجانے کون خوش قسمت لوگ ہوں اس parallel universe کے ،جو ماضی میں جاسکتے ہوں۔
لیکن نقطے کا سفر ابھی بھی ختم نہیں ہوا ۔بہت طویل رستہ ہے ۔ابھی تک جہتیں اپنی زمین کے رستے میں ہی قید ہیں ۔اگلا قدم جو زمین سے باہر نکل کر کائنات میں رکھنا ہے وہ ابھی باقی ہے۔۔۔
اس ہی سفر نے ایک اور جہت سے آشنا کیا کہ اگر کوئی شے بظاہر اپنے لحاظ سے خط مستقیم پر چلتی ہو لیکن دوسرے کی نگاہ اس بل دار راستے پر ہے جس پر وہ چل رہا ہے …ایک اور تھیوری آف relativity کا پہلو …ٹرین میں بیٹھا مسافر ٹرین سے باہر کی دنیا کے مطابق سفر میں ہے منزل کی طرف لیکن ٹرین میں سوار مسافروں کے لحاظ سے حالت سکوت میں ہے… یہی تھا آئن اسٹائن کا نظریہ relativity … یہی بات string theory نے بھی بتائی کہ بل کھاتے رستے پر رواں چیونٹی اپنے لحاظ سے راہ مستقیم پر ہو لیکن جب اسی راستے کو ہم اپنی انسانی آنکھ سے دور کھڑے دیکھتے ہیں تو اس میں بہت پیچ و خم نظر آتے ہیں .یعنی بظاہر ایک ہی سمت میں رواں وجود زماں و مکاں کے لحاظ سے کئی سمتوں کا مسافر ہے۔
بڑے پیمانے پر اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ہماری زمین ۔ یعنی سورج کے گرد گھومنے کا دعویٰ کرنے والا وجود خود اپنے مرکز کے گرد بھی گردش میں مصروف ہے کہ جس کے نتیجے میں زمین کے ایک حصے میں دن تو دوسری جانب بسنے والوں کے حصے میں رات آتی ہے۔
یہی جہت اگر کائنات میں گردش کرتے بڑے بڑے سیاروں پر لاگو ہو تو کشش ثقل کی قوت سمجھ آتی ہے اور اگر کائنات کی چھوٹے سے چھوٹے ترین اکائی یعنی ایٹم اور اس میں بسنے والے ذرات پر لاگو کریں تو الیکٹرو میگنیٹک قوت کی سمجھ آتی ہے ۔کشش ثقل یعنی وہ قوت جس نے ہمیں ہماری اوقات میں رکھا ہوا ہے زمین کو سورج سے ملنے سے روک کر … ورنہ زمین کی خاک راکھ ہوجائے سورج سے مل کر ۔ اسی کشش ثقل کی بدولت زمیں اب تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے.
کوانٹم فزکس کی مہربانی کہ ہمیں زمین پر رہ کر ہی بڑی کائنات کے چھوٹے ماڈل ایٹم کے ذریعے اسی کششِ ثقل کی طرح ایک اور جہت اور قوت یعنی الیکٹرو میگنیٹک فورس سے متعارف کرایا ۔ ایک ایسی قوت جس نے ایٹم جیسے چھوٹے سے ذرے کو نظام شمسی جیسے بڑے وجود کے مقابل لا کھڑا کیا۔ مقناطیس اور مقناطیسی قوت سے ہم واقف ہیں کہ جو لوہے کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور مقناطیسیت کا ایک جال بچھائے رکھتا ہے اپنے ارد گرد … اسی مقناطیسی قوت اور الیکٹرک کی قوت کو ملا کر اس جہت کا نام رکھا گیا الیکٹرو میگنیٹک جہت . جسکا زیادہ تر عمل دخل ایٹامک سطح پر سمجھا گیا۔
ایٹامک دنیا مطلب ایک ننھی سی کائنات ۔جس کا مرکز یعنی نیوکلیس بھی کشش رکھتا ہے اپنے گرد گھومتے منفی چارج پارٹیکلز یعنی الیکٹرانز کے لیے… مطلب مریدوں یعنی الیکٹران کی محبت میں محبوب مرشد یعنی نیوکلیس بھی گرفتار ہے۔ یہ قوت اپنے سے نزدیک الیکٹرانز کے لیے بیحد زیادہ کہ یہ الیکٹران نیوکلیس سے جدائی کا شاید تصور بھی نہیں کریں اور گر انہیں دور ہونا پڑے تو اپنے مقام کے لحاظ سے انرجی کا اسی حساب سے اخراج اس دوری پر احتجاج گردانا جانا چاہیے ۔
لیکن یہ ایٹامک کائنات یہیں تک محدود نہیں ۔نیوکلیس کے اندر بھی ایک کائنات ہے مثبت اور بغیر کسی چارج والے ذرات کی جو اگر توڑے جائیں تو مزید باریک ذرات جنم لیں ۔ اسکے ساتھ ہی انرجی کا ایک خزانہ حاصل ہوتا ہے جسے نیوکلیر انرجی کہا جاتا ہے۔کسی کی دوری کسی کی مجبوری ایک انرجی کی صورت میں اور ہم اسی دوری اور توڑ پھوڑ کی آہ یعنی انرجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایٹم بم بنا کر اپنوں کو اپنے سے ہی دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ۔۔۔.
اگر چھوٹی کائنات کی اسٹرنگ تھیوری سے بڑی کائنات کی طرف جائیں تو کشش ثقل اور آئن اسٹائن کی relativity تھیوری نے کائنات میں موجود سیاہ مادے کی موجودگی کا پتہ دیا … ستاروں کی پیدائش سے راز اٹھا ۔ اور پھر انہی دونوں کائناتوں کو مماثل بنانے کے لیے سرگرم physicists اور ریاضی دانوں mathematicians نے تھیوری آف یونیفیکیشن اور تھیوری آف everything پیش کیے۔۔۔
لیکن یہ سفر اب بھی ختم نہیں ہوا … نقطے کا سفر جاری ہے شاید اس دن تک جب نقطے سے پیدا ہونے والی نقطے برابر زمین اور یہ اجرام فلکی ایک دن سکڑ کر نقطے میں ہی سمٹ جانے ہیں . صفر کا سفر صفر ہی ہونا ہے اک روز …
لیکن کیا ہی بہتر ہو صفر ہونے سے پہلے ہم اپنے اندر بسی کائنات کے رموز بھی جان لیں . خاک کے راکھ ہونے سے پہلے ، اپنے آج کو بہتر بنانے کی کوشش کریں کہ آنے والے کل کی نسل اندھیرے میں نہ بھٹکے . اس سفر کے اختتام سے پہلے ، اپنی سمت کو اپنی جہت کو بہتری کی جانب موڑ لیں علم و عمل کے رستے پر چل کر کہ پھر کہیں دیر نہ ہو جائے…
کہ اک نقطے توں شروع ہون والی گل …اخیر وچ نقطے میں ہی مک جانی اے …
بقول بابا بلہے شاہ
بْلھا بات سچی کدوں رْکد ی اے
اک نقطے وچ گل مکدی اے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے