سبھی ِ تیر جو ِ مرے دِ ل میں ہیں، ہیںِ عنا یتیں ِ مرے یار کی
اُسی یار کی ِ مرے خوں نے دی جسے کرّ و فر سرِ دار کی
میں کٹا پھٹا ہی رواں رہا اُسی سچ کی دو رُخی دھار پر
وہی سچ کہ اہلِ جہا ں نے جس کی غلاف پوشی ہزار کی
مِرے ہر عمل کی اساس ہے رُخِ حق کی جلتی لگن مری
اِسی چلچلاتی لگن پہ میں نے حیات اپنی نثار کی
مئے ناب شیریں سرُو ر کی تُو ہے پی کے جُھو متا اس قدر
کبھی پی مزاحمتِ جہا ں کی شراب تلخ خُمار کی
مرے بازووں پہ نشان ہیں ، مرے دست و سینہ ہیں زخم زخم
یہی زخم اب مرے پُھول ہیں، مُجھ ے جُستجو تھی بہار کی
مُجھے کاوِش آپ ہی ہوش تھا ، نہ کسی کا ہاتھ میں ہاتھ تھا
ِمِری ہم سفر مِری چیخ تھی یا اُداسی راہ گُزار کی