وبھوتی نارائن راے کی تحریرسے میری ملاقات اُن کے ناول ’’تبادلہ‘‘ میں ہوئی جس کا ترجمہ اجمل کمال کے کتابی سلسلہ ’’آج‘‘ کے شمارہ 66 میں شائع ہوا تھا۔ اسے ترجمہ بھی نہیں کہا جاسکتا صرف رسم الخط تبدیل کیاگیا تھا۔ زیباعلوی نے جو وبھوتی نارائن کے ناولوں کی سچی قدردان ہیں اردو کے قارئین سے ان کی ملاقات کا سبب بنیں۔ یہ ایک ایسی ملاقات تھی جس میں مانوسیت کی فضاتھی۔ ان کی تحریریں ہمارے اپنے ہی اردگر کی جھلک دکھا ئی دیں بلکہ ایک خودغرضانہ سی خوشی بھی ہوئی کہ پڑوس میں رہنے والے بھی ان مسائل سے دوچار رہے ہیں جن سے ہم۔ میں جو خود بھی ان دنوں سرکاری ملازمت کی بوالعجبیاں سہ رہی تھی اور غالبؔ کا یہ مصرعہ دُہراتی تھی۔
ہوتا ہے شب و روزتماشا مرے آگے
ان کے ناول کے کرداروں کو اپنے اردگرد کے چہروں میں پہچانتی چلی گئی۔
دراصل 1970ء کی دہائی میں یونی ورسٹی میں اخلاقیات کے سبق ذہن نشین کرکے اُن کی دھجیاں بکھرتے دیکھنا ہماری نسل کا المیہ ہے جو بہت کم عرصے میں دوبدترین سانحوں سے گزری۔ پہلا سانحہ ملک کا دوحصوں میں بٹ جانا، دوسرا ضیاء الحق کا تسلط۔ دونوں ہی نے اخلاقیات کے وہ پُرزے اُڑائے تھے کہ اُن کے غبار میں رہنما اوررہبر جیسے الفاظ شعبدہ بازوں پرمنطبق ہوگئے تھے۔ پھر یہ شعبدہ بازی ہر شعبے میں سرایت کر گئی۔ مذہب، فلاح وبہبود، صحافت، تجارت حدیہ ہے کہ تعلیم کے شعبے تک شعبدہ گروں کے چنگل میں چلے گئے۔ خرد کا نام اب جنوں بھی نہیں رہا، دانش وری کے نام پر ٹوپی سے خرگوش نکالتے ہوئے لوگ نظر آنے لگے۔
ایسے میں جب ناول ’’تبادلہ‘‘ میرے ہاتھ آیا توکرپٹ ایگزیکٹو انجینئرتعمیرات شری کملا کانت، کائیاں اسسٹنٹ انجینئررضوان الحق، پولی ٹیکنک کی فیکٹری سے نکلا مال (یہ وبھوتی نارائن راے کے کتنے سچے الفاظ ہیں) دھورولال جونیئرانجینئربے حد تابعدار، خوشامدی، لالہ شری واستوجولالہ بابو کہلائے۔ اور لٹن راے صحافی ان کے پیشے کے کئی اور بھی کردار، سیاست دان اور وزراوغیرہ وبھوتی نارائن کی تحریر میں ان کا تعارف جس طرح کرایا گیا تھا اس کا لطف کچھ ہم ہی لے سکتے تھے جو اپنی حرکات و سکنات میں ہمارے اپنے لوگوں سے مختلف نہیں تھے۔ مثال کے طور پر صحافی للّن راے کو دیکھیے:
للّن راے گوناگوں صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز اخبار کے ہاکر کی حیثیت سے کیا تھا۔ اخبار بیچتے بیچتے وہ صحافی بن بیٹھے۔ شروع شروع میں وہ ایک روزنامے کے، جو اسی شہر سے چھپتا تھا، وہ اپنے محلے کے نامہ نگار بن گئے تھے۔ اگرچہ وہ صحیح ہندی نہیں لکھ پاتے تھے اور ان کے زیادہ تر مراسلوں کو ڈیسک پر بیٹھا کوئی نائب مدیر اپنا سر پیٹتے ہوئے تقریباً پھر سے پورا لکھتا تھا، پر وہ جلدہی شہر کے سب سے معروف نامہ نگار بن گئے۔ وہ روز، بغیر کسی اجرت کی خواہش کیے، کئی کئی صفحے کالے کرتے تھے اور انھیں اندھیرا ہوتے ہوتے اپنے اخبار کے دفتر پہنچا آتے تھے۔
للّن راے اور ان کا اخبار دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم تھے۔ انھوں نے ایک ایسے وقت میں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا جب سماج کے دوسرے طبقوں کی طرح صحافت میں بھی ’’آدرش‘‘ ایک فالتولفظ بن کر رہ گیا تھا۔ ہر شعبۂ زندگی میں خریدوفروخت جیسے نظریات نے صحافت کو بھی ایک کاروبار کی حیثیت دے دی تھی۔
اب ذرا ان اخباروں کے بارے میں بھی سُن لیجیے جنھیں لٹن راے جیسے صحافیوں کی ضرورت تھی اور اسے حال سے جوڑتے ہوئے چینلز کا تصور کرلیجیے۔
ہوا کچھ ایسے کہ صوبے کے تین اخبار گھرانو ں میں بھیانک قسم کی جنگ چھڑ گئی۔ یہ اخبار صوبے کے مغربی، مشرقی اور وسطی حصوں سے نکلتے تھے اور ان کے اپنے اپنے علاقے تھے۔ کاروباری مسابقت کی بنا پر تینوں کے مالکوں نے ایک دوسرے کے علاقوں میں گھس بیٹھ شروع کردی۔ انھوں نے دھڑا دھڑ نئے نئے شہروں سے اپنے ایڈیشن نکالنے شروع کردیے۔ بینکوں اور سرکاری اداروں کا پیسہ ان کی اخباری طاقت کی وجہ سے بآسانی حاصل تھا۔
وبھوتی نارائن کے ناول ایسے ہی کرداروں سے آگے بڑھتے ہیں، ان کا نام، تعارف، نفسیات اور واقعات کہانی کار کے تیز مشاہدے کے ساتھ باریک سے باریک جُزیات سمیت قارئین کی توجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ واقعات کی کڑیاں ملتی جاتی ہیں اور زندگی اپنے تمام رنگ آشکار کردیتی ہے جس میں جھوٹ، فریب، مکر، امارت، غربت، طاقت، تسلیم ورضاغرض وہ سب کچھ ہے جو کسی ناانصاف معاشرے میں عروج پر ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے میں بے بسی کے ادراک میں وہ بھی بے بس نظر آتا ہے جو اس کا حصہ نہیں بن سکتا۔ وبھوتی نارائن ایسے ہی قلم کار ہیں جنھیں صرف قلم پر اختیار ہے سو وہ پولیس میں رہ کر بھی پولیس کے محکمے کے خلاف لکھتے رہے۔ ’’شہر میں کرفیو‘‘ ایک ایسا ہی جرأت مندانہ ناول ہے جس میں وبھوتی نارائن کی کردار نگاری، واقعات کے ساتھ گُندھی مکمل سماجی عکس بندی بن جاتی ہے۔ آپ اسے ناول کہیں، تاریخ کہیں، دستاویز کہیں مگر حال کی گواہی مستقبل کے تاریخ دانوں کوادب سے ہی ملتی ہے۔
’’گھر‘‘ وبھوتی نارائن کا ایک ایسا ناول جو غریب متوسط گھرانے کی بے گھری کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ضلع کے کسی تحصیل کے مرکزی کردار ریٹائرڈ ہیڈماسٹر منشی جی ہیں جن کی بیوی کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کی 28سال کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے غیرشادی شدہ ہے۔ بی اے پاس بیٹا بے روزگار ہے۔ چھوٹا بیٹاسکول چھوڑ کر آوارہ گردی کرتا رہتا ہے۔ بیوی کے مرنے کے بعد ان کا گھر، گھر نہیں رہا، صرف ایک مکان ہے جس میں یہ تمام افراد اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے دل جن دکھوں سے بھرجاتا ہے ان کو دور کرنے کا کوئی سامان معاشرے میں نظر نہیں آرہا ہے، ایسے جانے کتنے ہی گھر ہیں جو بچوں کو بڑے ارمانوں سے پروان چڑھاتے ہیں مگر غربت ناصرف ان کی دیواروں کو ڈھادیتی ہے بلکہ رشتوں کو بھی بکھرا دیتی ہے۔
’’گھر‘‘ سے ایک اقتباس سنیئے اور پہچان لیجیے کہ ہماری آبادی کا بھی ایک بڑا حصہ ایسے ہی کرداروں پر مشتمل ہے:
’’گھر کی یاد آتے ہی ونود کامن کڑواہٹ سے بھر گیا۔ کتنا دُکھد ہے ایک بھرے پُرے گھر کا ندی کے الگ تھلگ ایک دوسرے کے کٹے جزیروں میں تبدیل ہوجانا۔ بیگانگی کی جیسی ٹھہری ہوئی ندی ان جزیروں کے بیچ سے ہوکر گزرتی تھی، اس کی محض یاد سے ہی ونود کے اندر کا بہت کچھ پگھلنے لگتا ہے۔ آخر کیسے ہوگیا یہ سب؟ کیوں گھر کے افراد ایک دوسرے سے کٹتے کٹتے ایک دوسرے سے اتنے دور ہوگئے کہ اب ان کے بیچ کسی طرح کا مکالمہ ممکن ہی نہیں رہ گیا ہے؟ گھر کیا محض چاردیواروں اور چھت سے بنتا ہے، ایسی چھت اور دیواریں جن کے گھیرے میں آتے ہی سب کا دم گھٹنے لگتا ہے؟ گھر کی یہ حالت پچھلے تین چارسالوں سے ہی ہوئی تھی۔ پتا نہیں اس کے پیچھے ماں کی موت تھی، ونود کی بیکاری تھی، راجکماری کی شادی نہ ہوپانا تھا یا ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھی ہوئی منشی جی کی مالی کٹھنائیاں تھیں۔ کچھ تھا جس نے گھر کی ساری انسانی گرماہٹ چھین لی تھی اور باقی رہ گیا تھا صرف ٹھنڈے اور ناگزیررسمی پن کا لمبا سلسلہ۔ ونود کو پتا تھا کہ باہر محلے کے لڑکے راجکماری کو لے کر کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔پہلے وہ ان باتوں کو سن کر چھٹپٹاجاتا تھا۔ کسی نے اس کے سامنے نہیں کہا، نہیں تو وہ لڑبھی جاتا۔ اب تو اگر اس کے پہنچنے پر سیتارام کی دکان پر محلے کے کشور لڑکے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگتے ہیں یا پھسپھسا کر کھکھلااُٹھتے ہیں تو وہ صرف زخمی خاموشی کے ساتھ چپ چاپ چائے سڑکنے لگتا ہے یا اخبار میں اپنا سرجھکادیتا ہے۔ پپو کے بارے میں بھی اسے جو کچھ جانکاری ملتی رہتی ہے، وہ کوئی بہت سُکھدنہیں ہے۔ اس کی طرف دھیان دینے کی کسی کو فرصت نہیں ہے۔ منشی جی کو جانے کیا ہوگیا ہے، کبھی بھول سے بھی پپوکی پڑھائی لکھائی کے بارے میں نہیں پوچھتے۔ انھیں نہیں پتا لیکن ونود کو پتا ہے کہ پچھلے سال پپونے امتحان نہیں دیا، امتحان کی فیس پتا نہیں کہاں اڑا گیا۔ رزلٹ نکلنے پر منشی جی نے مان لیا تھاکہ وہ فیل ہوگیا ہے۔ وہ خود کتنا اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے؟ سڑک یا گلی میں اس سے ملاقات ہونے پر کس طرح منھ اٹھائے سیدھے چلتا چلا جاتا ہے۔ آج تک کبھی اس نے اسے پڑھانے یا سُدھارنے کی کوشش کی؟ اس سے بڑی عمر والے، لفنگے دوستوں کے بارے میں جانتے ہوئے بھی کبھی اسے ان کے ساتھ جانے سے روکنے کی کوشش کی؟ ان لڑکوں کے ساتھ وہ کن تجربوں سے ہوکر گزررہا ہے، اسے بھی ونود اچھی طرح سے جانتا ہے۔ ایک بار تو گلی کے اندھیرے کونے میں اس نے ایک لڑکے کے ساتھ اسے پکڑلیا تھا لیکن بنا کچھ کہے منھ چرا کر چلاآیا۔ ونود کامن جرم کے احساس سے بھر اُٹھا۔ اس ٹوٹتے ہوئے گھر کے لیے اس کی کیا کوئی ذمے داری نہیں ہے؟ شاید اس کی نوکری سے حالت کچھ سدھرے، اس گھر کی درکتی ہوئی دیواریں کچھ مضبوطی پاجائیں، راجکماری کی شادی ہوجائے، پپومن سے پڑھنے لگے اور منشی جی ایک بار پھر چھڑی اُٹھائے صبح شام ریٹائرڈبوڑھوں کے ساتھ ٹہلنے لگیں۔
ان حوالوں سے یہ نہ سمجھیے گا کہ وبھوتی نارائن راے مستقبل سے مایوس اور قنوطیت کا شکار ہیں، تحریر اور زندگی میں ان کا رویہ اس معالج جیسا ہے جو مرض کی پہچان اس لیے کرواتا ہے کہ اس کا علاج ہوسکے اور لاعلاج ہونے سے بچایا جاسکے۔ سماج میں یہ کردار سچے دانشور کا ہے جو حال سے آگے دیکھتا ہے اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی دانش حال کی غلطیوں اور ان کے تدارک کی راہ دکھاتی ہے وہ اس کا اظہار تحریر وتقریر میں کرتا رہتا ہے۔ وبھوتی نارائن راے جیسے لکھنے والے انھیں بھی پہچان لیتے ہیں جو معاشرے میں امراض پھیلارہے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے