قتل کے عمل کو سرانجام دینے کے بعد وہ چُھپتے چھپاتے جھونپڑیوں کے قریب سے ندی میں اُتر گئے۔پھر اُس سلسلہ کوہ کی جانب نکل گئے جوان کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا تھا ۔ اندھیری رات کے باعث پہاڑ نظروں سے اوجھل تھے لیکن جب انیس بیس تاریخ کا چاند انگڑائی لینے لگا تو نظروں کے سامنے پہاڑوں کی چوٹیاں ابھرنے لگیں۔انہی پہاڑوں کی چوٹیوں سے نکلتی روشنی کو نگاہوں میں جمائے وہ تھکے بغیر آگے بڑھتے رہے۔ اُن کے جسم پسینے سے شرابور تھے۔لیکن وہ اُن سے بے پرواہ سورج نکلنے سے پہلے ایک ایسی محفوظ جگہ پہنچنا چاہتے تھے،جہاں تعاقب کرنے والے اُن کا دھول بھی نہ پاسکیں۔
اندھیری گھاٹی میں کافی دور جانے کے بعد نوجوان قاتل نے اپنے ساتھی بوڑھے قاتل سے سرگوشی کی،کوئی آواز سُنی تم نے؟ بوڑھا قاتل رُک گیا۔
’’کیا ہُوا‘‘اُس نے نوجوان قاتل سے پوچھا اور کچھ سُننے کی کوشش کرنے لگے۔ وہ دونوں اپنی جگہ ساکت ہو گئے۔ دور کہیں ڈھول بتاشوں کی آواز آرہی تھی۔اگست کے مہینے کی آخری عشرے کی خنک رات تھی۔
سارا جہان خاموشی کے بانہوں میں سمٹ گیا تھا۔ صبح صادق سے پہلے چلنے والی ٹھنڈی ہوا دور دراز کی آوازوں کو گھیر گھار کر اپنے دامن میں سمیٹ کر لا رہی تھی۔ دونوں قاتل ڈھول بتاشوں کی آواز صاف سُن سکتے تھے۔ وہ جاننے کی کوشش کررہے تھے یہ آواز کہاں سے آرہی ہے؟ ۔ چاند کالے مہیب پہاڑوں کے پیچھے اُداس آنکھوں سے جھانک رہا تھا۔
نوجوان قاتل نے منہ میں نسوار رکھتے ہوئے کہا ’’شاید کہیں شادی کی کوئی تقریب ہو‘‘
’’شاید‘‘ اُس کے بوڑھے ساتھی نے اُس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ مگر پھر کچھ سوچ کے بولا’’ہم بہت دورنکل آئے ہیں۔آس پاس کوئی گاؤں یا آبادی تونہیں کہ شادی ہورہی ہو؟ ۔۔۔ ۔۔۔ میں ان علاقوں سے بخوبی واقف ہوں۔یہاں میں جوانی میں گلّہ بانی کیا کرتا تھاتھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ مجھے بُری طرح پیاس لگی تھی۔ڈھونڈنے پر بھی کوئی آبادی نہیں ملی، ۔۔۔ لیکن میں غلط بھی ہوسکتاہوں۔ شاید ہم کسی آبادی کے قریب گزررہے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے، ہم بُہت دور نکل آئے ہوں ‘‘

پھروہ آگے بڑھنے لگے۔ اب وہ ایک ڈھلوان میں چل رہے تھے۔ اُن کے پیچھے ایک پہاڑی سلسلہ پھیلا ہُوا تھا جبکہ سامنے ایک تاریک ڈھلوان اور اسی ڈھلوان کے آخری سرے سے ڈھول بتاشوں کی آواز آرہی تھی۔ اب یہ آواز اونچی اور صاف صاف اُن کی کانوں میں پڑ رہی تھی۔ دونوں قاتلوں کے قدم اُسی جانب اُٹھ رہے تھے۔
ڈُھول بتاشوں کی اُداس کرنے والی آوازپہاڑیوں اور ڈھلوانوں کے درمیان ایک جادوئی سماں باندہ رہی تھی۔ ایک لمحے کے لئے وہ بھول گئے تھے کہ وہ ایک آدمی کو مار کر اُس کی لاش کھائی میں پھینک چکے ہیں۔ڈُھول بتاشوں کی آوازقریب ہوتی جارہی تھی۔ وہ دونوں رُک گئے۔ نوجوان ساتھی ایک بار پھر کہنے لگا۔ ’’چلیں وہاں پانی بھی پئیں گے۔ دوچاپی (بلوچی لوک رقص)بھی دیکھیں گے۔ ‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ دوسرے ساتھی نے کہا’’کیونکہ پیاس سے میری جان نکلی جارہی ہے اور میرے پاؤں سو سومن بھاری ہو رہے ہیں۔ ‘‘
پھر وہ اندھیرے میں ڈھول بتاشوں کی آوازکی جانب چلنے لگے۔ گاؤں کے آثار ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔ کسان کے خمیدہ ہل کی طرح آدھاچاند بھی اپنے منزل کی جانب محوِ سفر تھا۔ بوڑھا ساتھی آدھے چاند کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے نوجوان ساتھی سے کہنے لگا۔
’’ دیکھوچاند بھی جیسے کسی نے دو حصوں میں کاٹ دیا ہے‘‘
’’کیا مطلب‘‘ نوجوان ساتھی نے پوچھا
’’میرا مطلب ہے کہ جیسے تم نے حاصل کی گردن کے دو حصّے کئے بالکل اسی طرح کسی نے چاند کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ‘‘ نوجوان قاتل کچھ نہیں بولا۔اُس نے اپنا دل بوجھل محسوس کیا ۔جیسے کسی نے اُس کی سانس روک لی ہو۔ اُس نے اپنے بوڑھے ساتھی سے کہا۔’’چھوڑو اس بات کو ، کوئی اور بات کرو‘‘ بوڑھے کی ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ کھیلنے لگی جس کو اندھیرے میں اُس کا نوجوان ساتھی دیکھ نہیں سکا۔
جب وہ گاؤں کے قریب پہنچے توا چانک رُک گئے کچھ توقف کے بعدخاموشی سے گاؤں میں داخل ہوگئے۔
یہ خانہ بدوشوں کا جھونپڑیوں اور خیموں کاچھوٹا سا گاؤں ڈھلوان کے کنارے آباد تھا۔ شاید گاؤں میں خوشی کا کوئی موقع تھا۔ کچھ خانہ بدوش نوجوان میراثیوں کے ڈھول بتاشوں کی لے پر رقص کررہے تھے۔ وہ اپنے حال میں مست نظر آرہے تھے۔ حالانکہ رات کافی بیت چُکی تھی اور اب صبح کے آثار شروع ہونے والے تھے لیکن ان کے رقص کا جنون ختم نہیں ہوا تھا۔ جب انہوں نے دونئے مہمانوں کو دیکھا تو ان کوخوش آمدید کہا، خاطر مدارات کی۔ حقّہ پانی کے بعد وہ دونوں بھی رقص میں شامل ہوگئے۔ ڈھول اور بتاشوں کی آواز زمین اور آسمان کو ایک کئے ہوئے تھی۔ دونوں قاتل ڈھول کی تھاپ پر رقص کررہے تھے۔ رقص میں بدمست وہ اپنی ماضی اور مستقبل سے فراموش نظر آرہے تھے۔ انہوں نے جس آدمی کو قتل کیا تھا وہ یہاں سے بُہت دُور ایک خشک گھاٹی میں منوں مٹی تلے دبا ہوُا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُسے کس نے مارا ہے۔ ڈھول بتاشوں کی ایک باری ختم ہوئی تو دوسری باری ایک عالمِ سرمستی میں اونچی ہوگئی ۔ جسے کسی پر جن اور بھوت کا سایہ پڑا ہو اور وہ زور سے چیخ وپکار کررہا ہو۔ یہ ایک کیسی رات تھی کہ جس میں ان دو قاتلوں کو رقص کرنا تھا ۔ دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہونا تھا۔ گاؤں والے تعجب میں پڑگئے تھے کہ ان دونوں مہمانوں کو خدا نے دوچاپی اور رقص کی کیسی صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ تھکنا بھی نہیں جانتے تھے۔ نہایت ہی مہارت اور کمال کے ساتھ رقص میں مشغول تھے۔ آخر میں گاؤں کے لوگوں نے خود رقص کرنا چھوڑ دیا تھا بس اُن دونوں ساتھیوں کے رقص سے لُطف اندوز ہورہے تھے۔ ایک نہایت ہی بڑے پتھر پر بیٹھے گاؤں کا سرپنچ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ خُدا نے اُن دونوں کو رقص کرنے کی کیسی نایاب صلاحیت عطا کی ہے۔ بوڑھا اور نوجوان دونوں نے مراثیوں کو تھکا دیا لیکن خود رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ مسلسل رقص کئے جا رہے تھے جیسے آج کی رات اُنہیں رقص کرتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سُپرد کرنا ہو۔
جب رقص کرتے ہوئے وہ حال سے بے حال ہوگئے تو لہر کی آخری ڈھول کی تھاپ اور شہنائی کی آخری ساز بھی رُک گئی تو وہ دونوں بے دم ہوکر گر گئے اور لوگوں نے تالیاں بجاکے انہیں داد دی۔
پھر ڈھول بتاشوں کا ہنگامہ ختم ہوگیا اور گاؤں والے اپنے جھونپڑیوں اور خیموں کی جانب چلے گئے تو وہ دونوں گاؤں کے ایک کونے پہ بنے ایک جھونپڑی کے سامنے لیٹ گئے۔ پَو پھٹنے سے کچھ پہلے ، نوجوان قاتل بوڑھے قاتل کی بستر کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا:
’’ہم نے حاصل کو کیوں مَارا؟‘‘
’’اس لئے کہ وہ سیاہ کار تھا‘‘
’’کون کہتا ہے‘‘نوجوان نے عجیب و غریب لہجے میں پوچھا جیسے ڈھول بتاشوں اور رقص نے اُس کے اندر چھپے حقیقی انسان کوجگا دیا ہو۔
’’یہ کیا سوال ہوا، کہیں تم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو ؟‘‘ بوڑھے ساتھی نے پوچھا۔
’’میں پاگل نہیں ہوں لیکن تم نے مجھے کیوں ساتھ لیا تھا؟‘‘
’’ اس لئے کہ حاصل ہم دونوں کے گھر سیاہ کاری کا مرتکب ہوا تھا۔ اُس کا انجام سوائے موت اور کیا ہوسکتا ہے۔‘‘
’’مجھے اس سوال کا صحیح جواب چاہیے ورنہ میں تمھیں ماردوں گا‘‘ اُس نے بوڑھے کے سامنے اپنا خنجر لہرا دیا۔ بوڑھا ساتھی حیرت میں پڑ گیا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ اُس نے اٹھنا چاہا لیکن نوجوان نے اُس کو اُٹھنے نہیں دیا:’’تم اُٹھ نہیں سکتے‘‘
’’بے حیا‘‘ بوڑھے نے کہا’’میں تمھارا چاچا ہوں ‘ تمھارے بہن کے ساتھ سیاہ کار ہونے والے شخص کو مارنے میں تمھارا ساتھ دیا ہے ۔ میرے ساتھ اس طرح کا سلوک کررہے ہو، تمھیں شرم آنی چاہیے‘‘
نوجوان ساتھی نے اپنا خنجر ہوامیں لہراتے ہوئے کہا ’’ میری بہن سیاہ کار نہیں تھی، یہ ایک الزام ہے جس کا مجھے بے حد افسوس ہے،میں تمھیں مارکے رہوں گا، تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘
’’آخر تمھیں ہُوا کیا ہے؟‘‘
’’مجھے کچھ نہیں ہوا، لیکن تمھیں مرنا پڑے گا‘‘ بوڑھا ساتھی اُس کی منّت سماجت کرتا رہا، دھونس دھمکی دیتا رہا لیکن اس سے پہلے کہ کسی اور کو خبر ہوتی نوجوان ساتھی کا خنجر اُس کے دل میں اُتر گیا۔ اس کے بعد نوجوان نے یہی خنجر اپنے سینے میں اُتار دیا۔
صبح ڈھول بتاشوں کی خوشیوں کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اُن کے جنازے اُٹھائے۔ گاؤں والوں کے لئے اب بھی یہ ایک سربستہ راز تھاکہ ڈھول بتاشوں کا انجام اس طرح کیوں نکلا۔؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے